رودادِ سفر(12) چائینہ:ایوو شہر میں اسلام کا تعارف۔۔شاکر ظہیر

رودادِ سفر(12) چائینہ:ایوو شہر کے مسلم رہائشی ۔۔شاکر ظہیر/ چائنا کا شہر ایوو ( yiwu ) ایک بین الاقوامی شہر ہے ۔ دنیا کے ہر ملک کا باشندہ آپ کو یہاں مل جائے گا اور ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ بلکہ چائنا کے ہر صوبے کا باشندہ بھی آپ کو یہاں مل جائے گا ۔ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک ہر قوم کے مسلمان یہاں آتے جاتے رہتے ہیں ۔ یہی تنوع آپ کو مسلک میں بھی ملے گا ۔ مالکی اور زیدی شیعہ زندگی میں پہلی مرتبہ یہیں دیکھے اور ان کے ساتھ نماز بھی پڑھنے کا موقع ملا ۔ مالکی افریقہ سے اور زیدی شیعہ یمن سے ۔ میں ایک دن ہانگلو ( Hong Lu ) ہوٹل کی چھوٹی سی چھپر مسجد میں ظہر کے وقت جلدی پہنچ گیا ، مجھے مارکیٹ جانا تھا لیکن ارادہ تھا کہ باجماعت نماز پڑھ کر ہی نکلوں گا ۔ امام صاحب ایک چھوٹے قد کے سن ڈونگ ( shandong ) صوبے کے چائنیز مسلمان تھے ، ان کا معروف نام ابوبکر تھا ۔ گورنمنٹ کے کاغذات میں کچھ اور ہوگا ۔ یہاں پر سب مسلمانوں کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ ان کا ایک نام عربی میں ہوتا ہے اور دوسرا گورنمنٹ پیپر پر چائنیز نام ۔ یعنی اس چائنیز نام میں باقی چائنیز کی طرح شروع میں فیملی نام جیسے مسلمانوں نے اپنے فیملی نام حسین کو ( Hu ) اور محمد کو ( Ma ) کر لیا اور ایسے ہی دو حرف میں باقی چائنیز کے بھی نام ہوتے ہیں جیسے ( Li ) وغیرہ ۔ اب کسی کو پکارتے وقت فیملی نام سے پکارنا معزز سمجھا جاتا ہے جیسے مسٹر لی ( Mr Li ) اس لی ( Li ) کے بعد اس شخص کا اپنا نام ہو گا لیکن معزز طریقے سے اسے ایسے ہی فیملی نام سے پکارا جائے گا ۔ کیونکہ عربی کے الفاظ چائنیز زبان میں ادا نہیں ہو سکتے اس لیے بہت عرصے سے ان کے اندر رہنے والے مسلمانوں نے بھی وہی تلفظ اور الفاظ اختیار کیے تا کہ ایک دوسرے کو بلانے میں آسانی رہے ۔ یہ استثناء کچھ عرصہ پہلے تک ایغور مسلمانوں کےلیے تھا کہ وہ اپنا لمبا نام رکھ سکتے تھے لیکن شاید اب وہ بھی ختم کر دیا گیا ۔

امام صاحب وضو کر رہے تھے کہ مجھے کہا کہ اذان دے دیں ۔ میں نے اذان دی اور وہیں بیٹھ گیا ۔ ایک عربی بھائی آئے اور مجھ  سے نماز کے وقت کا پوچھا اور میرے ساتھ ہی بیٹھ گئے ۔ نماز کے دوران انہوں نے ہمارے ساتھ شیعہ مسلک کے مطابق ہاتھ کھول کر باجماعت نماز پڑھی ۔ ویسے شیعہ مسلک کے مطابق میں نے ان کے عربی ہونے کی وجہ سے کہا ہے ورنہ مالکی بھی نماز کے دوران ہاتھ کھول لیتے ہیں ۔ لیکن شاید عربوں میں مالکی مسلک کے لوگ بہت کم ہیں ۔ یہ مختلف مسالک کا اکٹھے ایک ہی جگہ ایک امام کے پیچھے بغیر اس کا مسلک جانے ، نماز پڑھنا پاکستان میں میں نے صرف مذہبی رہنماؤں کے اجلاس ہی میں دیکھا تھا وہ بھی شاید کیمرے کے سامنے ۔ لیکن یہاں یہ عام سی بات تھی ۔

بلکہ ایک دفعہ تو میں اسی مسجد میں اپنی انفرادی نماز پڑھ رہا تھا کہ دوسری رکعت میں ایک عربی بھائی اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ آئے میرے کندھے پر ہاتھ سے تھپکی دی اور میرے دائیں طرف ہاتھ کھول کر میری امامت میں نماز شروع کر دی ۔

ایوو شہر میں ایسے کئی مصلے موجود ہیں ، جہاں نماز باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ مسلمان جس آبادی میں رہائش رکھتے ہیں ، کسی نہ کسی فلیٹ میں نماز باجماعت کا اہتمام ضرور کرلیتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک مصلہ ایک آبادی چھاؤ تونگ میں بھی تھا ، جہاں کافی تعداد میں پاکستانی رہائش پذیر تھے ۔ ہمارے عدنان بھائی جو فاروقی صاحب کے بھانجے ہیں وہیں اس کالونی میں رہائش پذیر تھے ۔ رمضان میں ایک دن میں ان کے گھر گیا اور وہیں ظہر کی نماز چھاو تونگ ( xiao dong ) کے اس مسجد ( مصلے ) میں پڑھی ۔ یہ مصلہ ایک بلڈنگ کے تیسرے فلور پر تھا ۔ چابی وہی دروازے کے ساتھ ایک بکس میں رکھی تھی نکال کر دروازہ کھولا اور اذان دی ۔ تھوڑی دیر تک چار لوگ اور بھی آ گئے ۔ ایک بھائی نے امامت کرائی اور نماز کے بعد فضائل اعمال کتاب نکال کر بیان کرنے لگے ۔ ایک واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے بیان کیا کہ عراق میں ایک لڑکا رہتا تھا جس نے کھانا پینا بالکل چھوڑ دیا اور وہ سوکھ کر تیلا بن گیا وہ ہر وقت عبادت میں مصروف رہتا تھا اور ہر روز دن کے وقت روزے کی حالت میں ، پھر ایک دن مر گیا ۔ کسی کے خواب میں آیا تو جنت میں گاؤ تکیہ لگائے بیٹھا تھا اور طرح طرح کے میوے اس کے سامنے موجود تھے ۔ میں نے امام صاحب سے پوچھا کہ کیا دنیا میں موجود کھانے کی چیزوں کو خدا کی نعمتوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس لڑکے نے اللہ کی ان نعمتوں سے کنارہ کشی کیوں اختیار کی ؟ قرآن تو کہتا ہے کہ طیب چیزیں کھاؤ پیو ، میرا شکر ادا کرو اور سرکشی نہ کرو ۔ آپ یہ اسلام بیان کر رہے ہیں یا ہندو یوگا ؟ میرے اس تبصرے سے وہ قدرے ناراض ہو گئے ۔ بہرحال جو سوال میرے دل میں تھا وہ میں نے کر دیا ۔ میں دل میں بات رکھ کر کڑھتا نہیں رہتا ۔ باہر نکل کر عدنان نے مجھ سے کہا یہ کیا تم ہر جگہ فساد کھڑا کر دیتے ہو ۔ میں نے کہا افطاری کےلیے تم نے فروٹ بھی خریدنا ہے اور پکوڑے بھی بنانے ہیں اور یہ ہمیں سنا رہا ہے کہ وہ لڑکا بہت نیک تھا اس لیے وہ ان نعمتوں سے کنارہ کش رہا ۔ تم نے اور میں نے فروٹ اور پکوڑے دونوں کھانے ہیں اور خدا کا شکر ادا کرنا ہے لیکن ہم دونوں اس شخص کی بیان کی گئی منطق کے مطابق نیک نہیں ہیں ۔ اب فروٹ اور پکوڑوں دونوں کا ارادہ ترک کرو صرف پانی پر گزرا کرو اور اس کی کہی منطق کے مطابق نیکوں میں شمار ہو جاؤ ۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے جب بھی کوئی اچھی کھانے کی چیز پیش کی گئی شوق سے تناول فرمائی ۔ رسول ﷺ نے بمع ام المومنین فاقے کی وجہ سے روزے کی نیت فرما لی کہ دوپہر کو کہیں سے ہدیے کا گوشت آ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی وہ نفلی روزہ توڑ دیا اور گھر والوں کو بھی توڑنے کا حکم دیا اور پھر گوشت پکا کر سب گھر والوں نے کھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نفلی روزے والا اپنے روزے کا مالک ہوتا ہے جب ضرورت ہو توڑ سکتا ہے ۔ یہ بات جو امام صاحب بیان کر رہے تھے کیا یہ بات رسول اللہ ﷺ کو معلوم نہ تھی ؟ ۔ عدنان نے مجھے فلاسفر کا لقب دیا اور ہم فروٹ خریدنے چلے گئے کہ یہ نعمت سے منہ موڑنا اس کے بس میں بھی نہیں تھا اور میرے بس میں بھی نہیں اور دوسرے گرمی شدید تھی ہم نے مشروب بھی یہیں بنا کر پینا تھا ۔ اس رب کے پاس کمی نہیں کہ یہاں کھا پی لیا تو وہاں سٹاک ختم ہو جائے گا اور ملے گا نہیں اور خدا تعالیٰ یہ کہہ دے کہ تم اپنا سٹاک وہیں استعمال کر آئے اب یہاں کچھ نہیں بچا ۔

ایوو ( yiwu ) شہر میں جمعہ کی نماز کےلیے ایک بہت بڑی مسجد ہے ۔ جمعہ والے دن ہزاروں کی تعداد میں نمازی وہاں موجود ہوتے ہیں ۔ کسی مسلمان کو اس علاقے میں تلاش کرنا ہو اور وہ مل نہ رہا ہو تو جمعہ والے دن اس مسجد میں ضرور مل جاتا ہے ۔ یہ مسجد اصل میں ایک بند پڑی فیکٹری تھی جسے گورنمنٹ نے مسلمانوں کو نماز کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی ہوئی تھی ۔ یہاں چائنا کے ہر خطے کا مسلمان بھی مل جاتا ہے ۔ اس مسجد میں عورتوں کےلیے علیحدہ حصہ مختص ہے ۔ مسجد اونچی جگہ پر ہے اور اردگرد پارکنگ اور لان سا بنا ہوا ہے ۔ مسجد کے باہر سڑک کنارے فٹ پاتھ پر کھانے پینے کی اشیا کے سٹال لگائےجاتے ہیں اور ایک سماں بندھ جاتا تھا ۔ ایک مرتبہ اس مسجد کی رینوویشن کروائی گئی ۔ مین ہال کو سجایا گیا اور کچھ اضافی واش روم اور ایک کچن بھی بنایا گیا ۔ رمضان میں سحری اور افطاری کا انتظام بھی مسجد میں ہوتا ہے ۔جو چاہے آئے اور بلا روک ٹوک مسجد میں سحری و افطاری کرسکتا ہے ۔ رمضان میں خاص طور پر چائنیز مسلمان بیوی بچوں سمت آتے ہیں اور افطاری یہیں کرتے ہیں ۔ مسلمان عورتیں بھی بلاجھجک مسجد میں جمعہ والے دن آتی ہیں ۔ چائنیز کاروباری اشخاص اپنے بزنس بروشرز مسجد کے گیٹ پر بانٹ رہے ہوتے ہیں ۔ خدا کی طرف سے ہم مسلمانوں کے لیے ایک بہترین موقع ہے کہ ایک سخت گیر حکومت میں بھی ہم آزادی کے ساتھ لوگوں کے سامنے اسلام کو پیش کر سکتے ہیں ۔ یہاں چونکہ تمام ہی مسلمان موجود ہوتے ہیں ، اس لیے ڈیفالٹرز سے ریکوری کے لیے بھی کچھ لوگ یہاں پہنچ جاتے ہیں ۔ وہ لوگ جنہوں نے عرصہ ہوا مارکیٹ یا کسی فیکٹری کے پیسے دینے ہوتے تھے اور غائب ہو جاتے ان کی تلاش میں فیکٹری یا مارکیٹ والے مسجد کے باہر موجود ہوتے تھے ۔

ایک مرتبہ اس مسجد کے ساتھ ایک بڑا حادثہ ہوا ، وہ یہ کہ لوگوں کے خیال میں مسجد کمیٹی کے جو لوگ کل سائیکلوں پر تھے ، وہ مسجد کی تعمیر نو کے بعد بڑی بڑی گاڑیوں کے مالک بن گئے ۔ پھر مسجد پر قبضے کا جھگڑا بھی شروع ہوگیا ۔ امام جمعہ کی نماز کےلیے کھڑے تھے کہ مخالف گروہ نے جھگڑا شروع کر دیا اور نماز نہیں پڑھانے دی ۔ ایک مصری مسلمان نے آگے بڑھ کر امامت کروائی اور بعد میں اعلان کیا کہ یہ لڑنے کی جگہ نہیں ہے ، باہر جا کر لڑیں ۔ بہرحال یہ تمام بیماریاں جو ہمارے ہاں موجود ہیں ، وہاں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ یہاں پاکستان میں تو یہ معمول کی بات ہے لیکن وہاں اس لیے زیادہ تشویش ناک ہیں کہ وہاں غیر مسلموں نے کبھی ہر ہفتے اتنا بڑا اجتماع نہیں دیکھا اور اجتماع بھی ایسا کہ دنیا کے ہر رنگ و نسل اور زبان والا ایک ہی امام کے پیچھے کھڑا ہے اور رش اتنا ہوتا کہ ٹریفک پولیس خاص طور پر آتی اور نمازیوں کی سہولت کےلیے مسجد کے سامنے کی روڈ ٹریفک کےلیے بند کر دیتی اور نمازی اتنی بڑی تعداد میں ہوتے کہ سڑک پر بھی نماز ادا کرتے ۔ یہ ان لوگوں کے سامنے اسلام کا پہلا زندہ تعارف تھا اور پھر قبضے کی لڑائی بھی ان کے سامنے تھی ۔ اسلام کا یہ تعارف ایسا ہے کہ بعض اوقات مجھے خوف آتا کہ اگر چائنا کے یہی غیر مسلم ہی قیامت والے دن یہ مقدمہ لے کر کھڑے ہو گئے کہ اسلام کے نمائندے تیرے دین کا یہ کیسا تعارف پیش کرتے رہے ، تو ہم کیا جواب دیں گے ؟

یہاں عرب تاجروں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے مختلف علاقوں سے چائنیز مسلمان نوجوان ان کی ترجمانی کرنے کےلیے ایوو آ کر رہائش پذیر ہو گئے ۔ کیونکہ اس طرح یہاں انہیں آسانی سے روزگار بھی مل جاتا ہے ۔ ان میں لڑکے اور لڑکیاں سبھی شامل ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ انگلش ، فارسی اور ترکش بولنے والے بھی ہیں ۔ ایسے شارٹ کورسز بھی چائینز کو کروائے جاتے ہیں جن سے وہ دیگر زبانوں میں عام بول چال کے الفاظ سیکھ سکیں ۔ بعض پاکستانیوں کے ساتھ رہتے ہوئے اردو کے بھی بہت سے الفاظ بول لیتے ہیں ۔ گوانزو شہر میں ایک لڑکی کا دوست سکھ تھا ، وہ ٹھیٹھ پنچابی بھی بول لیتی تھی ۔ بہت سے لوگوں نے یہاں مقامی عورتوں سے شادیاں کی ہیں ۔ لیکن اس سے علیحدہ مسائل پیدا ہو گئے کہ ان کی آئندہ نسل کہاں جائے گی ۔ سکولوں میں وہی گورنمنٹ کی تعلیم جو کیمونزم کی ہے اور وہ مسلمان ۔ سکولوں میں لنچ ٹائم میں کھانے کا بڑا مسئلہ ہے ، بہرحال زندگی ایسے ہی چل رہی ہے۔ کلچر اور سوچ کے فرق کی وجہ سے گھروں میں بھی بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔ جو لوگ ابتداء میں محبت محبت کے کھیل میں ان مسائل کی طرف توجہ نہیں کرتے ، وہ لوگ محبت کے ٹھنڈے پڑ جانے کے بعد بہت مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں ، پھر ان کا نتیجہ بھی بہت بھیانک نکلتا ہے ۔ کچھ لوگ اپنی چائنیز بیویوں کو واپس اپنے اپنے ملک لے جاتے ہیں ، لیکن وہ ہمارے اس معاشرے میں ایڈجسٹ نہیں ہو پاتیں ۔ ہمارا مشترکہ خاندانی نظام اور خاندانی سازشیں ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ پیدا کر دیتی ہیں ۔ وہ سارے خواب اور نظریات جو ایک غیر مسلم کو مسلمان کر کے شادی کرتے وقت پیش نظر ہوتے ہیں ، وہ چکنا چور ہو جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ اسلام کے نمائندوں کو کوسنا اور اسلام سے واپسی کا سفر شروع کر دیتے ہیں ۔ اکثر لوگ یہی کہتے ہیں یہ اسلام صرف تمہاری زبانوں پر ہے نہ کہ تمہاری زندگیوں میں ۔ یہ بات ماننی پڑے گی کہ اس بیچارے اسلام کو سب سے بڑا خطرہ اس کے نمائندوں ہی سے ہے ، ان کی موجودگی میں کسی دشمن کی ، کسی سازش کی ضرورت نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply