گونگا کھسرا(محبت کھرک ہے سے اقتباس)۔۔سلیم مرزا

ان دنوں اتنی چھان پھٹک نہ تھی، گلاب تتلی کے چھو جانے کے تصور سے ہی سالوں مہکے مہکے مرجھا جاتے تھے، صرف لڑکی ہونا ہی “فوبی کیٹس “ہونے کے برابر تھا ۔ اب تو فیس بک پہ پروفائل دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ موٹے منہ والی سٹینڈرڈ چارٹرڈ کی وائس پریذیڈنٹ ہے ۔ سو میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ وہ کیا پڑھاتی ہے ۔بس یہ پتہ تھا کہ پانی والی ٹینکی کے نیچے کوئی  سکول ہے جہاں وہ ٹیچر ہے ۔ اس سے طے یہ ہوا کہ کل میں آؤں گا اور چھٹی کے بعد کسی جگہ بیٹھ کر تعلیم بالغاں کو فروغ دیں گے “اگر جگہ نہ ہوئی تو ” “تمہارا جسم تمہاری مرضی، میرا علم میری مرضی “۔ ہم کون سا ماروی اور خلیل  الرحمن قمر تھے کہ لڑ پڑتے ،چھٹی سے کوئی آدہ گھنٹہ پہلے میں  سکول کے دروازے پہ تحصیل علم کیلئے پہنچ گیا ۔  سکول کا دروازہ بند تھا، اندر غیر معمولی خاموشی تھی ۔ دروازے کو تین چار بار بجایا، گھنٹی  ہوتی تو بجائی لکھتا ۔ کافی دیر تک کوئی نہ آیا تو دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔ پھر بھی جواب ندارد ،آخرکار کھڑکایا تو  بارہ تیرہ سال کی یونیفارم پہنے ایک بچی نکلی ۔ “میڈم سلمی سے کہیں، باہر وکی صاحب آئے ہیں ” اس نے میری بات کو بغور سنا اور جواب دیے بغیر اندر چلی گئی۔

 لگ بھگ دس منٹ انتظار کے بعد بھی کوئی نہ آیا تو میں نے اَدھ کھلے دروازے سے اندر جھانکا ۔ ایک آٹھ دس سال کا بچہ بستے کو گھسیٹ رہا تھا ۔ اس نے مجھے جھانکتے دیکھا تو خود ہی میری طرف چلا آیا۔ “میڈم سلمی سے کہیں، باہر وکی صاحب آئے ہیں “۔۔۔ بچے نےمشکوک اور مطعون نظروں سے مجھے دیکھا، اسے شاید میری تانکا جھانکی پہ تحفظات تھے ،سر ہلا کے چلا گیا ۔ جاتے جاتے دروازہ بھی بند کرگیا ۔

پانچ چھ منٹ انتظار کے بعد پھر سے دروازہ بجایا ۔کھٹکھٹایا اور کھڑکایا۔۔ تھک ہار کر ادھر ادھر دیکھا تو  سکول کے سائن بورڈ پہ نظر پڑی ۔ ” تیرا ککھ نہ روے وکی ” وہ گونگے بہرے بچوں کا  سکول تھا ۔

یونہی آدہ گھنٹے سے خوار ہورہا تھا ۔ اب عقل دوڑائی ۔اشارے سوچےکہ ان بہروں کو کیسے سمجھانا ہے، مس کا اشارہ ناک پہ انگلی رکھ کر زنخوں کی طرح ہلنا ،سلمی کیلئے اشارہ شرٹ کا گھیرا پکڑ کے ہلانا وکی کی نشاندہی کیلئے سینے پہ ہاتھ رکھ کر رکوع کی صورت جھکنا ۔وغیرہ وغیرہ

اب جو ایکشن ڈیزائن ہوا وہ کچھ ایسے تھا جیسے کھسرے نے بھنگ پی ہو اور اسکی پھولوں والی کرتی “وکھیوں “سے تنگ بھی ہو، سوچنے سمجھنے کا وقت جوانی میں ہوتا ہی کہاں ہے، دروازے کو ایک بار پھر پوری طاقت سے دھڑ دھڑایا، بسیار کوشش ایک پندرہ سولہ سال کا لڑکا باہر آیا۔ طے شدہ ترتیب اور انداز سے اشارے کنائے اور کتھک کیا ۔ اس نے حیرت سے دیکھا “لگتا ہے نہیں سمجھا “؟

اب کتھک پہلے کیا، اشارے بعد میں ،اس بار لڑکے کا ضبط جواب دے گیا ‘کس سے ملنا ہے پاجی “؟ مردہ بولتا تو میں اتناحیران نہ ہوتا، جتنا اس کے بولنے پہ ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

 کم بخت نے کفن ہی نہیں، ہر شے ادھیڑ دی ۔۔۔میں سکتے میں جہاں تھا اسی پوز میں حیران کھڑا رہ گیا ۔ اتنے میں سلمی باہر آگئی ۔اس نے سوالیہ نظروں سے ہم دونوں کو دیکھا ۔اس سے پہلے کہ  میری گویائی واپس آتی وہ لڑکا گھوما اور کہنے لگا ۔ “میڈم یہ کھسرا بھی گونگا ہے”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply