مثل برگ آوارہ/مزے اور پریشانی باہم -9/ڈاکٹر مجاہد مرزا

بالکل ہی اور طرح کے ماحول میں آ کر مجھے لگا تھا جیسے میں کسی اور آسمان پر آ گیا ہوں جس میں مظہر فرشتے اور نتاشا حور کے روپ میں دوست تھے۔ میں جانتا تھا کہ یہ مقام جنت ہرگز نہیں ہے مگر جنت کے مزے لینے کا چسکا البتہ دل کے کسی نہاں خانے میں کلبلا ضرور رہا تھا۔ تبھی تو جب میں ان دو دوستوں کے ہمراہ پہلے ہی روز دارالحکومت کی اس معروف سڑک کی سیر کرنے گیا تھا جو زمانہ قدیم میں عرب تاجروں کی منڈی رہنے کی وجہ سے “عربات” کے نام سے مشہور ہے تو میں نے “عربات قدیم” نام کی گلی میں جہاں تماشہ کرنے والے، داستان گو، مصور، موسیقار یعنی وہ سب جو لوگوں کا دل بہلانے کے ساتھ ساتھ کچھ کمانے اور اپنا شوق پورا کرنے میں لگے ہوئے تھے، گٹار بجاتے مرد کے سامنے تھرکتی ہوئی ایک ماہ رخ سے ہیلو ہائی کی تھی مطلب یہ کہ زندگی میں شاید پہلی بار صنف نازک کی کسی رکن سے اپنے طور پر متعارف ہونے کی سعی کی تھی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ان دنوں غیرملکیوں کی بہت قدر تھی اور خاص طور پر ہندوستانی چہرے مہرے والے مرد تو نوجوان لڑکیوں کو بے حد مرغوب تھے۔ لڑکی کو بہت ہی واجبی انگریزی آتی تھی اور میں تو ظاہر ہے ان کی زبان سے یکسر نابلد تھا۔ مظہر نے حق دوستی نبھاتے ہوئے روسی زبان میں اس لڑکی سے بات چیت کی تھی۔ لوٹتے ہوئے مظہر نے مجھے بتایا تھا کہ اسں نے اسے مجھ سے ملنے آنے کی دعوت دی ہے جو اس نے قبول کر لی ہے۔

جب ہم تینوں سیر کرکے لوٹے، تب کہیں شام کے چھ ساڑھے چھ کا وقت تھا لیکن یوں لگتا تھا جیسے سورج نصف النہار پر ہے۔ جولائی کا مہینہ تھا۔ قطب کے نزدیک ہونے کی وجہ سے یہاں نام نہاد گرمیوں کے موسم میں سورج ساڑھے دس گیارہ کے قریب غروب ہوتا تھا۔ ابھی ہم شغل مے کر رہے تھے کہ وہ لڑکی اپنے ایک دوست کے ہمراہ آ گئی تھی۔

مظہر اور اس کی بیوی ان دونوں کو جینز کی پتلون دکھا رہے تھے۔ دونوں باری باری غسل خانے میں گئے تھے مگر جینز کسی کو فٹ نہیں آئی تھی۔ بالآخر مظہر نے اپنی ایک پرانی جینز لڑکے کو دے کر رخصت کیا تھا اور ساتھ ہی ایک قہقہہ چھوڑا تھا۔ میں بھی مسکرا دیا تھا۔

شیمپین کی ایک اور بوتل کھل گئی تھی۔ مظہر نے ایک دو پیگ پینے کے بعد نتاشا کو کچھ کہا تھا اور مجھ سے رجوع کرکے بولا تھا،”آپ نتاشا کے ساتھ کاریڈور میں چلے جائیں۔ میں اس لڑکی کو تیار کرتا ہوں”۔ آدھے گھنٹے کے بعد وہ کمرے سے باہر آیا تھا اور مجھے اندر جانے کو کہا تھا۔ جب میں کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ لڑکی صرف جانگیہ پہنے سکڑی سمٹی بیٹھی ہے۔ اوہ جنت کے مزے، میرے دل میں ہوک اٹھی تھی اور میں نے چٹخنی لگاتے ہی دست درازی شروع کر دی تھی۔ وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کسی “بلغاروی” کا ذکر کر رہی تھی اور ساتھ ہی اپنے ساتھ ہونے والی اس کی کسی زیادتی کا بھی۔

میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں ایک شریف آدمی تھا۔ ظلم و زیادتی سے گھبراتا تھا۔ اس لڑکی کے ساتھ ملوّث ہونے میں لڑکی کی جانب سے انگیخت کا عمل نہ ہونے کے برابر تھا مگر میری شرافت مہم جوئی کا پہلا سبق پڑھتے ہوئے پانی پانی ہو چکی تھی۔ پھر ہم دونوں کپڑے پہن کر عام لوگ بن گئے تھے اور دروازہ کھول دیا تھا۔

مظہر نے الٹی سیدھی ہانکتے ہوئے لڑکی کو کوئی چھوٹا سا  تحفہ دے کر رخصت کر دیا تھا۔ مظہر نہانے کی خاطر غسل خانے میں داخل ہوا تو میں یہ سوچ کر کہ اب تو ایک ہی حمام میں ننگا ہونا ہے اس کے ساتھ غسل خانے میں گھس گیا تھا اور ساتھ ہی نہا لیا تھا۔

مظہر کے ساتھ اپنی یہ اچانک بے تکلفی میری اپنی سمجھ سے بالاتر تھی۔ البتہ اس عمل میں مغرب کی آزاد روی سے متعلق میرے اپنے ہی کسی احساس کا پرتو ضرور تھا، پھر یہ کہ مجھے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ یہاں کے ہوسٹلوں میں مشترکہ غسل خانے ہیں۔ اگرچہ یہ غسل خانہ دو مشترکہ کمروں کے لیے تھا۔ غسل خانے کے دروازے کے روبرو کھلنے والے کمرے میں ایک افریقی لڑکا اور افریقی لڑکی اکٹھے رہتے تھے۔ شاید ایسا کرتے ہوئے میں نے خود کو آئندہ کی مہم جوئیوں کے لیے تیار کرنے کا جتن کیا تھا۔

رات کا ملگجا پن شروع ہو چکا تھا۔ اب وادکا کی بوتل کھل گئی تھی۔ یہاں وادکا بغیرقو کوئی اور مائع ملائے براہ راست پی جاتی ہے۔ حلق سے وادکا نیچے اتار کر منہ کی کڑواہٹ کو کم کرنے کی خاطر کوئی شربت، جوس، پانی یا کچھ بھی اور بعد میں پی لیا جاتا ہے۔ زیادہ شراب پینے والے یعنی اصل شرابی تو کوئی بھی چیز تاحتٰی کہ  آستین کا کف یا کوئی حصہ سونگھ کر ہی کام چلا لیتے ہیں۔

اس ملک میں، بالکل آزاد، وہ بھی ایک ہوسٹل میں، میرا اپنی اہلیہ کے سب و شتم اور اپنے ملک کی گھٹن سے دور ہونے کا یہ پہلا دن تھا۔ ہوا میں ہلکی ہلکی خنکی گھل چکی تھی۔ میں نویں منزل کے مشترکہ کچن کی کھڑکی سے ٹانگیں باہر لٹکا کر بیٹھا ہوا تھا۔ میں جو اونچائی سے بے حد خوف کھاتا تھا، بعد میں جب اپنی اس حرکت کو یاد کرتا تو میرا دل میرے حلق میں آ اٹکتا تھا۔ رات گئے بالآخر نیند کی دیوی کے ہتھے چڑھ ہی گئے تھے۔

بیدار ہونے کے کچھ دیر بعد نتاشا نے ہنستے ہوئے بتایا تھا کہ رات آنے والی دھان پان لڑکی نے کہا تھا کہ تم اس کی زندگی میں چونتیسویں مرد تھے۔ وہ اپنے خاوند مظہر کو حذف کر گئی تھی۔ یہ صداقت بھی بہت دیر بعد کھلی تھی کہ مظہر اپنی بیوی کے سامنے اس کی زبان میں کسی لڑکی کو میرے لیے تیار کرنے کا کہہ کر بیوی کو غچہ دیتے ہوئے اپنا کام پہلے دکھا دیا کرتا تھا۔ جب مجھ پر اس لڑکی کی “مردم آشامی” عیاں ہوئی تو میرے چھکے چھوٹ گئے تھے۔ میں سدا کا وہمی تھا۔ مجھے لگا تھا جیسے مجھے ایڈز ہو جائے گی۔ میں مظہر کے سر ہو گیا تھا کہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے کر جائے۔ بیچا رہ  کسی طرح مجھے یونیورسٹی کے پولی کلینک میں ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا اور مترجم کے فرائض بھی سرانجام دیے تھے۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا تھا کہ ارتباط کے کم از کم پانچ سال کے بعد اگر ہونی ہو تو ایڈز ہوتی ہے وہ ابھی سے میری بھلا کیا مدد کر سکتا تھا؟ ڈاکٹر نے یہ بھی کہا تھا کہ پیشگی احتیاط کرنا آپ کا اپنا کام تھا ۔ میں بیچار اپنا سا منہ لے کر آ گیا تھا اور بہت خفیف ہوا تھا۔

مظہر یونیورسٹی سدھار گیا تھا۔ نتاشا میرے ہمراہ تھی۔ بیئر کی کھلی بوتلیں ہمارے ہاتھوں میں تھیں اور وہ مجھے قریب کے جنگل کی سیر کرا رہی تھی۔ میں تو پیاس کے مارے ہوئے ملک سے آیا تھا چنانچہ میری بوتل جلد خالی ہو گئی تھی۔ نتاشا نے مجھے اپنی آدھی بھری یا آدھی خالی بوتل پینے کے لیے پیش کی تھی۔ میں نے لینے سے انکار کر دیا تھا۔ نتاشا نے پوچھا تھا،” کیوں نہیں پیتے، کیا مزید بیئر پینے کو دل نہیں کر رہا”۔ میں نے سچ بولتے ہوئے کہا تھا،” دل تو کر رہا ہے لیکن اس بوتل کو تم نے منہ لگایا تھا”۔ جواب میں اس نے خاص انداز میں اپنی گردن تھوڑی سی ٹیڑھی کرکے، طنزیہ مسکراہٹ مسکراتے ہوئے پوچھا تھا،” مرزا، کیا تم مجھے لب بہ لب، دہن بہ دہن چوم سکتے ہو؟” میں تو بھوکا غیرملکی تھا جو محض اخلاقیات کی فرغل میں زبردستی گھسا ہوا تھا ، جسے اتار پھینکنے کے بس بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔ فوراً  بولا تھا، “کیوں نہیں” جیسے وہ ابھی اپنے ہونٹ اپنی جھوٹی بوتل کی طرح مجھے پیش کرنے کو تھی لیکن وہ جواب میں قہقہہ بلند کر کے بولی تھی،” تو پھر میری جھوٹی بوتل کو منہ کیوں نہیں لگا سکتے؟” میں نے لاجواب ہو کر اس کے ہاتھ سے بوتل لے کر منہ کو لگا لی تھی۔ اس روز سے میں نے نتاشا کو “منطقی لڑکی” کے نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا۔ یہ رات ایک بار پھر شغل مے کشی اور گپ بازی میں کٹی تھی۔ رات اگرچہ خنک تھی مگر کمرہ اتنا گرم ہو گیا تھا کہ چھوٹی سی کھڑکی کھولنی پڑی تھی۔ تیسرے روز ہم تینوں، کہیں سے سیر کرکے لوٹ رہے تھے جب مظہر کی کوئی شناسا لڑکی مل گئی تھی جس کے ہمراہ ایک اور لڑکی تھی۔ دونوں صحت مند تھیں اور خوبصورت بھی۔ مظہر نے اپنی چرب زبانی اورمستعدی سے ان دونوں کو اپنے کمرے میں جانے پر راضی کر لیا تھا۔

شام ڈھلنے کو آئی تو شراب کا دور چلنے لگا تھا۔ مظہر اپنی شناسا لڑکی کے ساتھ کبھی برآمدے میں چلا جاتا تھا کبھی دونوں کمرے میں لوٹ آتے تھے۔ یوں رات کے بارہ ایک بج گئے تھے۔ پھر شاید مظہر اپنا “تینتیسواں” مرد ہونے کا عمل پورا کرکے برآمدے میں آیا تھا جہاں میں ، نتاشا اور اولگا کھڑے ہوئے تھے۔ اولگا اس لڑکی کا نام تھا جو مظہر کی شناسا لڑکی کے ہمراہ آئی تھی۔ اس کا چہرہ مہرہ کلاسیکی تصویروں اور فلموں میں دکھائی جانے والی روسی لڑکیوں کا سا تھا۔ بھری بھری، روشن روشن، درازقد، گھنے سنہرے بالوں والی صحت مند لڑکی۔ مظر مجھے ایک جانب لے گیا تھا اور کہا تھا ” آپ اندر جائیں۔ لڑکی تیار ہے” پھر ہنستے ہوئے کہا تھا اسے دو چار تھپڑ بھی لگا دینا۔ میں سمجھا تھا کہ شاید موصوفہ کو اذیت پسندی کا لپکا ہوگا مگر درحقیقت یہ کہنے کے پیچھے مظہر کی کوئی ذاتی پُرخاش تھی۔

وہ بالکل برہنہ تھی۔ اس نے میرے ساتھ ملوث ہونے میں سردمہری کا اظہار بھی نہیں کیا تھا۔ میں نے زبردستی کی جانے والی اس محبت کے عمل کے کسی لمحے میں نہ صرف اس کے چہرے پر چند طمانچے رسید کیے تھے بلکہ اس کے بالوں کو پکڑ کر جھنجھوڑا بھی تھا۔ لڑکی نے اس رویے پر نہ تو احتجاج کیا تھا اور نہ ہی دکھی دکھائی دی تھی۔

پھر ہم سب کمرے میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ باتیں ہوتی رہی تھیں اور جام چلتے رہے تھے۔ ان دونوں لڑکیوں کو کوئی ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک انسٹیٹیوٹ کے ہوسٹل جانا تھا۔ صبح کی سفیدی چھا رہی تھی۔ ہوا شفاف تھی اور میں مستی میں تھا۔ “اخلاق کا تقاضا تو یہی ہے کہ کوئی انہیں ہوسٹل تک چھوڑ کر آئے، بہتر یہی ہے آپ چلے جائیں” مظہر نے مجھ سے کہا تھا۔ وہ یقیناً  تھوڑی دیر نتاشا کے ساتھ تنہا رہنا چاہتا تھا پھر مجھے بھی دو پریاں دائیں بائیں بازووں کے ساتھ لٹکائے صبح دم چہل خرامی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ مجھے جس قدر آزادی اور ہلکے پن کا احساس اس روز ہو رہا تھا، یوں لگتا تھا جیسے اس احساس کو شاید ہی کبھی بھلا پاؤں۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی بلکہ انگریزی زبان کے ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے سہارے تعلق اور نزدیکی کا ایک دھارا تھا جو بہے چلا جا رہا تھا۔ میں سبک خرامی کرتے ہوئے کبھی اس بازو والی تو کبھی اس بازو والی کے چہرے یا ہونٹوں پر بوسہ جڑ دیتا تھا اور وہ کھلکھلا کر قہقہہ بار ہو جاتی تھیں۔ فضا میں گھنٹیاں بجنے کی آواز گھل جاتی تھی۔

ان کا ہوسٹل آ گیا تھا۔ میں ان کے ہمراہ ان کے کمرے میں گیا تھا اور رٹ لگا دی تھی کہ میں ان کے ساتھ ان کے کمرے میں ہی سوؤں گا۔ ان ماہ وشوں نے بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر مجھے وہاں سے چلتا کیا تھا۔ میں واپس آتے ہوئے راستے بھر ان کی ہمرہی کے نشے میں مخمور ٹہلتا ہوا مظہر کے کمرے میں پہنچا تھا۔ میاں بیوی دونوں محو خواب تھے۔ میں بھی ڈھے کر سو گیا تھا۔

آنکھ دیرمیں کھلی تھی۔ مظہر نے ناشتہ تیار کیا ہوا تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ دونوں پڑھائی کرنے نکل گئے تھے۔ اس راتہم نے پینے سے گریز کیا تھا بس گپ شپ لگاتے رہے تھے۔
اگلے روز مظہر اور نتاشا حسب معمول نکلے ہوئے تھے۔میں دسویں منزل پر مظہر کے ایک واقف کار کو ڈھونڈنے گیا تھا تاکہ باتیں کر کے بوریت کم کر سکوں۔ اس کا کمرہ بھی مقفل تھا۔ میں نیچے آیا تو دیکھا کہ حسام کھڑا ہے, چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور وہ جھنجھلایا ہوا لگتا تھا۔ وہ میرا بازو پکڑ کر مجھے کھینچتے ہوئے ایک دوسرے کمرے میں لے گیا تھا جو حمید نام کے ایک شامی لڑکے کا کمرہ تھا۔میرا سوٹ کیس پہلے ہی وہاں رکھا تھا۔ اس نے مجھے سختی کے ساتھ کہا تھا، جب تک وہ نہ کہے تب تک میں اس کمرے سے باہر نہ نکلوں۔ میں اس کے اس رویے پر بہت جزبز ہوا تھا۔ استفسار پر مظہر نے مجھے کوئی ایسی بات کہی تھی جو میرے خیال میرے متعلق وہ کر ہی نہیں سکتا تھا۔ میں سن کر طیش میں آ گیا تھا۔ مظہر نے یک لخت نرم رویہ اختیار کرکے بتایا تھا کہ کل والی لڑکی نے پولیس کو شکایت کر دی ہے کہ ہم لوگوں نے اسے جنسی اور عمومی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں نے امپورٹڈ ڈن ہل سگریٹ کے پیکٹ کہاں رکھے ہیں۔مظہر سوٹ ووٹ پہن کر ڈن ہل کی دو تین ڈبیاں لے کر یونیورسٹی کے ہوسٹلوں کی حدود میں واقع پولیس سٹیشن گیا تھا۔ ادھر میں، حمید شامی کے کمرے میں خوفزدہ بیٹھا تھا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اس ملک میں زنا بالجبر کی سزا سات سال قید ہے۔ دوسری جانب یوں بھی پریشان تھا کہ اس نوع کی تو بات تھی ہی نہیں اور اس لڑکی کو چھتیس گھنٹوں کے بعد کیا خیال آیا کہ اس نے ایسی شکایت کی۔

مظہر کوئی ایک گھنٹے بعد لوٹا تھا۔ خاصا مطمئن تھا مگر کھنچا کھنچا سا۔ جب اس کے اعصاب کا تناؤ کم ہوا تو اس نے تفصیل کے ساتھ بتایا تھا کہ ایک تو اس نے تھانے والوں کو سگریٹ کی ڈبیوں اور وادکا کی بوتل تحفے میں دی تھیں، دوسرے اس نے اس لڑکی کے ساتھ پولیس والوں کے سامنے وکیلوں کی طرح بحث کی تھی۔ پھر پولیس والے نے بھی اس لڑکی سے کچھ سوال کیے تھے۔ اس کے جوابات سے ثابت ہو گیا تھا کہ وہ تہمت لگانا چاہتی تھی چنانچہ پولیس والے نے اس کی شکایت درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مظہر کی مستعدی اور دلیل بازی کام دکھا گئی تھی ورنہ شکایت درج کروانا ہر شخص کا بنیادی حق ہوتا ہے چاہے بعد میں اسے واپس ہی کیوں نہ لے لے۔ یہ واقعہ میرے لیے بہت پریشان کن تھا لیکن پریشانی بھی خوشی کی طرح سدا رہنے والی چیز نہیں۔ یہ ضرور ہوا تھا کہ اب میں اور مظہر دونوں ہی جذبات کی شدت کو لگام دینے کی کوشش کرنے لگے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply