وولگا سے گنگا۔۔سیّد مہدی بخاری

گذشتہ دنوں فرصت نصیب رہی اور موبائل سے دوری بھی رہی اسی واسطے کچھ کتابیں پڑھنے کا وقت ملا۔ انہیں کتابوں میں سے ایک کتاب کا ذکر کرنا چاہوں گا جو تاریخ کی انوکھی کتاب ہے جس میں کہانی، افسانے کی  صورت یوں تاریخ کا صدیوں بھرا کٹھن سفر طے کرتی جاتی ہے کہ پڑھنے والے کو ناول کا گمان ہونے لگتا ہے۔ بہترین نقشہ نگاری و جزیات کے بیان نے اس کتاب کو لازوال کتاب بنا ڈالا ہے۔ میں جب دریائے وولگا کنارے تھا اور اس کے کنارے سفر کرتے روس کے شہر شہر گھومتا رہا تب کا منظرنامہ بھی اس کتاب نے پھر سے تازہ کر دیا ہے۔ انسانی تہذیب، ارتقاء اور خاندان کی تشکیل پرمبنی اس کتاب کا نام ہے “وولگا سے گنگا”۔

ہندی کے مشہور ادیب و تاریخ دان راہل سنکراتائین کی یہ لازوال تخلیق بیس ابواب پرمشتمل ہے۔ راہل جی نے دریائے وولگا کے کنارے رہنے والے آریاؤں کا سرسبز چراگاہوں کے اجڑ جانے پر دریائے وولگا سے دریائے گنگا تک کا سفر بیان کیا ہے۔

ایک نہایت دلچسپ تاریخی سفر نامہ جو ہمیں یہ بھی دکھاتا ہے کہ ہزاروں برس پر پھیلے ہوئے اسی سفرکے دوران عورت کے زیر انتظام سماج نے کن وجوہات کی بنا پر اور آلات پیداوار کی تبدیلی کے ساتھ کس طرح پدری سماج یا مرد کے سماج کا رنگ اختیارکیا۔ آپ کتاب کا لب و لہجہ ملاحظہ فرمائیں۔
“وولگا کے کنارے ایک بہت بڑے جھونپڑے میں نشا خاندان کی اولاد رہتی ہے۔ یہ ایک بوڑھی دادی کا نام ہے۔ یہ قبیلہ ایک ساتھ شکارکرتا ہے، ایک ساتھ پھل اور شہد جمع کرتا ہے۔ سارے قبیلے کی ایک مالکہ ہے اور سارے قبیلے کا گزارا ایک سنچالن کرتی ہے۔ اس سنچالن سے قبیلے کے آدمیوں کی زندگی کا کوئی حصہ چُھوٹا ہوا نہیں ہے۔ شکار ، ناچ ، محبت ، گھر بنانا ، چمڑے کا لباس تیارکرنا۔ سبھی کام سنچالن یا قبیلے کی کمیٹی کرتی ہے جس میں قبیلے کی ماں کے مخصوص کام ہیں۔ نشا قبیلے کے اس جھونپڑے میں 15 مرد اور عورتیں رہتے ہیں۔
تو کیا یہ سب ایک ہی خاندان ہیں؟ نہیں۔ ان کو بہت سے خاندان بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ماں کی زندگی ہی میں اولادیں چھوٹے چھوٹے خاندانوں میں تقسیم ہوجاتی ہیں۔ زیادہ تر اس مفہوم میں کہ اس کے سب آدمی اس ماں کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر دیوا کی ماں نہ رہے اور وہ کئی بچوں کی ماں ہوجائے تو انہیں دیوا کے لڑکے اور دیوا کی لڑکی کے نام سے پکارا جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود دیوا کی اولاد جو شکارکرے گی اس کا گوشت ، درختوں سے جو پھل اور میوہ حاصل کرے گی وہ سب ان کی ملکیت ہو گا۔”

’’سارے قبیلے کی عورتیں اور مرد مل کر دولت جمع کرتے ہیں اور مل کر ہی اسے ایک ساتھ خرچ کرتے ہیں۔ شکار نہ ملے یا پھل اکٹھے نہ کیے جاسکیں تو کوئی ایک شخص نہیں سارا قبیلہ فاقہ کرتا ہے اور جب کھانا ملتا ہے تو سب کو برابر ملتا ہے۔ کوئی بھی آدمی قبیلے سے الگ اپنی کوئی ملکیت نہیں رکھتا۔ قبیلہ کا حکم اور رواج ماننا ان کے لیے اتنا ہی آسان ہے جس قدر اپنی خواہش کے مطابق چلنا۔
(سوا دو سو نسل پہلے کے آریا قبیلے کی کہانی)”

’’ اس زندہ دل زمانے میں عورت نے ابھی مرد کی مکمل غلامی نہیں تسلیم کی تھی اس لیے اسے بیشمار چاہنے والوں سے ملنے کا حق حاصل تھا۔ مہمانوں اور دوستوں کے پاس خاطر اور تواضع کے طور پر اپنی بیوی کو بھیجنا، اس عہد میں سب سے بڑی عزت خیال کیا جاتا تھا۔‘‘
(دو سو نسل پہلے کے ایک آریا قبیلے کی کہانی)

دریائے وولگا کے کنارے عورت خاندان کی سربراہ اور دیوی تھی ، وولگا کے کناروں کو چھوڑ کر نئی چراگاہوں اور نئے جنگلوں کی تلاش میں نکلنے کا فیصلہ اس کا تھا لیکن سینکڑوں برس کے اس سفر کے دوران وہ رفتہ رفتہ اپنی بالادستی سے محروم ہوئی۔ آریا قبیلے لگ بھگ دو ہزار سال قبل مسیح ہندوستان میں داخل ہونا شروع ہوئے اور یہ سلسلہ پانچ چھ سو برس تک جاری رہا۔ وادئ سندھ میں مادرسری نظام رائج تھا ، یہاں کے باشندوں کے پاس وہ بہتر اور برترہتھیار اور اوزار نہیں تھے جو صدیوں پر پھیلے ہوئے سفر کے دوران آریاؤں نے ایجاد کرلیے تھے، وادئ سندھ کے لوگوں کے پاس آریاؤں جیسے برق رفتارگھوڑے بھی نہ تھے، ہوتے بھی کیسے، آریا سینکڑوں برس سے سفر میں تھے، مختلف زمینوں سے گزرنے کی مشکلات نے انہیں زیادہ جفاکش اور زیادہ طاقتور بنادیا تھا۔
اس سفرکے دوران آریاؤں نے صرف نئے ہتھیار ہی نہیں بنائے تھے اور جانور ہی نہیں سدھائے تھے، انہوں نے عورت کو قبیلے کی سرداری سے بھی سبکدوش کر دیا تھا۔ وہ وادئ سندھ میں داخل ہوئے تو آریا مرد قبیلے کا سردار تھا ، ماں اور بیوی کا احترام قائم تھا لیکن وہ پس منظر میں چلی گئی تھی اور یک زوجگی رائج ہوچکی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

’’وولگا سے گنگا‘‘ ایک دلچسپ اور چشم کشا تاریخ کی کتاب ہے۔ باقی آپ پڑھیے اور سوچیے وولگا سے گنگا تک انسان کیسے کیسے حالات سے گزرا۔اس کتاب کو نگارشات پبلشرز نے چھاپا ہے۔جہلم بک کارنر سے بھی مل سکتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply