اچھا یاد آیا کہ جب مروہ پر ساتواں چکر مکمل ہوا تو مجھے بیت الخلا جانا تھا۔ کوہ مروہ کے بغلی دروازے سے باہر نکلیں تو جو قریبی بیت الخلا ہے ، اس کی اپنی ایک تاریخی اہمیت اور حیثیت ہے ۔ یاد رکھیے کسی مقام کی یا واقعے کی تاریخی اہمیت یا حیثیت لازم نہیں ہے کہ ہمیشہ مثبت ہی ہو کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ مقام یا واقعہ انتہائی منفی رنگ لیے ہوتا ہے ۔ لیکن اس منفی پن کے باوجود اس کی تاریخی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہوتا ۔ سو یہ بیت الخلاء بذات خود کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ اس طرح کے بیت الخلا حرم کے صحن میں چاروں طرف زیر زمین پھیلے ہوئے ہیں اور ان موجود سب بیوت الخلا کا نظام انتہائی منظم ہے ۔ اب جب ذکر بیت الخلاء کا آیا ہے تو اس حوالے سے حرم کی انتظامیہ کی تعریف کرنا بنتی ہے زائرین کے لیے اور معتمرین کے لیے انتہائی سہولت سے جگہ جگہ بیت الخلاء بنائے گئے ہیں اور ان کی اتنی کثرت میں ہیں کہ اگر کسی کو بیت الخلا جانا پڑے تو اس کو بہت زیادہ صعوبت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اور ہر ایسی زیر زمین عمارت کے اوپر اس کے نمبر شمار کے بڑے بورڈ لگا دیے گئے ہیں ۔ اور ایک دوسرے کی تلاش میں مددگار بھی رہتے ہیں ۔
نیچے اترنے کے لیے سیڑھیاں بنائی گئی ہیں لیکن ساتھ ساتھ برقی سیڑھیاں بھی مسلسل چل رہی ہوتی ہے ، سو معذور یا بڑی عمر کے لوگوں کے لیے نیچے اترنا اور واپس آنا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔ پھر ہر عمارت میں بلا مبالغہ درجنوں نہیں بلکہ کہیں زیادہ بیت الخلا ہوتے ہیں ۔
پھر یہاں پر ایک اور اہم پہلو ان عمارتوں کی صفائی کا ہے بلا شبہ نہایت مستعد اور محنتی عملہ ہر وقت یہاں صفائی کر رہا ہوتا ہے مجال ہے آپ کو پانی کا کوئی قطرہ گرا نظر آ جائے یا بدبو کا آنا جانا۔۔ البتہ اس بار بعض جگہ پر پانی کی ٹوٹیوں کی شکست و ریخت نظر آئی ، ضروری ہے کہ اس حوالے سے مزید مستعد رہا جائے ۔
میں ذکر کر رہا تھا مروہ سے باہر بیت الخلا کا کہ اس مقام کی ایک تاریخی اہمیت بھی ہے اور وہ یہ تھی ہے کہ جس جگہ یہ بیت الخلا بنائے گئے ہیں کبھی وہاں ابوجہل عمرو بن ہشام کا گھر تھا ۔ ابو جہل کی “تاریخی اہمیت” تو مسلمہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
“ہر امت کا ایک فرعون ہوتا ہے اور امت مسلمہ کا فرعون یہ ابو جہل تھا ”
عمرو بن ہشام کہ جو اپنے عہد کا اور قبیلے کا سردار تھا اور جس کو ابو الحکم کہا جاتا تھا یعنی حکمت و دانائی کا باپ ، اس سے اندازہ کیجئے کہ کیسا ذہین آدمی رہا ہوگا لیکن گمراہی پر اکڑ گیا ، حق کو جاننے اور سمجھنے کے باوجود قبول نہ کیا اور بالکل وہی رویہ اختیار کیا جو عزازیل نے پیدائش آدم کے موقع پر کیا تھا کہ اللہ کی قدرت کو اچھی طریقے سے جانتے ہوئے بھی گمراہی پر جم گیا ۔ آج اس کو شیطان اور ابلیس کے علاوہ جانا ہی نہیں جاتا ۔ بلاشبہ وہ عزازیل تھا لیکن تب تک تھا کہ جب تک انتہائی متقی نیک اور پرہیزگار تھا اسی طرح یہ ابو الحکم بی تب تک ابو الحکم تھا کہ جب تک حکمت پر کاربند تھا ، معزز بھی تھا ، صاحب عزت بھی تھا اور قبیلے کا سردار بھی تھا لیکن جب حکمت کو خیر باد کہا تو ابو جہل کہا گیا ۔ آج کوئی جانتا ہی نہیں کہ اس کو کوئی ابو الحکم بھی کہتا تھا اس کا نام عمرو بن ہشام تھا ۔
جہاں پراس کا گھر تھا وہاں پر اب بیت الخلا ہے ۔ یہ اللہ کی تقسیم ہے یقیناً کسی کے ذہن رسا میں یہ بات آئی ہوگی وگرنہ حرم کے گردا گرد دسیوں عمارتیں ہیں جن میں بیت الخلاء قائم کیے گئے ہیں لیکن میں نے کہا نا کہ کسی کے ذہن رسا میں یہ بات آئی ہوگی کہ اس جگہ پر بیت الخلاء ہونا چاہیے کہ یہ حکمت کا مقام نہیں ہے یہ رسوائی و ذلت کا مقام ہے سو اس مقام پر میں بھی بیت الخلاء استعمال کرنے گیا اور وہاں یہ سب یاد آیا
عمرہ مکمل ہو چکا ، احرام اتر چکا اور ہم ہوٹل واپس آگئے ۔ارادہ تھا رات بھیگ چکی تھی ارادہ تھا کہ اب اچھا آرام کر لیا جائے ہوٹل کی بس سے حرم تک جانے میں پندرہ سے بیس منٹ لگتے تھے اور اس کے بعد پانچ سے سات منٹ پیدل کا راستہ بھی ہوتا تھا ، جتنے روز میں مکہ میں رہا تو عمومی معمول یہی تھا کہ میں فجر سے پہلے حرم چلا جاتا اور فجر کے بعد کچھ دیر تک وہاں بیٹھا رہتا حتی کہ سورج کچھ اوپر آ جاتا تو میں واپس ہوٹل آ جاتا ۔ اس کے بعد لذت کام و دہن کا معاملہ ہوتا یعنی ناشتہ کرتے اور ظہر سے پہلے پھر حرم کے لیے نکل جاتے ہیں اور عموما عشاء کی نماز پڑھ کے ہی واپسی ہوتی ۔
فجر کی نماز کے بعد حرم میں بیٹھنا بہت پرسکون ہوتا ہے ، لوگ نماز پڑھ کر اپنی قیام گاہ کی طرف نکل جاتے ہیں اور ہجوم خاصا کم ہو جاتا ہے ۔ دیر تک صحن حرم میں بیٹھے رہیے
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے
ایک روز میں فجر کی نماز پڑھ کے حرم کے بیرونی صحن میں بیٹھ گیا ، ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا موسم خاصا خوشگوار تھا ، کچھ دیر تلاوت کی اور پھر ماحول کے نظارے میں کھو گیا ۔ سکینت نازل ہو رہی تھی ۔
کتنے ہی کبوتر میرے سامنے آتے ، دانا چگتے اور پھر اڑ جاتے ۔ میں دیر تک ان کو دیکھتا رہا ، کیا آزادی کی زندگی ہے ان کی ، اور تہمت مختاری لیے نامہ اعمال کی تلاش میں ۔۔۔۔
ویسے تو حرم کے ان کبوتروں کے حوالے سے لوگوں کے عقیدت کے مظاہر بھی بڑے بڑے دلچسپ ہیں ایک بات جو عموما مشہور ہے کہ یہ کبوتر جب صحن حرم پر اڑتے ہیں تو بیت اللہ شریف کے اوپر سے نہیں گزرتے لیکن یہ ہماری خوش عقیدگی کا مظہر ہے وگرنہ اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ صحنِ حرم میں کبوتر بے تکلفی سے اڑتے ہیں اور بیت اللہ کے اوپر سے بھی گزرتے ہیں ۔ پھر ایک اور بات بہت مشہور ہے کہ ان کبوتروں کے زمین پر ہڑے دانے سے سات دانے جو دوشیزہ کھائے گی وہ امید سے ہو جائے گی ۔ حالانکہ یہ کام پیر کبوتر شاہ کا نہیں ۔۔خود بندے کو کرنا ہوتا ہے ۔
بنیادی بات یہ ہے کہ لوگوں نے اس طرح کی باتوں کے ذریعے حرم کو عزت دینا چاہتے ہیں جبکہ حرم کی عزت اور مقام کے اسباب یکسر کچھ الگ ہیں ۔ یہ بات سمجھنے کے لیے ایک مضبوط عقیدے کا حامل ہونا چاہیے یہ وہی مضبوط عقیدہ ہے کہ جس کا اظہار سیدنا عمر نے حجر اسود کو چومتے ہوئے کیا تھا اور پیچھے آپ پڑھ بھی چکے ہیں کہ جب انہوں نے حجر اسود کو چوما تھا تو کہا تھا کہ :
“تو نفع مند ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے صرف رسول نے چوما ، سو ہم بھی تجھ کو چومتے ہیں”
تو یہ معاملات بھی ایسے ہی ہے کہ اللہ کے اس گھر کی عزت کے اسباب اللہ کا حکم ہے نہ کہ جن پتھروں سے بنا ہے وہ پتھر کچھ معزز ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اگر ان پتھروں کو بھی کوئی عزت حاصل ہوئی ہے تو سبب یہ ہوا کہ وہ پتھر آ کے بیت اللہ کی دیواروں میں چنے گئے
بات دور نکل گئی ، لوگ بڑی محبت سے پرندوں کو دانہ ڈالتے ہیں اور یہ مناظر حرم کے دائیں بائیں مختلف جگہوں پر نظر آتے ہیں جیسا ایک چوک کا نام ہی کبوتر چوک ہے
اسی طرح ہمارے ہوٹل کی شٹل سروس کلاک ٹاور کے پیچھے جہاں اتارتی تھی ، وہ بھی ایک بڑا احاطہ تھا اور وہاں پر بھی کبوتروں کا ڈیرا تھا ، آتے جاتے حاجی پاس کھڑے افراد سے دانہ خریدتے اور کبوتروں کو ڈال دیتے ۔یہ ان کا اچھا کاروبار بنا ہؤا ہے کہ “پنج ریال پنج ریال ” کی آوازیں لگاتے ہیں اور خوب دانہ بیچتے ہیں ۔ لیکن ابھی سعودی حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ جو اس طرح کبوتروں کو ڈالے گا اس کو اتنے ریال جرمانہ کیا جائے گا اس کا سبب یہ ہے کہ جس جگہ پر کبوتروں کو دانہ ڈالا جاتا ہے وہاں پر اچھا خاصا گندگی والا ماحول بن جاتا ہے کیونکہ وہ تو جانور ہیں اور جانور نے کوئی برقی زینہ تلاش کر کے نیچے بیت الخلاء میں تو جانا نہیں سو کچھ دان کیے گئے دانے کا گند اور کچھ ان کی اگلی نگلی غلاظت، یوں ایک تعفن زدہ ماحول بن جاتا ہے ۔ اور جب جگہ جگہ یہ حالت ہوگی تو اب خود ہی تصور کر سکتے ہیں کہ ایک ایسا مقام کہ جس کو بہت صاف ستھرا ہونا چاہیے وہاں پر کیا صورت ہوتی ہوگی ۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ سعودی حکومت کو ان جانوروں کے لیے بلکہ معصوم جانوروں کے لیے کچھ ایسا انتظام کر دینا چاہیے کہ لوگوں کا شوق بھی پورا ہوتا رہے اور یہ جانور بھی اب جس آس امید سے آتے ہیں تو ان کی امید نہ ٹوٹے ۔
حرم میں ایک اور نظارہ بہت دل خوش کن ہوتا ہے کہ مغرب کی نماز سے آدھ پون گھنٹہ پہلے صفوں کے بیچ میں ” سفرے ” بچھنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ سفرا عربی میں دسترخوان کو کہتے ہیں ۔ باریک موم جامے سے بنا یہ دسترخوان قریباً ڈیڑھ سے دو فٹ چوڑا ہوتا ہے اور حسب ضرورت جتنی مرضی لمبائی میں بچھا لیجئے ، یہ بچھ بچھ جائے گا ۔
عرب شیخوں کے ملازمین اور خود جوق در جوق اور غول در غول چلے آ رہے ہوتے ہیں اور اپنا اپنا مقام طے کر لیتے ہیں ، ساتھ ان کے بیگ ہوتے ہیں جن میں کھانے پینے کا سامان بھرا ہوتا ہے ۔ دروازوں پر ان کی اچھے طریقے سے تلاشی لی جاتی ہے اور پھر ان کا اجازت نامہ چیک کیا جاتا ہے ۔ یہ منظر میں نے ایک روز دیکھا کہ جس میں دروازے پر کھڑا محافظ تمام تر سامان کو اچھے طور پر دیکھ بھال رہا تھا اور اس کے بعد اس کا اجازت نامہ بھی بڑے غور سے پڑھ رہا تھا اور اس کے بعد اس کو اندر جانے کی اجازت دے رہا تھا ۔ سامان اندر لے جانے کے لیے بلا شبہ یہ سیکیورٹی اور حجاج کے تحفظ کے لیے ایک ضروری قدم ہے۔ یہ دسترخوان صفوں کے بیچوں بیچ بچھا دیے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد ان پر سامان دھرا جاتا ہے جو عموما ایک ڈبیا میں تین یا پانچ کھجوریں ہوتی ہیں ، اچھا میں نے نوٹ کیا کہ یہ کھجوریں ہمیشہ اعلی نسل کی ہوتی ہیں ، اس کے ساتھ دہی کا ایک چھوٹا ڈبہ ہوتا ہے اور ساتھ عموما “عربی النسل” ایک بن ہوتا ہے .
میری اس ترکیب یعنی کہ “عربی النسل بن” کے اوپر حیران مت ہوئیے ، ہمارے ہاں جو بن ملتے ہیں اس میں سے ہلکی مٹھاس ہوتی ہے ۔ ہوا کچھ یوں کہ اس روز مجھے خاصی بھوک لگی ہوئی تھی ، جب یہ میزبانی ہوئی تو مجھے بڑی خوشی بھی ہوئی تھی کہ ،چلو “موقع بھی ہے دستور بھی ہے” تو میں نے وہ بن کھایا جو ہمارے یہاں کے موجود بنوں کی نسبت زیادہ خوش ذائقہ نہ تھا ، اس لیے میں نے اس کو عربی النسل بن کہا ہے ۔ یہ میزبانی بلاشبہ متاثر کن ہوتی ہے اور مسجد نبوی میں بھی یہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس میزبانی کی خاص بات کبھی کب یوں بھی ہوتی ہے کہ یہ عربی آپ کو ہاتھ کھینچ کھینچ کر اپنے دسترخوان پر بٹھاتے ہیں کہ :
” حضور ادھر تشریف لائیے، آج ہمارے گھر دعوت پر آئیے “
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں