اک پیِر حرف گیر۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اُٹھ کر جو گیا پیر ِ حرف ِ گیر جہاں سے
خلقت نے کہا، آج خزانہ ہوا خالی
الفاظ کی دولت جو لٹاتا تھا یہ بخشی
اک اشرفی کیا، ادھی ، ادھیلی نہ رہے گی
الفاظ کا اندوختہ، نظموں کا ذخیرہ
اب زیر زمیں دھنس گیا، قلاّش ہیں ہم سب
خلقت نے کہا، نعت ، بھجن اب نہیں ہوں گے
مسمط ہو کہ بافی ہو کہ ترتیل، ثلاثی
’’چَو بولا‘ ‘ ہو، سی حرفی ہو، یا نظم، بھجن، گیت
اب کچھ نہیں ہو گا بجز اہمال یا ابہام
اب سمع خراشی سے سوا کچھ نہیں چارہ!
مرتے ہوئے بھی پیرِ حرف گیر یہ بولا
ہے شعر و سخن ایک ہی پائندہ روایت
صدیوں سے بد یہہ گو یہاں کے سبھی شاعر
موجود تھے، موجود ہیں، موجود رہیں گے
اک میں جو اٹھا یاں سے تو باقی ہیں بہت سے
القصہ یہ سمجھو کہ خزانہ نہیں خالی!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply