• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • استحکام پاکستان پارٹی -کنگز پارٹی یا ایک اور پی ایس پی/محمدآصف اسلم

استحکام پاکستان پارٹی -کنگز پارٹی یا ایک اور پی ایس پی/محمدآصف اسلم

یادش بخیر ،ابھی کوئی سات سال پہلے کی بات ہے جب 2016  مارچ کی ایک شام سانحہ سقوط ڈھاکہ سے پانچ دن بعد جنم لینے والے سید مصطفی کمال کوئی تین بجے کے قریب ٹی وی سکرینز پہ  نمودار ہوئے  اور آنسوؤں سے بھری ہوئی ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔ان کے ہمراہ جناب انیس قائم خانی بھی تھے اور یہ پریس کانفرنس خیابان سحر ڈیفنس کے ایک گھر میں کی گئی تھی جو ان کے بقول کرایہ کا گھر تھا۔اس پریس کانفرنس میں جناب سید مصطفی کمال کے آنسوؤں نے ایک سماں باندھ دیا اور یوں لگتا تھا کہ بانی متحدہ سے زیادہ ظالم جابر اور ننگ دین و ملت کوئی نہیں  ہے ۔جناب مصطفی کمال توبس ایک بے بس کھلونا  تھے جو پہلے کراچی کے میئر پھر ایم پی اے اور پھر سینیٹر بنا دئیے گئے تھے۔(ویسے مشرف دور کی ہزار خامیوں کے باوجود بھی یہ کارنامہ ان کے کھاتے میں جاتا ہے کہ انہوں نے مضبوط بلدیاتی ڈھانچہ دیا تھا۔کراچی کے دونوں ناظم کمال کے تھے پہلے نعمت اللہ خان اور پھر مصطفی کمال نے مقدور بھر کوششیں کیں تھیں اور کراچی کا حلیہ ان دنوں خاصا بدلا بدلا سا ہوتا تھا) معذرت بات کہاں سے سے کہاں نکل گئی تو اس پریس کانفرنس کے ٹھیک بیس دن کے بعد جناب مصطفیٰ کمال صاحب نے اپنی پارٹی (پاک سر زمین پارٹی)کا اعلان کر دیا اور پہلے دو بنیادی ممبر جناب مصطفیٰ کمال صاحب اور انیس قائم خانی بھائی قرار پائے ۔تھو ڑے ہی دنوں کے اندر   جناب ایم کیو ایم کے اکثر مرکزی رہنما ایک ایک کر کے پارٹی میں اکٹھے ہوتے گئے اور یوں لگنے لگا کہ یہ پارٹی مقابلے میں تو ہے ۔ان دنوں جناب الطاف حسین کا نام بھی پاکستانی سیاست میں لینا ایسے ہی ممنوع تھا جیسے آج کل قاسم کے ابّا یا شوکت خانم کے بیٹے کا   نام لینا ۔اس لیے ایم کیو ایم کو ان کی نگرانی سے نکال کے ایک نئے بانی ڈاکٹر فاروق ستار کی سرپرستی میں میدان میں لایا گیا اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اس کے پہلے کنوینئر مقرر ہوئے۔

اس سارے معرکے کے پعد پی ایس پی کو پہلا مقابلہ پیش آیا2018 کاالیکشن۔۔جس میں  الطاف بھائی کے بائیکاٹ کا  کراچی والوں نے مثبت جواب دیا اور ٹرن آؤٹ بہت ہی کم رہا۔ پارٹی  اپنے ورکرز کو باہر نکالنے میں کامیاب رہی اور اس کے امیدوار چالیس چالیس ہزار یا پچاس ہزار ووٹ لے کےاسمبلی کے ممبر بن گئے کسی کسی جگہ ایم کیو ایم نے مقابلہ کیا اور تھوڑی بہت سیٹیں بھی جیتی پر سب سے بُری ہوئی جناب مصطفیٰ کمال صاحب کی پارٹی کے ساتھ، جس کے سارے امیدوار کراچی اور حیدر آباد سے ہار گئے۔ جناب بانی پی ایس پی بھی اپنی دونوں سیٹیں بُری طرح ہارے۔ان کی جماعت سے زیادہ ووٹ تو کراچی میں پہلی بار الیکشن لڑنے والی تحریک لبیک لے گئی۔

معذرت کہ آپ لوگوں کو تھوڑی دیر کے لیے ماضی میں لے جایا گیا مقصد صرف یہ تھا کہ تب کے کراچی کے حالات اور آج کے پاکستان کے حالات آپ کے سامنے آ سکیں کہ ہم لوگ ابھی تک دائروں میں ہی سفر کر رہے ہیں ۔ہم نے ماضی سے کچھ نہیں  سیکھنا اور نہ  ہی ہمارا مستقبل میں کوئی ارادہ ہے۔

کل جناب جہانگیر خان ترین نے اپنی پارٹی استحکام پاکستان کا اعلان کیا ہے۔اس کا بنیادی ڈھانچہ کیا ہے کون کون اس کے اجزا ہیں یہ ابھی تک کسی کے سامنے نہیں  ہے ،پر کل مورخہ 8  جون کو پارٹی بنا دی گئی کچھ لوگ اس کو کنگز پارٹی کے نام سے بلا رہے ہیں جبکہ میرا خیال تھوڑا مختلف ہے میرے خیال میں یہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ایک اور ناکام تجربہ ہے ایک اور پی ایس پی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔کیوں کہ ابھی تک کے اجزائے ترکیبی کے مطابق اس پارٹی میں بس لیڈران ہی آ رہے ہیں یا پھر سوشل میڈیا پہ ان کو ڈیفینڈ کرنے کے لیے پی ٹی آئی کا چلا ہوا کارتوس ڈاکٹر فرحان ورک۔اس میں سپورٹرز اور ووٹر اور کارکنان کہاں ہیں۔ ان میں اکثریت وہ ہے جو اپنی ذاتی حیثیت میں کچھ بھی نہیں ہیں۔

شروع کرتے ہیں جناب بانی محترم جہانگیر خان ترین صاحب سے۔اگر نئے قانون کی مدد سے وہ الیکشن لڑ سکے تو میرا نہیں  خیال کہ وہ اپنی ذاتی سیٹ بھی جیت سکیں گے۔ان کی سیٹ پہ  پیر اقبال شاہ اور کانجو گروپ کے صدیق بلوچ مضبوط امیدوار ہیں اس کے علاؤہ پی ٹی آئی کے ایم این نے ابھی تک پارٹی چھوڑی نہیں  ہے۔ویسے ترین صاحب پہلی بار اسمبلی میں مخدوم احمد محمود جو کہ ان کے قریبی عزیز ہیں انکی وجہ سے گئے اور دوسری بار قاسم کے ابا کی وجہ سے ۔ورنہ حالت تو یہ ہے ان کا بیٹا بھی ضمنی الیکشن ہارا ہے۔ان کا اس علاقے میں ذاتی ووٹ بینک کانجو گروپ کے مقابلے میں نہ  ہونے کے برابر ہے۔

دوسرے بڑے امیدوار ہیں جناب علیم خان صاحب ۔یہ موصوف پچھلے الیکشن میں لاہور کی دو سیٹوں سے امیدوار تھے جن میں سے قومی کی ہاری اور ایک صوبائی کی اسمبلی کی جیت کے صوبائی اسمبلی میں گئے۔ساڑھے تین سال یہ سینئر صوبائی وزیر کا پروٹوکول انجوائے کرتےرہے پھر جب انہوں نے اپنی سیٹ چھوڑی تو ن لیگ کی مکمل سپورٹ اور لاہور شہر میں حمزہ شہباز کی حکومت کے باوجود ان کاحمایت یافتہ امیدوار میاں اکرم عثمان سےہار گیاجو اپنا حلقہ چھوڑ کے دوسرے حلقے میں جا کر الیکشن لڑ رہے تھے۔ان کی اپنی اتنی سی حیثیت اور ووٹ بنک ہے پی ٹی آئی کا نام لگا رکھا تھا تو ان کا اسٹنٹ شعیب صدیقی بھی لاہور کاضمنی الیکشن جیت گیا تھا اور چھوڑا تو خود اپنی سیٹ بھی نہیں  بچا پائے ۔اس بارشاید ن لیگ اور ان کا اتحاد   کوئی پھل دے دے ورنہ مجھے تو اگلی اسمبلی میں نظر نہیں آ رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بقیہ پاکستان کی جمہوریت دنیا کی واحد جمہوریت ہے جہاں اسمبلی کا راستہ جی ایچ کیو کے دروازے سے نکلتا ہے۔ 17 جولائی کو پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کو شکست ہوئی ہی اس لیے کہ وہ کھل کے مداخلت نہیں  کر پائے اور ٹرن آؤٹ بھی خاصا زیادہ رہا۔۔اس بار دیکھتے ہیں کہ کیا بنتا ہے اور کون سا سانپ مداری کی ٹوکری سے نکلتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply