مہلک ترین وائرس/وہارامباکر

آج سے پچاس سال قبل یورپ میں آسمان سے مرغیوں کے ہزاروں سر نیچے برسائے گئے۔ یہ جنگلی جانوروں کے کھانے کیلئے تھے۔ ان میں ویکسین بھری تھی۔ یہ اس وائرس کے خلاف تھی جو کہ انسانوں کے لئے مہلک ترین ہے۔ 1930 کی دہائی سے ریبیز کی وبا یورپ کے جنگلی جانوروں میں پھیل رہی تھی اور مقصد اس سے چھٹکارا پانا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اساطیرِ یونان میں غضب کی دیوی کا نام لائسا ہے اور ریبیز کا موجب بننے والے وائرس کا نام اس پر لائسا وائرس رکھا گیا ہے۔ یہ کم از کم چار ہزار سال سے انسانوں کے لئے مہلک ہے۔ یہ جانوروں کو غصیلے درندوں میں تبدیل کر سکتا ہے۔ اور انسانوں کو ایسے زومبی میں جو پانی سے خوف کھاتے ہیں۔
اس وائرس کی خاص بات صرف یہ نہیں کہ اس کے اثرات کتنے عجیب ہیں بلکہ یہ بھی کہ یہ ہمارے دفاعی نظام کو چکمہ دینے میں کتنی مہارت رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائرس زندہ اور غیرزندہ کے درمیان کے علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ اس میں چند جینیاتی ہدایات ہیں جو کہ یہ بتاتی ہیں کہ نسل کیسے آگے بڑھانی ہے۔ لائسا وائرس دوسرے وائرس کے مقابلے میں بھی سادہ ہے۔ اس میں صرف پانچ جین ہیں۔ یہ پانچ پروٹین کو بنانے کی ہدایات ہیں جو کہ اس کیلئے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنا ممکن بناتی ہیں۔ ممالیہ کو انفیکٹ کرنا، اس کے مدافعتی نظام کو چکمہ دینا، دماغ تک سفر کرنا، اپنی کاپیاں بنانا اور نئے میزبانوں تک پہنچ جانا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کاٹنے سے شروع ہوتا ہے۔ اس کا شکار ہونے والے ایک کتے کے لعاب میں کروڑوں وائرس ہو سکتے ہیں۔ جب اس کے دانت ٹشو کی گہرائی میں جاتے ہیں تو یہ جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس کی منزل اعصابی خلیات ہیں۔ یہ الیکٹروکیمیکل تاریں ہیں جو کہ سگنل کی پورے جسم میں ترسیل کر رہی ہیں اور بہت لمبے خلیات ہو سکتے ہیں۔ اپنے سِروں پر یہ دوسرے خلیات سے جوڑ بناتے ہیں اور ان میں کیمیکلز کے ذریعے انفارمیشن پہنچاتے ہیں۔
لائیسا غالباً ان ریسپٹرز کے ساتھ جڑ جاتا ہے جو کہ اس عمل کے لئے اہم ہیں۔ اب اندر جا کر اسے ایک بڑا مسئلہ حل کرنا ہے۔ اس کو خلیے کی مشینری چاہیے تا کہ یہ اس پر قبضہ جما کر زیادہ وائرس پیدا کرنے کی فیکٹری بنا لے۔ نیورون لمبے ہیں تو اس کو خاصا فاصلہ طے کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کا ایک حل ہے۔ خلیات میں مائیکروٹیبیول ہیں جو کہ اس کو سٹرکچر دیتے ہیں اور ایک پٹڑی کا کام بھی کر سکتے ہیں جس پر کارگو کے لئے موٹریں چلتی ہیں۔
ڈائین موٹر اصل میں وہ موٹریں ہیں جو کہ توانائی استعمال کر کے خلیے کے اندر سامان کی ترسیل کرتی ہیں۔ یہ پچاس مختلف پروٹین سے ملکر بنتی ہیں اور ان کی شکل جوتوں کے جوڑے کی طرح ہوتی ہے۔ لائسا اپنی ایک پروٹین کو استعمال کر کے اس زبردست ڈلیوری سسٹم کو اغوا کر لیتا ہے۔ یہ سسٹم اس وائرس کو اٹھا کر خلیے کے نیوکلئیس کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔
امیون سسٹم اس کو بچانے کیلئے کیا کرتا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ایک وائرس جسم پر حملہ آور ہو تو متاثر خلیے امیون ریسپانس دینے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بھانپ لیتے ہیں کہ یہ انفیکشن کا شکار ہو چکے ہیں اور خاص قسم کے لاکھوں پروٹین پیدا کرتے ہیں، جو کہ انٹرفرون ہیں۔ ان کا کام وائرس کے کام میں مداخلت کرنا ہے۔ بہت سادہ الفاظ میں یہ کہ یہ امیون سسٹم کو چوکس کر دیتے ہیں تا کہ اینٹی وائرس ہتھیار تیار کر لے۔
اس کے علاوہ ان کا کام یہ بھی ہے کہ یہ خلیات کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ یہ اپنی پروٹین فیکٹری کچھ عرصے کیلئے بند کر دیں تا کہ وائرس کو پھیلنے کا اپنی کاپیاں بنانے کی جگہ نہ ملے۔
انٹرفیرون کا ایک اور کام یہ ہے کہ یہ خلیات کو بتاتے ہیں کہ یہ انتہائی شفاف ہو جائیں۔ یہ اہم ہے کیونکہ اب امیون سسٹم کے خلیات یہ نوٹ کر لیں گے کہ متاثر خلیات کونسے ہیں اور وائرس کہاں پر چھپے بیٹھے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جسم کے خلیات اندر سے ڈسپلے کی کھڑکیاں بنا لیتے ہیں۔ ان کو MHC Class 1 مالیکیول کہا جاتا ہے۔
خلیات ہر وقت اپنے کام میں مگن ہوتے ہیں اور مدافعتی نظام کے خلیات کو یہ دکھانے کے لئے کہ اندر چل کیا رہا ہے، یہ رینڈم نمونے لے کر اپنے بہت چھوٹے سے ڈسپلے پر رکھ دیتے ہیں جہاں سے اندر جھانکا جا سکے۔
انٹرفیرون خلیات کو ہدایت کرتے ہیں کہ یہ بہت سی ایسی کھڑکیاں بنا دے اور شفاف ہو جائیں۔
اگر ایک خلیے میں انفیکشن ہے اور اس کو وائرس کے اجزاء بنانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے تو امیون سیل اس کو دیکھ لیں گے اور ایسی خلیے کو خودکشی کرنے کا حکم جاری کریں گے اور ساتھ ان پارٹس کو تباہ کرنے کا بھی۔ یہ وائرل انفیکشن کو ختم کرنے کا سب سے طاقتور حربہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدقسمتی سے، لائسا نیورونز کو انٹرفرون بنانے سے بلاک کر دیتا ہے اور مدافعتی نظام سے مخفی رہتا ہے۔ اور دوسرے وائرس کے برعکس یہ پنے میزبان خلیے کو مارتا نہیں ہے۔ اگر ایسا کرتا تو سسٹم میں الارم بج جاتے۔ یہ خاموشی سے اپنی کاپیاں بنوا کر اور ساتھ لیتا ہوا ایک نیورون سے دوسرے میں جست لگا جاتا ہے اور بہت آہستہ آہستہ کر کے یہ دماغ تک پہنچ جاتا ہے۔
اس سارے عمل میں ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں۔ کئی بار اس سے بھی زیادہ۔ اس کا انحصار کئی چیزوں پر ہے۔ مثلاً، کاٹا چہرے پر گیا ہے یا پاؤں پر۔ اور کتنی تعداد میں وائرس کو داخل ہونے کا موقع ملا۔
یہ عفریت جلدباز نہیں ہے۔ اور اس کی منزل دماغ کا وہ حصہ ہے جو ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ ہے (brain stem)۔
اب مدافعتی نظام نے بھانپ لیا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ اور یہ حرکت میں آ جاتا ہے۔ یہ دشمن کو ختم کرنے کے لئے سب سے طاقتور اینٹی وائرس بھیجتا ہے جو کہ کِلر ٹی سیل ہیں۔
اگر کوئی اور وائرل انفیکشن ہوتی تو یہ ٹرننگ پوائنٹ ہوتا لیکن ریبیز میں یہ ٹی سیل اس کے جال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کیونکہ لائسا اب ایک اور حربہ کھیلتا ہے۔ یہ امیون سسٹم کی ہوشیاری کو اس کی طرف ہی پلٹا دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اعصابی نظام جسم کا نازک حصہ ہے اور امیون سسٹم کو بڑی احتیاط کرنا ہوتی ہے۔ دماغ میں اگر امیون سسٹم کے خلیات آ کر گڑبڑ مچائیں تو یہ بندے کی موت ہو گی۔ اس لئے انہیں اعصابی نظام کی طرف کھلے عام آنے نہیں دیا جاتا۔ ان کو صرف دعوت پر آنے کی اجازت ملتی ہے اور نکالے جا سکتے ہیں۔
اگر اعصابی خلیات یہ سمجھیں کہ امیون سسٹم ضروری تے زیادہ ردِ عمل دکھا رہا ہے تو یہ خود کو بچانے کے لئے ٹی سیلز کو خود کشی کرنے کا حکم دے سکتے ہیں۔ اور لائسا نے وہ طریقہ تلاش کر لیا ہے جس کی مدد سے یہ انفیکٹ ہونے والے نیورون سے یہ حکم جاری کروا سکتا ہے۔
جس طرح یہ طاقتور دفاعی خلیات کی فوج پہنچتی ہے، انہیں خود کو ہی مار لینے کے احکامات مل جاتے ہیں۔
اب وائرس برین سٹیم میں بحفاظت قیام پذیر ہے۔ جب یہ ہو گیا تو متاثرہ شخص زندہ نہیں بچے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائسا وائرس کے بارے میں تنگ کرنے والی ایک چیز یہ ہے کہ ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ متاثرہ شخص کی موت کس طرح اور کیوں واقع ہوتی ہے۔ عام طور پر کوئی وائرس تیزی سے بڑھ کر نقصان پہنچاتا ہے۔ جب اس کی مطلوبہ سطح تک کاپیاں بن جائیں تو میزبان خلیے کو مار دیتا ہے۔ جب بہت جگہ پر ایسا ہونا لگے تو اس سے امیون سسٹم کا بڑا جواب حرکت میں آتا ہے، جو کہ جسم کے لئے خود ضرررساں ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ یہاں پر ایسا نہیں ہو رہا۔
ریبیز کے مریضوں کے دماغ کے ٹشو میں ہونے والا نقصان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
لائسا اپنے سامنے آنے والی ہر شے کا قتلِ عام نہیں کرتا۔ خیال یہ ہے کہ لائسا دماغ کے اندر نیورونز کے آپسی رابطوں میں خلل ڈال کر تباہی مچاتا ہے۔ یہ خلیات مزید فنکشن نہیں کر پاتے۔
یہ دماغ پر حملہ کرتا ہے اور اس کا نتیجہ ایسی علامات کی صورت میں نکلتا ہے جس طرح کنفیوژن، جارحانہ مزاجی اور مفلوج ہو جانا۔
ان علامات کے ظاہر ہو جانے کے بعد وائرس اپنی جگہ چھوڑنا شروع ہو گیا ہے۔ اس کا سفر نیورونز کے راستے ہی ہے۔ یہ دماغ سے دور جا رہا ہے اور ان غدود کی طرف جو کہ لعاب پیدا کرتے ہیں۔
یہ حیران کن ہہے کیونکہ پہلے ایک سمت میں جاتے جاتے اب اس نے اپنا راستہ الٹ کر لیا ہے۔ کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد بھی ابھی ہم نہیں جانتے کہ یہ آخر ہوتا کیسے ہے۔
لائسا لعاب میں بھر جاتا ہے۔ اب یہ اس تاک میں ہے کہ پریشان ممالیہ کسی کو کاٹ لے۔ خوش قسمتی سے انسان ایسا نہیں کرتے اور ایسا کوئی کیس نہیں جس میں انسان کے کاٹنے سے ریبیز منتقل ہوئی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب مریض کا خاتمہ قریب ہے۔ انسیفلائیٹس (دماغ کی سوجن) میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی کئی ناگوار علامات ہیں۔ تھکن سے مفلوج ہو جانے تک۔ پہلے آہستہ آہستہ اور پھر اچانک ہی ایک ایک کر کے اعضاء فیل ہونے لگیں گے اور کوما طاری ہو جائے گا۔ اس کا کوئی معلوم علاج نہیں۔ ایک بار علامات نمودار ہونے لگیں تو کوئی بھی نہین بچتا۔ یہ ہمیں معلوم مہلک ترین وائرس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ایک چیز اس سے بچا سکتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو میڈیکل سائنس میں ہمارا سب سے زیادہ کارگر ہتھیار ہے۔
ویکسین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ریبیز کی ویکسین سب سے پہلے ایجاد کروہ ویکسینز میں سے ہے۔ کسی بھی ویکسین کی طرح یہ امیون سسٹم کو مستقبل کے حملے کے لئے تیار کرتی ہے تا کہ یہ دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے ٹھیک ہتھیاروں سے لیس ہو۔ اس وائرس کے خوفناک حربے ویکسین لگوانے کے بعد کام نہین کرتے۔
چونکہ ابتدائی ہفتوں میں اس کا پھیلاؤ بہت سست رفتار ہے، اس لئے اس کو جانور کے کاٹنے کے بعد دیا جا سکتا ہے۔
کاٹنے والا جانور کوئی بھی ممالیہ ہو سکتا ہے۔ چمگادڑ کے ننھے دانت، جو کاٹنے پر محسوس بھی نہ ہوں گے، بھی ریبیز کا باعث ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریبیز ایک عفریت ہے۔ یہ ہزاروں سال سے ہمارا پیچھا کرتا رہا ہے۔ ہمارے اجداد اس سے خوف زدہ تھے اور بالکل درست طور پر تھے۔ ابھی بھی یہ سالانہ ساٹھ ہزار لوگوں کی جانیں لیتا ہے جس میں سے نصف شکار بچے ہوتے ہیں۔ ہم اسے ختم کرنے کے قریب نہیں۔ یہ جنگلوں میں اور ہر قسم کے جانوروں میں موجود ہے۔ لیکن اگر ہم اس سے مقابلہ کرنا بھول جائیں تو یہ بڑی تعداد میں بھی واپس آ سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم امید رکھتے ہیں کہ مستقبل میں اس عفریت پر فتح حاصل کر لی جائے گی۔ اور یہ باقی عفریتوں کی طرح ۔۔۔ اور غضب کی یونانی دیوی کی طرح ۔۔۔ یہ پرانے قصے کہانیوں کا حصہ رہ جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply