غزل کی صنف سے میرا اصولی اختلاف۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط1

اب دیکھیں کہ اس خاکسار کا ’’ غزل کی صنف سے اصولی اختلاف‘‘ کیا ہے۔ اوّل یہ کہ میں اس بات کا جواب پہلے متعدد مضامین میں تفصیل سے دے چکا ہوں کہ غزل میری دانست میں ’’اوریچرہے، لیکن ’ نہیں ہے,۔ اوریچر کے ذیل میں ہر وہ موزوں تخلیق آتی ہے، جسے زمانہ ٔ قدیم سے بول کر یا گا کر پڑھا جاتا ہے، اس میں بھی تخلیقیت کی کمی نہیں ہوتی۔ فی البدیہہ پڑھی جانے والی یا گا کر سنائی جانے والی اصناف ۔۔۔ قصص، اشلوکوں، دوہوں، دوہڑوں، سی حرفیوں ، ماہیوں، ٹپوں میں من کو موہ لینے کی شکتی ہوتی ہے، کچھ آزمودہ کار روایتی نسخے ہوتے ہیں جو انسان کو مادی دنیا سے موڑ کر روحانیت کی طرف راغب کرتے ہیں۔مرد و زن کے تعلقات پر پھبتیاں ہوتی ہیں۔ مثلاً عورت کے بارے میں ۔۔۔۔۔

’(’کھُری جنہاں دی مت : پہلوں ہس ہس لائوندیاں یاریاں ، پچھوں رو کے دیندیاں دس ۔ (مرزا صاحباں)

۔۔۔پند و نصائح ۔۔۔۔’’مان متیئے، روپ گمان بھریئے، اٹھکھیلیئے، رنگ رنگیلیئے نی : عاشق، بھور، فقیر، تے ناگ کالے، بنا منتروں کدی نہ کیلیئے نی!‘‘(ہیر، وارث شاہ

۔۔۔ یا غمناک منظر نامے جنہیں سن کر سامع دل مسوس کر رہ جائے : ’’ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں، مینوں لے چلے بابلا لے چلے وے۔۔۔‘‘

ہندوستان کی طرف چلیں تو سب بولیوں میں ’’آلھا اودل‘‘ جیسے قصص، منظوم لوک کتھائیں، سنگت میں گائے جانے والے ’بارہ ماسے‘، ملتے ہیں، بسنت کے، برکھا رت کے، پنگھٹ پر گائے جانے والے گیت ملتے ہیں۔ اب تو میرٹھ میں شاید نوچندی کا میلہ نہیں ہوتا، لیکن جب ہوتا تھا تو اس کی شان ہی نرالی تھی۔راولپنڈی کا بری امام کا میلہ اس کا عشر ِ عشیر بھی نہیں تھا۔ ان میں طوائفیں غزلیں بھی گاتی تھی، لیکن ’اوپن ایئر‘ پنڈالوں میں جس طرح کی دھول بھری گائکی کی بہا ر ، نٹ، نٹیوں،’’ نچیاروں‘‘ کے علاوہ قواّل پیش کرتے تھے، وہ دیدنی تھی ۔
مختصرا ً یہ کہ غزل اس قماش کی صنف ہے، نہ کہ ۔ ہاں، کسی حد تک اس کے ڈانڈےسے ضرور ملتے ہیں، لیکن دو تین صدیوں میں سوائے اس کے اور کچھ کام نہیں ہوا کہ ترجیع و تجنیس ہو، تکرار ہو، بکرات و مرات ہو، لا محدودیت کی حد تک موضوعات اور مضامین کی جگالی کی جائے۔ لا تحصیٰ اشعار صرف ایسے ہوں جن میں یہ کوشش کی جائے کہ لیکن اب کیا کیا جائے۔
اگر میرؔ فرما گئے ہیں: نازکی اس کے لب کی کیا کہیے : پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے ۔۔۔۔۔اور یہ سوچے بغیر کہ میرؔ نے یہ شعر عطار کے لونڈے کے لبوں کے بارے میں کہا ہے یا واقعی ایک نازک اندام حسینہ کے بارے میں گوہر افشانی کی ہے ، ہم ڈھیروں اشعار اسی مضمون اور اسی استعارے کو لے کر کہتے چلے جائیں گے۔۔۔کہتے چلے جائیں گے۔۔۔اور کہتے چلے جائیں گے۔ گویا ـ’’لب کی نازکی‘‘ کے لیے ’’گلاب کی پنکھڑی‘‘ کے علاوہ اور کسی چیز کا ہمیں علم نہیں ہے۔

مختصراً یہ بھی کہ چونکہ روایتی غزل گو شاعر قوافی کی فہرست بنا کر غزل کہنے کا عاد ی ہو چکا ہے، اسے یہ کام آسان لگتا ہے اور شاید محسوس ہوتا ہے کہ شاعری زندگی کی عمومیت سے بالا تر کچھ آفاقی قسم کی شئے ہے اور عام زندگی میں اس قسم کے موضوعات اور ان کے تحت مضامین کی کمی ہے، قلت ہے،

(یقین مانئے، زندگی اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ مضامین کا آزقہ کہیں نہیں دکھائی دیتا، صرف نگہ ٔ بینا چاہیے) زندگی کا کون سا شعبہ ہے جس میں واقعات، حادثات یا روزانہ کی مصروفیات کا قحط ہو؟ النادر ی،کالمعدوم کچھ بھی نہیں ہے ،اس میلے میں ہر طرف تعدد ہے، مضاعف، توفیر اور بہتات کے ڈھیر لگے ہیں۔ات گت اور بے نہایت سے البتہ اچھوتے، نو ایجاد، نو نیا ز آمدہ مضامین کا انتخاب دیدہ ٔ بینا کا کام ہے۔۔

اب ایک ایسے نکتے کو لینا ضروری ہے جس پر میں نے بہت غور و خوص کیا ہے۔تخلیقیت کی سطح پر غزل ایک ناکام اور دوغلی صنف ہے۔ چونکہ اسے ایران سے درآمد کیا گیا اور یہ تسلیم کیا گیا کہ فارسی اساتذہ کے کلام کو آئیڈیل نمونہ تسلیم کر کے اس کا تتبع، متابعت، پیروی کرنا، اس کی مثالیں سامنے رکھ کر، ان کی تقلید اور ان کے تطابق میں شعر کہنا ہی اردو کا اوڑھنا اور بچھونا ہے، اس لیے ہندوستان میں جو اصناف سخن پہلے موجود تھیں، ان کے عروض، چھند، پنگل، زحافات وغیرہ کی طرف توجہ مبذول کرنا غیر ضروری سمجھ لیا گیا۔اس سلسلے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور میں نے خود درجنوں مضامین میں اس پر بحث کی ہے۔ ان مضامین کا ایک خلاصہ میں نے اپنی یاداشتوں کی کتاب ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ میں بھی شامل کیا ہے۔طوالت کے خوف کے باعث کانٹ چھانٹ کے بعد مندرجہ ذیل اقتباس پیش کر رہا ہوں۔

’’غزل بطور صنف شعر اردو پر شروع سے ہی قابض رہی ہے۔ یعنی غزل اور اردو شاعری بہم دگر ایک ہی تسلیم کی جاتی رہی ہیں۔ یہ بات شاید ولی دکنی اور امیر خسرو کے وقت میں درست نہ ہو لیکن جب ہم گذشتہ تین چار صدیوں کا لیکھا جوکھا کرتے ہیں تو اس حقیقت سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے کہ غزل نے پیر تسمہ پا کی طرح اردو کو ایک ہی جگہ ٹھہرنے یا ایک ہی ڈگر پر چلنے کے لیے مجبور و معذور کر دیا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ میں دو اڑھائی دہائیوں کے قیام کے دوران مجھے وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر بیرون ملک کی یونیورسٹیوں میں قیام ، مطالعے، مشاہدے اور درس و تدریس کے جو مواقع میسر ہوئے، ان سے میرا یہ یقین پختہ ہو گیا کہ اگر اردو کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کے دوش بدوش کہیں بھی کھڑا ہونا ہے تو اسے اس صنف کو ایسے ہی تلانجلی دینا ہو گی، جیسے انگریزی شاعری نے سانیٹ، اوڈ، ہیرائک کپلٹ ,وغیرہ اصناف وغیرہ اصناف سخن یا شعری اسالیب کو دی ہے۔ سانیٹ اور اوڈ کے موضوعات بھی اسی طرح سکہ بند تھے ، جیسے غزل کی کلاسیکی تعریف و تفسیر ہے۔۔

بازی کردن ِ محبوب و حکایت کردن از جوانی و حدیث محبّت و عشق ِ زنان

سانیٹ میں صرف دو اقسام تھیں، ’’پیٹرآرکن‘‘ اور ’’ شیکسپیرین‘‘۔ دونوں کی سطور کی تعدا د بھی مخصوص تھی۔ قوافی کا چلن بھی ایسا تھا جس سے انحراف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ موضوعات بھی سانیٹ اور اوڈ دونوں کے لیے مخصوص تھے۔ انہیں تعریف، توصیف، القاب نوازی، ممنونیت، عرضداشت، دعا یا پھر آفاقی قدروں کے اظہار و اشتہار کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، پھر کیا وجہ تھی کہ انیسویں صدی کے نصف آخر کے بعد اور بیسویں صدی کی پہلی ربع صدی کے آنے تک یہ اصناف سخن نا پید ہو گئیں۔ اب ان کو درسی کورسوں میں تو شامل کیا جاتا ہے، لیکن شاعری کے ان جریدوں میں جو سینکڑوں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں اور شعری مجموعوں میں جو ہر برس ہزاروں کی تعدا د میں منظر عام پر آتے ہیں، یہ اصناف سخن نظر نہیں آتیں۔

میں نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ بلینک ورس کو اردو میں متعارف کروانے والے دیو قد شعرا راشد، میرا جی، مجید امجد اور اختر الایمان کے علاوہ دوسرے کئی ترقی پسند شعرا کی کاوشوں کے باوجود بہت سے شعر انے بھی اپنی نظموں میں غزل کی ذہنی عادت کو ترک کرنے کا مظاہرہ نہیں کیااور غزل کے ہی پیش پا افتادہ مضامین، استعارات، تلمیحات اور لگے بندھے امیجز کو اپنی نظموں میں بھی استعمال کرتے رہے۔ ان میں خصوصی طور پر فیض احمد فیض یا ان کے زیر اثر دوسرے نصف درجن یا اس سے بھی زیادہ شاعر شامل تھے۔

مشاعروں میں حالت اس سے بھی زیادہ بد تر تھی۔ غزلیہ شاعری اور وہ بھی ترنم سے، لہرا لہرا کر پڑھنا (گانا) ، کسی بھی شعر کے مصرع اولیٰ کو ایک ماہر گلوکار کی طرح تین بار اٹھاتے ہوئے مصرع ثانی پر تان کو دھم سے ’ لٹکا‘ یا ’جھمکا‘ دے کر ختم کرنا ان کا ٹریڈ مارک بن گیا۔اس کی انتہا یہاں تک ہوتی دکھائی دی کہ(بالخصوس ہندوستان میں) شعرا یا شاعرات کسی پروفیشنل گلو کار سے اپنی غزل کو باقاعدگی سے ’’سنگیت بدھ‘‘ کروا کر، کئی بار گھر میں آئینے کے سامنے اس کی پریکٹس کر کے مشاعروں کے لیے خود کو تیا ر کرنے لگے۔۔

میں نے چنڈی گڑھ کے ریڈیو سٹیشن سے جو جالندھر کے پروگرام ہی براڈ کاسٹ کرتا تھا، کچھ اعداد و شمار اکٹھے کیے تو پتہ چلا کہ ریڈیو کے مشاعروں میں صرف غزلیں ہی پڑھی جاتی ہیں اور اگر کوئی شاعر اپنی نظم پڑھنے کے لیے پَر تولتا ہوا نظر آئے تو اسے اشارے سے منع کر دیا جاتا ہے۔۔

غزل ہماری شاعری کی جان ہے، روح ہے، آبرو ہے، ناموس ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ یہ الفاظ تو ہم بہت سن چکے ہیں (میں نے ڈاکٹر نارنگ سے بھی بجنسہ یہ الفاظ سنے ہیں، ان سے اختلاف ضرور کیا ہے، لیکن بحث نہیں کی، کہ میں جانتا ہوں، پانی کو بلونے سے کچھ نکلنے والا نہیں، نہ وہ مجھ سے متفق ہوں گے، نہ میں ان کی بات تسلیم کروں گا، ہم دونوں کی پشت پر ساٹھ پینسٹھ برسوں کی تاریخ ہے ، جس میں ہم دونوں متضاد و مختلف راستوں پر گامزن رہے ہیں)۔

ان الفاظ، یعنی جان، روح، آبرو، ناموس نے ہی تو اردو شاعری کی لٹیا ڈبو دی ہے۔ کچھ آوازیں ضرور اٹھتی رہی ہیں، الطاف حسین حالی، جوش ملیح آبادی، کلیم الدین احمد، اختر الایمان، لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔

میں نے ان تیس چالیس برسوں میں دو درجن سے بھی زیادہ مضامین لکھے جو ان نیم ادبی رسائل میں شائع ہوئے جنہیں غزل گو شعرا کے علاوہ عوام الناس پڑھتے ہیں۔ ۔ ان مضامین میں میرا لہجہ نرم بھی تھا اور درشت بھی۔ میں نے بار بار مثالیں پیش کر کے ، گراف بنا کر، فلو چارٹ ترتیب دے کر یہ ثابت کیا کہ یہ صنف عصری آگہی سے مملو نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتی۔ یہ موجودہ دور کی برق رفتار زندگی، اس کے تقاضوں اور بدلتی ہوئی قدروں کے اظہا ر کے لیے ناکافی ہے۔ اس کی تنگ دامانی مسلمہ ہے۔۔۔

یہی اعتراضات اوڈ اور سانیٹ پر بھی کیے گئے تھے اور آہستہ آہستہ شعرا خود ہی ان اصناف سے متنفر اور بد ظن ہو کر کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے صرف (اور صرف) بلینک ورس شاعری کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ آج مغربی ملکوں کی جامعات کے کورسوں میں اوڈ (تاریخی عجیب الخلقت شے) کے طور پر پڑھائے جاتے ہیں۔ جیسے بیسویں صدی کے پہلے ربع دور میں قریب قریب اور وسط تک پہنچتے پہنچتے ایک پوری پود پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی ہوکہ سانیٹ اور اوڈ کا زمانہ لد چکا، اب بلینک ورس کا دور دورہ ہے۔ بلینک ورس سے فری ورس (نثری نظم) تک پہنچتے پہنچتے کچھ برس انگریزی میں ضرور لگے ،لیکن ایک بار یہ بات طے ہو گئی کہ شاعری ان جکڑ بندیوں میں نہیں پنپ سکتی جو اِن اصناف کی بنیادی قدریں ہیں، تو ہو گئی۔

میں نے اپنے مضامین میں اس بات کو خود بھی سمجھا اوردوسروں کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ غزل سخت جان ضرور ہے اور ہم لوگ طبعاً روایت پسند بھی ہیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ غزل کے طریق کار کو مضمون آفرینی کے سائینسی صوتی اور لسانی پیمانوں کے علاوہ بین المتونیات Inter-textuality کے زاویوں سے دیکھا جائے۔ مائیکل رِفا ترے Michael Riffaterre نے اپنی تنقیدی نظریہ سازی میں شاعری میں خصوصاً اور ادب ِ عالیہ کے علاوہ اساطیر میں عموماً submerged matrix کا ذکر بار بار کیا ہے، زیر آب پڑی چمکیلی چیزوں کی طرح (استعارہ مائیکل رِفاترے کا ہے) انسانی ذہن اپنی تخلیقی کار کردگی کے وقت ان کے ہیولے سطح پر لے آتا ہے اور یہ مجموعی نسلی لا شعور کی وہ ’’جواہرا ت سے جڑی ہوئی پرت ‘‘ہے (استعارہ پھر ایک بار مائیکل رِفاترے سے ہے ) جسے ہم صوتی اور لسانی سطحوں پر اپنے پرکھوں سے بطور میراث لیتے ہیں او بغیر سوچے سمجھے ایسے استعمال کرتے ہیں کہ یہ تمیز کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ آیا جواہرات سی پرت صرف ایک ہیولے ہے objectہے ۔کرسٹیواؔ کے تصور بین المتونیت Inter-textuality کو رِفاترےؔ کے تصور submerged matrix کے ساتھ رکھ کرکلاسیکی غزل کے طریق کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ بین المتونیت کی مثال اردو غزل سے سوا (یعنی سو فیصد حدتک)دنیا کے ادب میں کہیں اور ملنا مشکل ہے۔ ہر غزل اپنے طریق کار میں گذشتہ متون کو اسی میں لا شعوری طور پر جذب کرتی ہے اور ایسے کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ’’کیا کہا گیا‘‘ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ’’کیسے کہا گیا‘‘۔ اس ’’کیسے‘‘ میں مضمون آفرینی کے علاوہ روز مرہ اور محاورے کا استعمال، صوتیاتی مد و جذر ، غنائیت اور تغزل کے علاوہ وہ چابک دستی بھی شامل ہے، جس میں استعارے سے صرف ِ نظر ’’شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا‘‘ کا پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے۔۔

میرے ایک مضمون کے جواب میں کراچی سے محمد علی صدیقی صاحب اور گوہاٹی (آسام) سے تارا چرن رستوگی صاحب نے اپنے مضامین میں غزل کے دفاع میں تحریر کردہ اپنے مضامین میں وہی بات دہرائی جو دہلی میں انجمن ترقی اردو کے سربراہ اپنے تضحیک آمیز لہجے میں پہلے کہہ چکے تھے کہ مغربی تھیوریوں سے آراستہ پیراستہ یہ اردو کا ’ شاعر کیا غزل کو ایک عیسائی میم بنانے پر تلا ہوا ہے؟ رستوگی صاحب کے ساتھ یہ جواب در جواب مضامین جب کراچی کے ایک رسالے ’’سیپ ‘‘سے جگہ بدل کر ’’انشا‘‘ کلکتہ کی زینت بننے لگے تو میں نے پھر ایک مضمون میں حوالہ جاتی لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئے اس سانپ کے سر کو کچلنے کی سعی کی، جس نے تین چار صدیوں سے غزل کے زنگ آلود پارینہ خزانے کو اپنی تحویل میں لے رکھا تھا۔ میں نے لکھا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ مضمون کی بنیاد استعارہ ہے، لیکن اردو غزل کے طریق کار میں استعارہ صرف ایک
Paradigmatic base ہی نہیں، بلکہ یہ اس بنیاد پر Syntagmatic بھی ہے ۔ مغرب میں شعری طریق کارکا چلن یہ ہے کہ وہ استعارے کو صرف Object نہ فرض کرتا ہوا ، اس کے بجائے اس کی Substitution فرض کر کے استعمال کرتا ہے، لیکن غزل میں یہ قائم مقام بدل Contiguityکا سلسلہ در سلسلہ بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک چارٹ بنا رہا ہوں۔

مضمون
محبت کرنا
Paradigmatic
استعارہ:محبت میں گرفتار ہونا (گرفتاری، مجبوری، آزادی کا فقدان وغیرہ)
Syntagmatic
استعارے:چمن ،قفس، صیاد، طائر، دام ، بال وپر،شکستگی، آشیاں، پر ِ پرواز کا کاٹ دینا،برق ِ تپاں،آتش زدگی، ، طوفان باد و باراں، آسمان، تیر کمان وغیرہ ۔
Sub-syntagmatic
استعارے:قفس،رودادچمن،ہمدم،اوردرجنوں دیگرذیلی استعارے

اگر بری سفر کا استعارہ ہو گا، تو دشت، طوفان، تشنگی، کانٹے ، پاؤں کے چھالے ، کارواں، میر کارواں، محمل، گرد و غبار ، ’’بو علی‘‘ ، قزاق، وغیرہ ذیلی استعارے پیادوں کی طرح ہمراہ چلیں گے۔ اسی طرح اگر بحری سفر کا استعارہ ہو گا تو طوفان ،کشتی، سفینہ، جہاز، لنگر ، بادبان ، نا خدا ، تلاطم، کنارہ، ساحل اور درجنوں دیگر ذیلی استعارے ڈگمگاتے ہوئے ساتھ چلتے جائیں گے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ترقی پسند تحریک کے وقت پہلے تو ان استعاروں سے اجتناب برتا گیا اور شعرا پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ان سے دور ہیں۔ جگر مراد آبادی جیسے تغزل اور ترنم کے شاعر نے بھی یہ مصرع کہنے پر خود کر راضی کر لیا، ع: شاعر نہیں ہے وہ جو غزلخواں ہے آج کل۔ لیکن جب فیض نے اپنی نظموں اور غزلوں میں یہی استعارے ایک نئے سیاق میں ، یعنی اشتراکیت کے حوالے سے برتنے شروع کئے تو جیسے غزل گو شعرا سے بھی یہ پابندی اٹھ گئی۔ مجروعؔ کا یہ مصرع ثبوت کے لیے کافی ہے۔ع اٹھ اے شکستہ بال، نشیمن قریب ہے۔۔
بلراج کومل صاحب یکتائے روزگار شاعر تھے۔ان سے جتنی بار دہلی میں بات چیت ہوئی یا جب وہ ایک بار چنڈی گڑھ تشریف لائے ، انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا کہ تین یا اس سے بھی زیادہ صدیوں تک یہ استعارات جو عجمی غزل سے مستعار لیے گئے تھے، اردو غزل
پر اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں۔ان دوران میں ان استعارات کا substitution کی سطح پر ، یا One-to-one-equation کے تناظر میں تصویری پہلو عنقا ہو گیا۔ یعنی محفل یا مشاعرے میں بّری یا بحری سفر (دشت، قافلہ، قافلہ سلار، محمل، ناقہ، گرد پس ِکاروان، قزاق، رہبر، گم کردۂ منزل، یا کشتی، طوفان، ناخدا، ساحل، منجدھار، لنگر، بادبان وغیرہ) پر مبنی استعارات کو سن کر سامعین کے ذہن میں کوئی تصویر اجاگر نہیں ہوتی۔ یہ حالت یہاں تک دگر گوں ہو گئی کہ غزل گو شعرا اِن ذیلی استعاروں کے فاضل پرزوں
کو اپنے ذہن کے کارخانوں کے شیلفوں پر رکھے ہوئے باآسانی اٹھا کر کسی بھی شعر میں جڑ دیتے۔ آج تک اردو میں جو لاکھوں کروڑوں غزلیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے نناوے فیصد اشعار اسی قماش و قبیل کے ہیں اور اس میں دو آرا نہیں ہو سکتیں۔
جاری ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply