میرا جسم میری مرضی: طبقاتی زاویہ۔۔شاداب مرتضی

میرا جسم میری مرضی:

محنت جسمانی کام ہے۔ پاکستان کے مزدور، کسان اور دیگر محنت کش، جو پاکستان کی آبادی کی اکثریت ہیں، اس کام کے حوالے سے اپنے جسم پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ خود کو جسمانی طور پر زندہ رکھنے کے لیے انہیں بدترین شرائط پر اور بدترین حالات میں سرمایہ داروں، زمینداروں اور مالکوں کے لیے اپنا جسم، اپنی جسمانی قوت، اپنی محنت کی صلاحیت کو بیچنا پڑتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح “جسم فروش” عورت کو اپنا وجود  ز ندہ رکھنے کے لیے جسم بیچنا پڑتا ہے۔ لیکن سرمایہ دار اور مراعات یافتہ طبقے کے مرد و زن کو اپنے جسم پر آزادی اور اپنے مزدوروں، کسانوں اور ملازموں کے جسموں پر کنٹرول حاصل ہے۔ سرمایہ دار اور مراعات یافتہ طبقوں کی عورتوں اور مردوں کو، بحیثیت مجموعی، اپنے جسموں پر اس قدر آزادی حاصل ہے کہ وہ محنت کا فرض رضاکارانہ طور پر بھی انجام نہیں دیتے۔ نا صرف یہ بلکہ اپنے نجی کاموں کے لیے بھی وہ دوسرے لوگوں کے جسموں کو ملازم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کے محنت کش مرد و زن، پاکستان کی آبادی کی غالب اکثریت، یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ “میرا جسم میری مرضی” مگر وہ اپنے معاشی حالات کی وجہ سے چاہتے ہوئے بھی ایسا نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس کا نتیجہ ان کے لیے بیروزگاری اور بھوک سے موت ہوگا۔ ان کا جسم دوسروں کے لیے محنت کرنے کے جس بوجھ کو اٹھانے پر مجبور ہے اس کی وجہ “پدرشاہی نظام” نہیں ہے، وہ دوسروں کے عیش و آرام کی خاطر محنت کے لیے اپنا جسم مردانہ بالادستی کے نظام کی وجہ سے بیچنے پر مجبور نہیں ہیں۔اس کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے، صنعت میں بھی اور زراعت میں بھی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے بغیر وہ اپنے جسموں کو انسانی غلامی کے اس بوجھ سے آزاد نہیں کراسکتے۔ اس اجرتی غلامی سے آزادی کے بغیر وہ جنسی سکون اور تولید کی آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔ معاشی استحصال یعنی سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے خاتمے کے بغیر عورتوں کی کثیر اکثریت کے جنسی وجسمانی استحصال کے خاتمے کا امکان پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔لہذا، وہ تمام قوتیں جو عورت کے استحصال کا خاتمہ چاہتی ہیں انہیں سرمایہ دارانہ نظام کے کلچر سے پیدا ہونے والے مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اس کی بنیاد یعنی سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے کی جانب قدم بڑھانا ہوگا۔

عورت اور معاشی آزادی:
عورت کی آزادی کی بنیاد معاشی آزادی ہے۔ عورت مرد پر معاشی انحصار سے آزاد ہو کر اپنے وجود کے لیے آزادی پا سکتی ہے۔ لیکن موجودہ معاشی نظام میں یعنی سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کو معاشی آزادی نہیں مل سکتی۔ یہ جاننے کے لیے فیکٹریوں اور کھیتوں میں کام کرنے والی یا گھریلو صنعت میں یا گھریلو ملازمت کے شعبے میں کام کرنے والی عورتوں کی حالت زار پر نظر ڈالنا ہی کافی ہے۔ ان محنت کش عورتوں کی آزادی کی راہ میں جو بنیادی رکاوٹ حائل ہے وہ پدرشاہی رویے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ پیداواری رشتے ہیں۔ اگر ہم یہ جان چکے ہیں کہ “پدرشاہی کے ہاتھوں عورت کا استحصال سرمایہ داری میں محنت کے استحصال سے بندھا ہوا ہے” تو پھر منطقی طور پر ہمارا ہدف پدرشاہی نہیں بلکہ سرمایہ داری نظام ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم عورت کے “اقلیتی” اور “انفرادی” حقوق کی لبرل حدود سے باہر نکلیں اور این جی اوز پر انحصار کرنے کے بجائے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سیاسی تحریک کو مضبوط کریں۔ این جی او کے فنڈ اور ایجنڈہ سے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد میں حصہ نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ این جی او سیکٹر خصوصاً ترقی پذیر ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام کا محافظ ہے۔

عورت اور فردی  آزادی:
سیمون دی باویر سے متاثر ایک فیمنسٹ نکتہ نظر یہ ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے سے عملی طور پر علیحدہ نہیں ہوسکتے کیونکہ عورت مرد سے باپ، بھائی، شوہر، بیٹے وغیرہ جیسے رشتوں میں جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے عورت کی آزادی کا سوال آزادی کے دیگر مسائل سے مختلف ہے۔ ایسا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر پدرشاہی استحصال کے خلاف جدوجہد کیسے ممکن ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ معاملہ یہ ہے کہ یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے کہ مرد اور عورت عملی طور پر ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے۔ سماج میں مرد اور عورت کا تعلق صرف “جنسی” یا “خاندانی” نہیں ہے۔ مرد اور عورت کے سماجی تعلق کی مختلف سماجی، سیاسی اور معاشی شکلیں بھی پائی جاتی ہیں۔ سیاسی و معاشی تحریک میں مزدور اور کسان عورتیں سرمایہ دار اور جاگیردار طبقوں کے استحصال کے خلاف عملی طور پر خود کو علیحدہ کر سکتی ہیں کیونکہ سرمایہ دار اور جاگیردار طبقوں کے مرد نہ ان کے شوہر ہوتے ہیں، نہ باپ ،نہ  بھائی اور نہ ہی ان سے ان کا کوئی اور خاندانی رشتہ ہوتا ہے۔ ان کے درمیان ظالم و مظلوم کا “طبقاتی” رشتہ ہوتا ہے جسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ پیرس کمیون، روسی انقلاب وغیرہ سے لے کر کیوبا کے انقلاب تک عورتوں کی یہ یکجہتی تاریخ طور پر ثابت شدہ ہے۔ عورت اور مرد کے تعلق کی خاندانی شکل کی بنیاد پر عورت اور مرد کے درمیان موجود تمام دیگر سماجی رشتوں کو متعین کرنا درست نہیں ہے۔ عورت کے سماجی استحصال کے خلاف عورتوں کی اس یکجہتی کا ایک مظہر ہم “عورت مارچ” کی صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس معاملے کا ایک متضاد پہلو یہ ہے کہ جس طرح مزدور اور کسان عورتیں اپنے خاندان کے مردوں سے خود کو علیحدہ نہیں کر سکتیں اسی طرح سرمایہ دار اور مراعات یافتہ طبقوں کی عورتیں خاندانی رشتوں اور معاشی ضرورت کی بناء پر اپنے طبقوں کے مردوں کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں۔ اور اسی وجہ سے یہ ناممکن ہے کہ تمام عورتوں کے حقوق کی یکساں جدوجہد کی جائے کیونکہ اس جدوجہد میں متضاد طبقوں کی عورتیں اپنے طبقاتی حقوق کے دفاع کے لیے اپنے خاندانوں اور طبقوں کے مردوں کے شانہ بشانہ ایک دوسرے کے خلاف کھڑی ہوتی ہیں۔ اس لیے ایک فرد کے طور پر عورت کی آزادی تب تک ناممکن ہے جب تک کہ سماج میں موجود طبقاتی تقسیم ختم نہ ہوجائے۔ جب تک سماج کے افراد امیر اور غریب، ظالم و مظلوم طبقوں میں تقسیم ہیں تب تک عورتوں کی کثیر اکثریت، مزدور، کسان اور محنت کش طبقوں کی عورت فردی آزادی حاصل نہیں کرسکتی۔ اس صورتحال میں صرف مراعات یافتہ طبقوں کی عورتوں کو کچھ مزید حقوق اور مراعات ہی مل سکتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کمیونسٹ جمہوری برابری کے ضمن میں صنفی   برابری کے بھی اسی طرح قائل ہیں، جس طرح قومی برابری کے۔۔ لیکن جس طرح وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں قومی آزادی و برابری ممکن نہیں ،اسی طرح وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے صنفی برابری اور عورت کی آزادی ناممکن ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ عورت کی برابری اور آزادی کی اولین شرط ہے۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply