خدا کے نام ایک درخواست/محمد وقاص رشید

بخدمتِ شہنشاہِ کائنات پروردگارِ عالم باری تعالیٰ!
تیری شہنشاہی امر ! یقین ہے کہ زمینی خداؤں کے تسلط سے دور آسمان کا نظام بہترین چل رہا ہو گا۔
عالم پناہ اس سے پہلے تین بار زبانی کلامی گذارشات تیری بارگاہ سے سے رد ہوئیں سو سوچا کہ تو نے حکم لکھ کر بھیجا میں عرضی قلم کا سر کاغذ کی دہلیز پر جھکا کر کیے دیتا ہوں۔

الہی !تجھ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ پہلی گزارش میں نے تب کی تھی جب میں نے اس دل کی خیر مانگی تھی جس سے زندگی نے دھڑکنا سیکھا تھا۔ جن سانسوں نے حیات کو پہلا تنفس دیا تھا ان کو بند ہوتا دیکھا تو سینے میں سانس لیتی زندگی کا دم گھٹنے لگا تھا مگر ہجر زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ بھاگتی دوڑتی زندگانی یتیمی کی بیساکھی پر آ گئی۔

ذوالجلال ! دوسری بار بچپن کا یار ساتھ تھا۔ قاضی زاہد نواز ! عجیب قیامت تھی۔ زندگی کی سب سے بڑی یادگار لالہ موسیٰ کی گلیوں ، کھیل کے میدانوں ، قاضی کدے ننھیال گھر سے خواب نگر ملکوال کے کرکٹ میدانوں تک اکٹھے بھاگتے دوڑتے لنگوٹیے کا زندگی کی ایک اور یادگار ڈاکٹر سبحانی کے کلینک پر ٹوٹتی سانسوں اور ڈوبتی دھڑکنوں کے ساتھ رینگنا عجیب سانحہ تھا۔ اسکی زندگی میں کیا مانگتا جو کار کی سیٹ پر ساتھ بیٹھی اس کائنات کی واحد کہسار ِ صبر ماں نے مانگی تھی ، نہیں ملی۔ اسکے قہقہوں سے نزع کی ہچکی تک کی داستان لکھنے کی ہمت جمع کر لوں تو لکھوں۔

خدا جی ! تیسری بار ممتا کی چھاؤں جیسی بھابھی ، کہاں زندگی کے افق کی وہ اڑان اور کہاں مولانگر شمالی کی اس کچی پکی گلی میں دیوار کے سہارے چلتی وہ فرشتہ صفت عورت۔ کیا میں ، میں کرتا رہوں۔ وہ چار سال کا بچہ جسے معلوم نہیں تھا کہ اسکی جان نچھاور کرتی ماں کے پاس اب نچھاور کرنے کو جان نہیں رہی۔ اسکی ممتا بھی اسے نہ روک سکی تو میں کون ؟ بڑے لالے کے چہرے پر درد کے عالم میں ہونٹوں کےدرمیان ایک قوس سی بنتی ہے۔ وہ روتی آنکھوں کو صلیب دے دیتی ہے۔ میں اس صلیب کے اثر سے نکل کر انکی داستان قلمبند کرنا چاہتا ہوں۔ قلم و قرطاس کی دنیا اس داستان کے بنا ادھوری ہے۔

اور اب یارب ! تو جانتا ہے کہ ایک اور ابتلا ہے۔ وہی کیفیات ، وہی علامات ، دل بڑھا ہوا سانسیں تیز چلتی ہوئیں۔ معالج نے   کہا کہ اینٹ جتنا وزن بھی نہیں اٹھانا۔ اینٹ جتنا وزن۔ الہی اب تو ہی بتا۔ گھروں میں کام کرتی بیوہ عورت ، زندگی اپنے ہی رستے میں بکھری ہوئی دیوار۔ بھوک کی اینٹیں ، احتیاج کی اینٹیں ، بنیادی ضروریات کی اینٹیں ، دوا دارو کی اینٹیں اور تو اور زرد بے نور آنکھوں میں آٹھویں میں پڑھتے اپنے اکلوتے یتیم بچے کو بڑا آدمی دیکھنے کے خواب کی اینٹیں۔ اب ان میں سے کوئی پکی اینٹ نہ اٹھائے تو اپنے بدن کی کچی اینٹیں کیسے استوار رکھے۔ ؟ عجیب امتحان ہے بے چاری پر ۔ کام نہ کرے گی تو بھوک سے مرتی ہے کرے گی تو کام سے۔

وہ اپنی کیفیات اردو میں بتانے سے قاصر ہے۔ شہردار مسیحا اسکی سرائیکی سمجھنے سے قاصر۔ آر آئی سی ریفر ہوئی تو اسکی کیفیات ایک کاغذ پر لکھیں تو ایک بار پھر وہی جو ہوتا ہے پتا ہی نہیں چلا نم آنکھوں اور کانپتے ہاتھوں سے کاغذ پر کیفیات اسکی لکھیں یا اوپر بیان کردہ گم گشتگان کی۔

بھلا ہو ڈاکٹر وقاص صاحب کا جنہوں نے انہیں پڑھا اس کو بہت توجہ سے دیکھا بھالا اور اپنا نمبر میرے نام بھیج دیا کہ کسی ناگہانی کی صورت رابطہ کر لوں۔

اے لا شریک شہنشاہ ! مسیحا کہتے ہیں اسکا دل بڑھ گیا۔ تجھ سے بہتر کون جانتا ہے کہ غریبوں کے دل بڑھے ہوئے نہ ہوں تو حیات کی عسرت بیچ میں سما ہی نہ سکے۔

اے ازلی و ابدی خدا ! اسکا بیٹا مجھ سے بڑی باتیں کرتا ہے۔ ماں کو تنخواہ ملے تو موٹر سائیکل پر کوئی چھوٹا موٹا کام کروا کر مجھے ضرور بتاتا ہے۔ میں اسے کہتا ہوں انہی موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی تعلیم حاصل کر جاؤ بڑے آدمی بن جاؤ۔ اپنی ماں کا خواب پورا کر جاؤ ، کتابوں کہانیوں کا ایسا کوئی کردار اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی تمنا ہے بیٹے۔ کہنے لگا چاچو مجھے آپکی باتوں سے یہ بات تو سمجھ میں آ گئی کہ پڑھائی کے بغیر بندہ بڑا آدمی نہیں بن سکتا۔ میں نے کہا ہاں شاباش۔

کل مجھ سے اپنی ماں کی دوائیں سمجھ رہا تھا تو میں ایک ایک دوائی پر ڈوز لکھ رہا تھا۔ دوائیوں کے سپیلنگ اسے یاد کروا رہا تھا۔ میں اس سے کہہ رہا تھا اپنی والدہ کا اب زیادہ خیال رکھا کرو ، انہیں دوائیاں وقت پر دو ، رات کو پیر شیر دبایا کرو۔ اسکی آنکھوں میں گہری سنجیدگی مجھے بتا رہی تھی کہ وہ اچانک بڑا آدمی بن گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اے عالم الغیبِ مالک ! سچ تو یہ ہے کہ ڈرتے ہوئے دل سے آخر میں تجھ سے یہ ناچیز عرض کرتا ہے کہ الٹی سیدھی چار سطور کی تحریر سے زمینی مسیحا کے دل میں رحم ڈالنے والے اے ارحم الراحمین اس خاتون کو شفا و سلامتی عطا فرما۔ اسکے بیٹے نے ابھی بڑا آدمی بننا ہے۔
بڑی عنایت ہو گی اے حیات و موت کے مالک
بندہِ ناچیز!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply