زندگی ایک دائرہ ہے
دائرے کی ابتدا ہو تی ہے
نہ دائرے کی انتہا ہوتی ہے۔۔
نہیں
دائرے کی جو ابتدا ہوتی وہی دائرے کی انتہا ہوتی ہے۔
زندگی ایک لائن ہے
اس کی ابتدا ہوتی ہے
اس کی انتہا ہوتی ہے۔
لیکن
یہ حیوان تو ہر صدی بعد اپنی تاریخ دہراتا ہے ۔۔
اپنی جنس کو کھاجاتا ہے۔
روم کا نیرو
مقدونیہ کا سکندر
امریکہ کا بش
ایک تہذیب اٹھاتا ہے اک مٹاتا ہے۔
سکندر ہر صدی کے آخر پر آتا ہے۔
نہیں،نہیں
یہ فریب ہے
جو چلا گیا کبھی نہیں آتا ہے ۔۔
زندگی اک بار ملتی ہے۔
چمن میں کلی اک بار کھلتی ہے
اک دریا میں کون دو دفعہ نہاتا ہے؟
مزدور تو ہر روز ٹو کری اٹھاتا ہے
زندگی ایک curve ہے۔
زندگی ایک چکردار زینہ ہے
یہ خود کو دہراتے دہراتے آگے بڑھتی ہے
آگے بڑھتے بڑھتے خود کو دہراتی ہے۔
یہ ساز زندگی ہے
یہ راز زندگی ہے۔
جبلت خود کو دہراتی ہے
محبت آگے بڑھتی جاتی ہے
زندگی نہ لائن ہے، زندگی نہ دائرہ ہے
یہ نقطہ ہے
زندگی نطفہ ہے
یہ سب نقشے بناتی ہے
یہ سب رشتے بناتی ہے
یہ سب زاویے بناتی ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں