• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)فسانہ شاہراہ ریشم کا۔ احوال قراقرم ہائی وے کا-ملنا کمینے فینی بل سے۔ گنونی کا تہوار اور ہماری مایوسی/سلمیٰ اعوان(قسط16 )

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)فسانہ شاہراہ ریشم کا۔ احوال قراقرم ہائی وے کا-ملنا کمینے فینی بل سے۔ گنونی کا تہوار اور ہماری مایوسی/سلمیٰ اعوان(قسط16 )

آسمان کسی پرہیز گار کے دامن کی طرح شفاف تھا۔ دھوپ میں ماں کی گود جیسی نرمی اور ملائمت تھی۔ یوربی ہوائیں کسی چنچل دوشیزہ کی مانند اداؤں سے تھم تھم کر چلتی تھیں۔ لوہے کی تاروں‘ سرئیے اور لکڑی کے تختوں سے بنے ہوئے گلگت کے معلق پل پر سے ویگن جھولتے جھومتے ہوئے گزر کر لشکارے مارتی سیاہ سڑک پر بھاگی جاتی تھی۔ سڑک کی سیاہی اور گھنے سبز درختوں میں سے اسکا بانکپن دیکھ کر مجھے وہ شوقین مٹیاریں یاد آئی تھیں جو اپنے تیل چپڑے سیاہ بالوں کو پھول چڑیوں سے سجاتی تھیں۔
ہم ہنزہ کی طرف رواں دواں تھے۔ دنیور کی سرسبز وادی دائیں بائیں پھیلی ہوئی تھی۔

شفقت نے نہایت دلچپسی اور تعجب سے میری طرف دیکھا تھا۔ یقیناً اس کے لاشعور میں وہ تنگ پُر خطر اور کچی سڑک اُبھر کر آگئی تھی جس پر اس نے اپنے بچپن میں کہیں ہنزہ کا سفر علی مدد کے گاؤں جانے کے سلسلے میں کیا تھا۔ جیپ کئی بار ڈولی تھی اور تائی اماں کی چیخوں نے اُسے بھی دہلا دیا تھا۔
‘‘یہ قراقرم ہائی وے ہے۔ میں نے اس کی حیرت رفع کی۔ سامنے دیکھو دریا کے پار۔ پہاڑوں کے سینے پر جو لمبی رسّے جتنی موٹی خراش سی نظر آتی ہے۔ وہ پرانی سڑک ہے’’۔
‘‘قراقرم ہائی وے۔ کس قدر غیر رومانی نام؟ کتنا کٹھن؟ حلق سے ق نکالنے میں ہی اسے خرخری شروع ہو جائے۔ بس شاہراہ ریشم اچھا ہے۔ ریشم جیسا سر سرکرتا ہوا۔
شفقت نے اطمینان سے فیصلہ صادر کر دیا تھا۔

۴۰۰ میل لمبی اس شاہراہ کی تعمیر میں فطرت کے ساتھ بڑی بے رحمی سے لڑا گیا۔ وادیوں میں سرد ہوائیں دندناتی پھرتیں۔ گلیشیروں کے تودے ٹوٹتے اور جانی و مالی نقصان کا باعث بنتے۔ گرمیوں میں برف کے پگھلاؤ سے زیر تعمیر حصوں کی تباہی ہوتی۔ زلزلوں سے بہت کچھ تہس نہس ہوا۔ سندھ کوہستان کے افراد نے اسے اپنی آزادی کے خلاف بغاوت جانا۔ والئی سوات نے اس کی تعمیر کو ناپسند کیا۔ مقامی خانوں کی حاکمیت کے لئے یہ سڑک ایک چیلنج بنی۔
بس آرمی انجینئرز کے آہنی عزائم تھے۔ چینی ماہرین کی فنی کاریگری اور ذہانت تھی جس نے پہاڑوں کا جگر چیر کر دودھ کی نہریں نکال دی تھیں۔
میں نے محسوس کیا تھا کہ جب میں یہ سب شفقت کو بتا رہی تھی۔ ہمارے سامنے کی سیٹ پر بیٹھا درمیانی عمر کا مرد میری طرف اپنی تکونی آنکھوں سے بار بار دیکھتا تھا۔ اس کے ہونٹ پھڑپھڑاتے تھے جیسے کچھ کہنا چاہتاہو۔
میں نے توجہ سے تانبے جیسی رنگ والے اس مرد کو دیکھا۔ اپنی قینچی کی طرف چلتی زبان کو بند کیا اور اس سے پوچھا تھا۔
‘‘کچھ کہنا چاہتے ہیں آپ؟’’
‘‘ہاں’’ اس نے اپنا بڑا سا سر ہلایا۔
میں گوجال پائین جو کہ ہنزہ کا بالائی حصہ ہے کے شمشال نامی گاؤں کا رہنے والا ہوں۔ فوج میں صوبیدار تھا۔ شاہرہ ریشم کی تعمیر میں میرا خون پسینہ ایک ہوا ہے۔
میں نے دلچسپی سے اُسے دیکھا اور کہا
تو پھر کچھ بتائیے نا اس کے بارے میں۔
اس سڑک کی تعمیر سے قبل گلگت اور راولپنڈی کے درمیان واحد زمینی راستہ درہ بابو سر تھا۔ ۱۳۵۸۰ فٹ بلند جو صرف گرمیوں کے تین یا چار ماہ کھلا رہتا ‘پھر برف باری کی لپیٹ میں آجاتا۔ یوں شمالی علاقہ جات نیچے کی دنیا سے بالکل کٹ جاتے۔
اندرونی وادیوں میں اگر آپ جائیں تو بڑے بڑے نالوں پر آج بھی قدیم طرز کے پل موجود ہیں۔ جالو (Skin Raft) اور ایک رسی پر مشتمل پل جسے شنا زبان میں ‘‘دوٹ’’ کہتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو مرنے کے بعد جب پُل صراط سے گزرنا پڑے گا تو وہ بغیر کسی دشواری کے یہ مرحلہ طے کر لیں گے ‘بلکہ اس دوڑ میں اول انعام حاصل کریں گے کیونکہ یہ ذرائع انہیں زندگی میں ہی اس کی تربیت دے رہے ہیں۔
ہم دونوں ہنس پڑیں۔
‘‘میں سچ کہہ رہا ہوں۔ آپ جب اندرونی حصوں میں سفر کریں گی تو اپنی آنکھ سے دیکھیں گی’’۔
مغربی ہمالیہ سے لے کر قراقرم اور ہندو کش تک ۷ اور ۹ درجے کی سڑکیں بنی ہیں جو دریاؤں کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ جان ہمہ وقت سُولی پر لٹکی رہتی ہے۔ جیپ یا گاڑی کا پہیہ بس ذرا سا پھسلا تو ہزاروں فٹ نیچے بہتے دریا کی بے رحم لہریں اور مچھلیاں ہڑپ کرنے کو تیار رہتی ہیں۔
لیکن یہ سڑک جسے شاہراہ قراقرم کہتے ہیں۔ اس صدی کا عظیم کارنامہ ہے۔ بشام کا وہ بوڑھا مجھے آج بھی یاد ہے۔ جس کا گاؤں لب سڑک آگیا تھا۔ کبھی وہ آسمان کی طرف دیکھتا تھا۔ کبھی ہاتھ دعائیہ انداز میں اٹھاتا تھا۔ فرنٹیر ورکس پروگرام کے نوجوان اور چند آرمی انجینئرز اس کے پاس گئے پتہ چلا کہ وہ سڑک بنانے والوں کو دعائیں دے رہا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ اس کی زندگی اتنی سکھی بھی ہو سکتی ہے کہ وہ جب چاہے اپنی اکلوتی بیٹی سے ملنے راولپنڈی چلا جائے۔
یہ سڑک ان بے شمار قربانیوں کی بھی یاد دلاتی ہے جو افرا دنے اپنی جانوں کے نذرانوں کی صورت میں دیں۔

میں نے محسوس کیا تھا۔ اس کا لہجہ دکھی اور غمگین ہو گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تیر گئی تھی۔ یقینا ًاسے ان ناخوشگوار لمحوں کی یاد آئی ہو گی جب بند صندوقوں میں لاشیں شہیدوں کے جائے مقام پر پہنچتی ہوں گی تب چاہنے والوں پر کیا کیا قیامتیں نہ گزری ہونگی؟

میں نے دائیں طرف کھڑکی سے باہر فضا کو دیکھا دور پر ہیبت پہاڑ کی چوٹی پر برف یوں چمک رہی تھی جیسے کسی جاہ و جلال والے شہنشاہ کے سر پر تاج چمکتا ہے۔
لمبا سانس بھر کر میں نے کہا۔
‘‘قوموں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ایسا کرنا اور ہونا ناگزیر ہے۔ خون بہائے بغیر گلستان کے چہرے کو نکھار نہیں ملتا’’۔

دکھ اور یاس کے ہزاروں رنگ میری آنکھوں میں گھل گئے تھے۔ اس لمحے میری حالت اس غبارے جیسی تھی جو مسرتوں کی ہوا سے لبالب بھرا فضاؤں میں اڑتا پھرتا ہو۔ پر آناً فاناً ہوا کا زبردست تھپیڑااُس کا پٹاخہ بجا دے۔

نیلے شفاف آسمان پر دھوپ چمکتی تھی۔ کہیں کہیں کوئی پرندہ اڑتا پھرتا تھا۔ ہوا گرم تھی پر کبھی کبھی خوشگوار ہوا کا کوئی جھونکا اس میں آملتا۔ ویگن فراٹے بھرتی جا رہی تھی اور میرا دل عجب سا ہو رہا تھا۔

رحیم آباد میں چشمے کے ٹھنڈے ٹھار پانیوں سے منہ ہاتھ اور پاؤں دھونے‘ کھانا کھانے ‘چائے پینے اور تھوڑا سا سستانے کے بعد بس تین چار میل ہی آگے چلے ہونگے کہ ویگن اچھلی اور پھر لڑھکتی ہوئی آگے تک چلی گئی۔ٹائی راڈ کھل گیا تھا۔ خدا کا شکر تھا کہ آگے راستہ صاف تھا۔ دریا یہاں سے کچھ فاصلے پر تھا۔ ویگن کسی چیز سے نہیں ٹکرائی تھی۔ دراصل ایک گہرے کھڈ کے سامنے آجانے سے صورت حال بگڑ گئی۔ سواریاں اتر گئیں۔ چند لوگ خدا کا شکر ادا کر رہے تھے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ کچھ ڈرائیور اور کنڈیکٹر کو گالیاں نکال رہے تھے کہ گاڑی کو چیک کئے بغیر ایسے ہی منہ اٹھا کر چل پڑتے ہیں کوئی جانی نقصان ہو جاتا تب۔

تھوڑی دیر بعد ایک ویگن گزری۔ ڈرائیور نے روک کر مجھے اور شفقت کو اس میں کرا دیا۔ جہاں جگہ ملی اس کے عین سامنے ایک غیر ملکی نوجوان بیٹھا تھا۔ اس کے ساتھ کراچی کی تین لڑکیاں جو مشنری جذبوں کے تحت آغا خان گرلز اکیڈمی میں استاد بن کر جا رہی تھیں بیٹھی تھیں۔

برطانیہ کا فینی بل جس کا تھیلا نقشوں معلوماتی مضامین اور چھوٹے موٹے کتابچوں سے بھر اہو اتھا۔ ویگن تھوڑا سا آگے چلی۔ پھر رک گئی۔ مسافروں کے پوچھنے پر کہ کیا ہوا؟ کنڈیکٹر اور ڈرائیور دونوں نے تسلی بخش جواب دینے کی بجائے الٹا یہ کہا۔
‘‘آپ لوگ نیچے اتر آئیں۔ یہ مشینری ہے اس میں خرابی بھی ہو سکتی ہے’’۔
‘‘اللہ ہی ہے جو آج کسی ٹھکانے لگا دے’’۔ شفقت بڑبڑائی۔

میں فینی بل سے باتیں کرنے لگی۔ کمبخت کے پاس علاقے سے متعلق بلا کا نالج تھا۔ اس نے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر کچھ چیزیں نکالیں۔ پڑھنی شروع کیں۔ ان کے نادر ہونے کا احساس ہوا۔ اس وقت میرے اندر رشک وحسد کے اژدھے نے ایسی پھنکار ماری کہ میرا جی اپنے سر کا ایک ایک بال نوچ لینے کو چاہا۔ اپنے حسابوں میں بڑے تیر مار رہی تھی۔ خود کو ہیون سانگ کی جانشین سمجھ رہی تھی۔ مجھ سے کہیں زیادہ تو یہ غیر ملکی جانتا تھا۔
میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا وہ ایک دن کے لئے مجھے یہ کتابیں دے سکتا ہے۔
اس نے انکار میں اپنا طولے جتنا سر ہلایا۔ ‘‘کسی کی ہیں واپس کرنی ہیں’’۔ میں نے پھر ملتجی انداز میں کہا وہاں سے پھر انکار ہوا۔ میں نے غصے سے کتابیں اسے واپس تھما دیں۔ ویگن کی طرف دیکھا جو ہنوز کھڑی تھی۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر اس کے آپریشن میں مصروف تھے۔ سواریاں ادھر ادھر گھوم رہی تھیں۔ شفقت ایک پتھر پر بیٹھی ہواؤں اور فضاؤں سے لطف اٹھا رہی تھی۔ کراچی کی ان لڑکیوں کے اردگرد چار پانچ مقامی لڑکے منڈلا رہے تھے
مجھ سے رہا نہیں گیا میں نے پھر فینی بل کی طرف دیکھا اور طنز سے کہا۔
شاہراہ ریشم نے سیاحوں کی مشکلات آسان کر دی ہیں۔ یقیناً میں اسے جتانا چاہتی تھی کہ وہ کوئی تیر نہیں ماررہا ہے ،کوئی انوکھا اور نرالا کام نہیں کر رہا ہے۔
‘‘ہرگز نہیں وہ بولا۔ آج کا سیاح بھی مشکل سے دوچار ہے۔ مشکلات صرف ماضی کے سیاحوں کو ہی پیش نہیں تھیں۔ سلک روٹ صرف خنجر اب تک ہے۔ لیکن برصغیر کے یہ پر ہیبت پہاڑی سلسلے جو مغربی ہمالیہ ‘قراقرم ‘ہندو کش ‘کن من اور دلائی پر مشتمل ہیں اور جو دنیا کی چھت سطح مرتفع پا میر سے جا جڑتے ہیں۔ سیاحوں کے لئے ان کا اسرار کل بھی دلچسپی کا باعث تھا اور آج بھی ہے۔ ہاں شاہراہ ریشم کی تعمیر نے اس علاقے کے عام لوگوں کی مشکلات کو آسان اور ان کی اقتصادی حالت کو بہتر بنا دیا ہے۔

زمانہ قدیم سے یہ راستہ ہندوستان اور وسط ایشیا کے درمیان رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ ہندوستان سے ہاتھی دانت بحیرہ روم کے علاقے سے شیشے اور تانبے کا سامان اور چین سے LOQUREکی تجارت ہوتی تھی۔ ریشم کی تجارت کو فروغ یہیں سے ملا اور سلک روٹ نام بھی اسی وجہ سے پڑا۔ ویگن میں بیٹھنے کی پکار پڑی تھی۔ تیزی سے بھاگے اور بیٹھے۔
میری نظریں کھڑکی سے پھسل کر باہر جا گریں۔ سامنے پہاڑوں کی چوٹیوں کے درمیان راکا پوشی مسکراتی تھی کچھ اس انداز میں جیسے مجھے خوش امدید کہتی ہو۔ اپنی اس بے تکی سی سوچ پر ہنسی کی خفیف سی پھوار سے میرے ہونٹ گیلے ہو گئے تھے۔

میرا تصور کہیں بہت پیچھے چلا گیا۔ اس زمانے میں جب ان سنگلاخ راستوں پر وسط ایشیا کے افسانوی شہروں سے لوگوں کے قافلے گزرتے ہوں گے۔ بھلا کیسے ہونگے وہ لوگ؟ ابن بطوطہ کے نقش پا بھی ان پتھروں پر کہیں ثبت ہونگے۔ مارکو پولو کو بھی اس راکا پوشی نے اسی محبوبانہ انداز میں دیکھ کر خوش آمدید کیا ہو گا جوق در جوق قافلے’ گھوڑوں اور خچروں کی گھنٹیاں ‘ پتہ نہیں اُونٹ بھی ساتھ ہونگے یا نہیں۔
ویگن نے جھٹکا کھایا تھا۔ میرا سر سامنے روڈ سے جا ٹکرایا۔ قافلے ‘ اونٹ ‘گھوڑے ‘خچر‘ صدائے جرس سب فضا میں آناً فاناً تحلیل ہو گئے تھے۔
ڈرائیونے عجلت میں سڑک کے کنارے کھڈ کا خیال نہیں کیا۔بہرحال بچ بچاؤ ہو گیا۔
‘‘خدا خیر کرے’’۔ میرے منہ سے نکلا۔ ‘‘صبح سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پتہ نہیں کس کا منہ دیکھا تھا’’۔ شفقت بولی۔

اس وقت سورج نصف النہار پر تھا۔ اب دھوپ میں تپش کم تھی۔ کبھی کبھی ہوا کے جھونکے خنکی سے لدے پھندے ہوتے۔ کبھی کبھی سیبوں اور خوبانیوں کی مہکار کا رچاؤ بھی ہوتا۔
میرا جی چاہتا تھا ساری خوشبو اپنے اندر جذب کر لوں۔
ہم ہندی کے گاؤں سے گزر رہے تھے۔ ہنزہ پائین کا آخری گاؤں جسے اب ناصر آباد کہا جاتاہے۔ ہندی قدیم تہذیب و تمدن کو اپنے اندر ابھی تک سمیٹے ہوئے ہے۔
زمرد’ یاقوت اور ہیرے کی کانیں گزر گئی تھیں۔ کام بند تھا’ پتہ نہیں کیوں؟ گزشتہ سال بھی کام نہیں ہو رہا تھا۔ میرے استفسار پر ہمارے داہنے ہاتھ بیٹھے آدمی نے کہا
کان کنی بہت مہنگی پڑتی ہے۔
عقبی نشستوں سے کسی نے یہ بھی کہا۔
‘‘ریاست اور حکومت میں معاہدہ نہیں ہو پا رہا ہے۔’’

ویگن کریم آباد جانے کے لئے اس سڑک پر تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔ جو گزشتہ سال کچی تھی۔ راکا پوشی ہوٹل کے سامنے گاڑی رکی۔ میں اور شفقت نیچے اترے۔ ہوٹل میں داخل ہوئے۔ ہوٹل کے کشادہ برآمدے کی جالیدار کھڑکیوں سے میں نے اپنے سامنے بکھرے ہنزہ کو دیکھا تھا۔ جو حسن فطرت کی مکمل تصویر بنا الوہی سکون میں ڈوبا ہوا تھا۔
‘‘میرے مولا وہ ہنگامے ‘رونقیں اور شوروغل کہاں تھے۔ جہنیں دیکھنے کے لئے میں اتنا پینڈا مارتی آئی تھی’’۔ کریم آباد میں داخل ہوتے ہی میری آنکھیں پرانے محل کی چھت کو کھوجنے لگی تھیں۔ نگاہوں نے پرانا محل تو ڈھونڈ نکالا تھا۔ پر آنکھیں اور کان جو کچھ دیکھنے اور سننے کے متمنی تھے وہ کہیں نہیں تھا۔ چھت ویران تھی۔ وہ ڈھول بجانے والے ڈھولچی سر نئی بجانے والے مرد‘ ناٹی ناچنے والی عورتیں اور رنگ برنگے کپڑے پہنے بچے اور خواتین سب کہاں تھے؟
میں شاید اس تصّورمیں تھی کہ ہنزہ میں داخل ہوتے ہی رنگ و بو کا ایک سیلاب مجھے خوش آمدید کہے گا۔

میں عجیب سے یاس کا شکار ہو گئی تھی۔ نماز سے فراغت کے بعد میں نے شیریں کی والدہ کو فون کیا۔ پتہ چلا وہ باہر گئی ہوئی ہیں۔ دوسرا فون نیک پروین کے گھر کیا۔ وہاں سے بھی کوئی جواب نہ ملا۔
میں کمرے میں آئی۔ شفقت سے کھانے کے لئے چلنے کو کہا اور جب ہم چنے کی دال گوشت اور تنوری روٹی کھا رہے تھے۔ میں بولی تھی۔
‘‘قسمت اس بار کچھ ساتھ دیتی نظر نہیں آتی۔ پہلی بسم اللہ ہی غلط ہو گئی ہے’’۔
کھانے سے فارغ ہو کر باہر آئے۔ ایک خاصے خوش شکل و خوش پوش لڑکے سے تھمو شلنگ کے تہوار کے بارے میں پوچھا۔ پہلے تو وہ ہونقوں کی طرح ہمیں گھورتا رہا۔ پھر جب اسے کچھ سمجھ آئی تو ‘‘اوہو’’ کہتے ہوئے ا س نے سر جھٹکا اور کہا۔
‘‘آپ تو غلط بول رہی ہیں’’۔
صحیح تلفظ بتانے کے بعد اس نے مزید حیرت کا اظہار کیا۔
تو پھر اکیس جون کو ہنزہ کے لوگ کیا مناتے ہیں؟ میں جز بز ہو رہی تھی۔ ‘‘آپ غالباً گنونی کی بات کرتی ہیں’’۔
وہ ہنسا اور پھر بولا
‘‘بھئی لوگ ایڈوانس ہوتے جا رہے ہیں۔ ان تہواروں کے لئے وقت نہیں رہا ان کے پاس۔ ہنزہ کے بعض حصوں میں یہ رسم ابھی بھی اہتمام سے منائی جاتی ہے۔ مگر ہنزہ خاص میں گنونی کے لئے زیادہ تردد نہیں کیا جاتا۔ تھوڑا بہت ہنگامہ ہو جاتاہے۔ اگر آپ میرے دادا سے ملیں تو وہ بتائیں گے کہ ان کے زمانے میں یہ تہوار کس شان و شوکت سے منایا جاتا تھا۔ وہ اکثر دکھ بھرے لہجے میں کہتے ہیں کہ دنیا بہت بدل گئی ہے۔ جینے کا وہ مزہ نہیں رہا۔ جسے دیکھو نیچے کی طرف بھاگ رہا ہے۔
‘‘ارے چھوڑئیے آپ کس چکر میں پڑ گئی ہیں؟ اس سال تو یوں بھی فصل کی کٹائی دیر سے ہو گی۔ بوائی موسم کی شدت کی وجہ سے جلدی نہ ہو سکی تھی’’۔

ہم اس وقت ہماچی نامی چھوٹی سی نہر کے کنارے کھڑے تھے جس کے نیچے گنیش کا گاؤں آباد ہے۔ ہوا کے جھونکے ‘نہر کا بہتا پانی اور ہمارے پاس کھڑا وہ شوخ و شنگ نوجوان جو ہونٹوں اور ہاتھوں کے مختلف زوایے بناتا ہوا مجھے کہہ رہا تھا۔ ‘‘ارے آپ کس چکر میں پڑ گئی ہیں’’؟
میرا جی چاہا ایک جھانپڑ دوں اُسے۔ سارے پروگرام کا ستیاناس ہو گیا تھا۔ بہترین کیمرہ اور فالتو فلمیں لے کر چلی تھی۔ ایک ایک مرحلے کی تصویر کشی کا پروگرام تھا۔
میں ایک پتھر پر بیٹھ گئی تھی۔
نوجوان کو دیکھتے ہوئے میں نے کہا۔
‘‘بیٹھو نا۔ پڑھے لکھے لگتے ہو۔ کچھ ہنزہ کے بارے میں بتاؤ۔’’
دفعتاً مجھے یوں محسوس ہوا۔ جیسے میں نے بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا ہو۔ شفقت نے زمین پر داہنا پاؤں مارا ۔غصے سے اس کی ناک کے نتھنے پھڑکنے لگے تھے اور چہرہ تپے تنور کی دیواروں جیسا ہو رہا تھا۔ اور جب وہ بولی تھی۔ اس کی آواز میں جنگلی بلی جیسی غراہٹ تھی۔
‘‘بھاڑ میں جائے تمہاری تاریخ دانی اور جہنم میں جائے تمہارا لکھنا۔ جہاں بیٹھتی ہو پٹارہ کھول لیتی ہو۔ یہ نہیں کہ ذرا بازار دیکھیں۔ دوکانوں کا جائزہ لیں۔ چین سرہانے بیٹھا ہے۔ چینی سلک اور چینی کراکری بھلا یہاں سے زیادہ کہاں سستی ہو گی؟ کمبخت میں کوئی تمہارے جیسی ملنگنی ہوں۔ سمن آباد گرلز کالج کی لیکچرار ہوں۔ جہاں ایک سے ایک بڑھیا کپڑے کی نمائش ہر روز ہوتی ہے۔
ہماری لڑائی بھی نچلے درجے کے سیلاب کی مانند ہے جو نقصان سے زیادہ ہلچل مچانا اور شور شرابا کرنا زیادہ پسند کرتاہے۔
میں ابھی جوابی حملے کا سوچ ہی رہی تھی کہ وہ نوجوان لڑکا جس کا نام سرفراز تھا اور جو پنجاب یونیورسٹی میں بی فارمیسی کا طالب علم تھا بولا
‘‘آنٹی آپ لوگ تو بڑی لڑاکا ہیں۔’’
‘‘یا اللہ ابھی تو اس نے میرا چیخنا ‘چنگھاڑنا نہیں دیکھاسُنا۔دیکھ سُن لیتاتو جانے کیا کہتا’’؟
تاہم میں نے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
‘‘بیٹھو اور ہمیں ہنزہ کا چہرہ دکھاؤ۔’’
‘‘لیجئے کیا پدّی اور کیا پدّی کا شوربہ۔ میں تو ابھی تک اپنے چہر ے کے مزاج اور ہیت کو نہیں سمجھ پایا۔ کبھی اس پر نکھار ہوتا ہے۔ کبھی ویرانی’ کبھی کیل مہاسے ڈیرے ڈال لیتے ہیں اور کبھی چھائیاں جلوہ افروز ہو جاتی ہیں اور آپ بات ہنزہ کی کر رہی ہیں۔
کیا سر پھرا لڑکا تھا۔ بات سے بات نکالتا تھا۔
‘‘ہمارے گھر چلیے۔ میرے دادا سے ملیں۔ وہ اردو بھی جانتے ہیں اور ہنزہ سے بھی ان کی دیرینہ آشنائی ہے’’۔
اس کی پیشکش میر ے لئے بہت پُرکشش تھی۔
میں نے شفقت کی کھڑی ناک کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے۔
‘‘سوانی جی معاف کر دیں۔ آج کی شام میرے نام۔ کل کا دن آپ کے لئے’’۔
سرفراز کا گھر کریم آباد میں تھا۔ ہنزہ کا ایک روایتی گھر۔ چھوٹے چھوٹے کمروں اور راہداریوں سے گزر کر ہم وسطی کمرے میں پہنچے۔ گھر کی عورتیں ہمارے گرد اکٹھی ہو گئی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے منہ اٹھائے ہماری صورتیں دیکھتے تھے۔ سرفراز کا دادا دیوار سے پشت ٹکائے بیٹھا تھا۔
یا اللہ۔ میں نے اپنے دل میں کہا۔
یہ کیسا بوڑھا ہے۔ بانکا سجیلا۔ گلابی پھول جیسی رنگت والا ملائم چہرہ جس پر نہ جھریاں تھیں نہ سلوٹیں بس ٹھوڑی کے پاس ایک جگہ چند لکیریوں کی گرہیں سی لگی ہوئی تھیں۔ آنکھیں اتنی شفاف اور چمکدار جیسے کانچ کی نئی نکور نیلی گولیاں ابھی ابھی ان میں فٹ کی گئی ہوں۔ نقش ایسے کٹیلے اور تیکھے تھے کہ وہ روایت سو فیصد دل کو لگتی تھی کہ ہنزہ کلچر یونانی و ایرانی اور کشمیری تہذیبوں کی آمیزش سے وجود میں آیا ہے‘ کیونکہ سکندر اعظم کی طوفانی فتوحات کے دوران اس کا ایک سپہ سالار اور تین سپاہی بیماری کی وجہ سے ہنزہ میں رہ گئے تھے اور ان کے ساتھ ان کی ایرانی بیویاں تھیں۔
سرفراز نے تعارف کروایا اور ہمارے متعلق بتایا۔
انہوں نے نشست سیدھی کی۔ ہمیں بغور دیکھا اور پھر سر نیہوڑ کر گویا مراقبے میں چلے گئے۔ چند لمحوں بعد ہاتھوں کو سر کی جانب لہرایا اور بولے۔
ارے وہ سب باتیں خواب ہوئیں ‘خیال ہوئیں۔
‘‘چلو چھٹی ہوئی’’۔ میرا اضطراب قابل دیدنی تھی۔
دفعتاً انہوں نے سر اٹھا کر مجھ سے پوچھا
‘‘پنجاب کے لوگ بیساکھی کا تہوار مناتے ہیں۔ دیکھا ہے کبھی اسے’’
مجھے بھی شرارت سوجھی۔ جلی ہوئی تو بیٹھی تھی۔ اسی لئے دائیں ہاتھ کو لہرا کر بولی۔
‘‘ارے کہاں؟ وہ سب باتیں خواب ہوئیں ‘خیال ہوئیں۔ بیلوں کا زمانہ لد گیا۔ تھریشر اور ہارویسٹرآگئے۔ دنوں کا کام گھنٹوں اور گھنٹوں کا لمحوں میں ہونے لگا۔ دو دن میں اناج سمیٹ کر کوٹھے بھر لئیے جاتے ہیں۔ کہاں وقت رہا لوگوں کے پاس بیساکھیاں منانے کا ۔
اب ان کی آنکھیں ناچیں۔ آنکھوں کے ساتھ ساتھ انگشت شہادت ناچی اور وہ بولے۔
‘‘شاہرا قراقرم نے ان دور افتادہ حصوں کی معاشی اور معاشرتی زندگی پر بہت اثرات ڈالے ہیں۔ آہ وہ بھی کیا دن تھے؟ سہولتیں اور آرام تو میسر نہ تھے۔ تاہم محبت اور خلوص کی حد درجہ فراوانی تھی۔ ایک دوسرے کا لحاظ اور پاسداری تھی۔ آج جیسی افراتفری نہیں تھی’’۔
‘‘ہمیں تو کہیں افراتفری نظر نہیں آئی؟ چاروں اور الوہی سکون اور سناٹا پھیلا ہوا ہے’’۔
‘‘اس لئے کہ تم اس سے کہیں بڑے افراتفری والے علاقے سے آئی ہو’’۔
اب میں لاکھ انکار کرتی پر بات کتنی سچی تھی؟
انہوں نے اپنے جواب کی تائید میں خود اپنا سر ہلا کر میری طرف دیکھا تھا۔ چند لمحے توقف کے بعد انہوں نے کہنا شروع کیا۔

بھئی ہم غریب سے لوگ تھے۔ چھوٹی چھوٹی ہماری خوشیاں تھیں۔ گندم اور جو کی فصل پکنے پر آتی۔ خوشوں میں دانے پڑتے اور بالیاں پیلی ہوتیں تو ہلاّ غلاّ کرنے کو جی چاہتا۔ ایسے میں میریاتھم اپنے وزیر اور درباریوں سے مشورے کے بعد اوکھنڈسے گنونی کے لئے موزوں دن بتانے کے لئے کہنا۔ اوکھنڈ کتاب کھولتا۔ حساب جوڑتا اور مبارک دن کا اعلان کر دیتا۔
تب اس پرانے محل کی چھت پر موسیقار بیٹھ جاتے اور گنونی کی دھنیں بجاتے۔
سچ بتاؤں وہ پھر رکے ہماری طرف دیکھا۔
جونہی موسیقاروں کے سازوں کی آواز کانوں میں پڑتی۔ دل میں جلترنگ سے بجنے لگتے اور بچے بوڑھے عورتیں مرد سبھی کلکاریاں مارتے گھروں سے باہر نکل آتے۔ تالیاں بجاتے اور رقص کرتے۔ پورا علاقہ جوش و خروش سے بھر جاتا۔ گھر صاف کئے جاتے۔ نئے کپڑے سلتے اور اچھے اچھے کھانے پکتے۔
پھر وہ خاص دن آتا۔ اس خاص دن موسیقار چوبیس گھنٹے ساز بجاتے۔ میر اپنی ریاست کے سرکردہ لوگوں کے ساتھ کھیتوں میں جاتا۔ بسم اللہ کہہ کر خوشوں کو توڑنے چند خوشوں کو گھر کے ستون سے باندھنے اور چند کو بھون کر لسی یا دودھ میں ملا کر کھانے کے مناظر اتنے دلفریب ہوتے تھے کہ آج بھی اس تصور سے میرا انگ انگ سرشار ہو ہو جاتا ہے۔
اگلے دن پولو کے میچ ہوتے۔ پولو کھیلنا ہماری زندگی کی سب سے پرمسرت تفریح ہے۔ پولو کے بعد میر اپنے درباریوں کے ساتھ اپنے بالائی باغات میں کرسی پر بیٹھ کر اس روٹی اور برس کو کھاتا جو ہنزہ کے لوگ اپنے میر کے لئے ہنزہ کے سرکردہ لوگوں کے گھروں سے لاتے۔

رسم گنونی کی تفصیل میرے گوش گزار ہو چکی تھی۔ چائے بھی پی بیٹھی تھی۔ اور اس میں ڈالے گئے نمک کا ذائقہ ابھی تک میری زبان پر تیرتا پھر رہا تھا اور بار بار مجھے یہ باور کروانے کی کوشش میں تھا کہ ہنزہ اب قلت نمک کے بحران سے باہر نکل آیا ہے اور اس معدنی صنعت میں اس حد تک خود کفیل ہو گیا ہے کہ مہمانوں سے محبت کے اظہار میں انہیں زیادتی کا احساس نہیں ہوتا۔
‘‘گلمت چلے جائیں وہاں یقینا گنونی دیکھ سکیں گی۔’’
بانکے سجیلے بوڑھے نے مشورہ دیا۔
میں نے نقشہ نکالا۔ گلمت پر نظریں دوڑائیں۔ فاصلے کا میلوں میں تعین کیا اور دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
‘‘گلمت ہنزہ بالا میں ہے۔آٹھ ساڑھے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر۔ یہاں ابھی کسی نے ایک بالی نہیں کاٹی تو وہاں کا کیا سوال؟ گنونی کی تقریب دیکھنے کے لئے اب میں ہنزہ میں تو ڈیرے ڈالنے سے رہی۔
‘‘اچھی لکھاری ہو۔ بوڑھے نے طنزاً کہا۔
ہتھیلی پر سرسوں جماتی ہو۔ مشاہدے میں تجربے کی آمیزش نہیں کرو گی تو پُھس پھُسی ہو جاؤ گی۔ مہینوں رہو یہاں۔
‘‘گھر اور گھر والے کو طلاق دے دوں’’۔
میں جزبز ہو رہی تھی۔
‘‘دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے والا عام طور پر ڈوب جاتا ہے’’۔
بڑی کڑواہٹ تھی اس جملے میں۔ ایک تو میں پہلے ہی بجھی بجھی سی تھی۔ اوپر سے یہ دل فگار قسم کی باتیں۔ میرا جی اپنے آپ کا تیا پانچہ کر دینے کو چاہا۔
میں باہر آگئی تھی۔ سیبوں اور خوبانیوں کے پیڑوں پر سے تیرتی ہوا میرے چہرے سے ٹکرائی تھی۔ خوشگوار ٹھنڈی ہوا’ شام ہو رہی تھی اور وسطی ہنزہ جیسے پگھلے سونے کا روپ دھارے ہوئے تھا۔
اس وقت میرا اندر مجھے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔ کہ اس بوڑھے کی باتوں میں سچ کا زہر ہے۔ یقینا میرے اطوار میں اضطراب کی جھلک تھی۔ تبھی وہ جہاندیدہ وجود آہستہ آہستہ میرے پیچھے آیا۔ شفقت عورتوں سے گلے مل رہی تھی اور غالباً میری ناکامی پر خوش بھی تھی۔

میرے عین سامنے بربر کی نہر تھی۔ بربر اور ڈالد ہنزہ کی دو معروف نہریں جو فن تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہیں۔ ۶۲ میل کے رقبے کو سیراب کرتی یہ نہریں کریم آباد سے گزر کر علی آباد اور حیدر آباد کو جاتی ہیں۔ سایہ دار درختوں کے دامنوں میں قدیم اور جدید طرز کے گھر ہیں۔

میرا جی بربر کا ٹھنڈا پانی پینے اور اپنے اندر کی آگ بجھانے کو چاہ رہا تھا۔ پر وہ خوبصورت چہرے والا بوڑھا عین میرے سامنے کھڑا اپنی خاموش زبان پر بولتی آنکھوں سے کہہ رہا تھا
‘‘سچ بڑا کڑوا ہوتا ہے نا۔’’
اس کی آنکھیں نہ بھی بولتیں تب بھی میرا اندر بول رہا تھا کہ واقعتاً وہ سچ کہہ رہا ہے۔

ہم ایک دوسرے کے آگے پیچھے چلتے رہے۔ سیبوں کی خوشبو سے لدی پھندی ہوائیں پھانکتے رہے۔ لوگوں کو دیکھتے اور حسن فطرت سے آنکھوں کو سینکتے کریم آباد کی بلندی سے نیچے شاہراہ ریشم پر درختوں سے گھرے گنش کے قدیم گاؤں میں آگئے۔
سرفراز کا دادا ابھی تک ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ یہاں سے وہ جدا ہوا۔ پر جدا ہونے سے پہلے اس نے ایک خوبصورت سی پیشکش کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

‘‘اگر آپ لوگ رات کو ہمارے یہاں آئیں تو میں آپ کو بہت دلچسپ کہانی سناؤں گا جس کا ہماری ثقافت سے گہرا تعلق ہے۔ تالینی یا تھمو شلنگ کا تہوار اسی واقعے کی یاد میں منایا جاتا ہے’’۔
‘‘ضرور’ ضرور’’ میں خوش ہو گئی۔
گھومتے پھرتے دفعتاً میں نے شفقت سے کہا۔
‘‘گلمت نہ چلیں’’۔
یقیناً کوئی شبھ گھڑی تھی۔ شفقت خوشدلی سے بولی۔
‘‘ہاں چلتے ہیں’’۔
میں نے سکھ کا لمبا سانس بھرا۔ اپنے اندر توانائی محسوس کی۔ ایک چھوٹے سے ریستوران سے چائے کا ایک ایک کپ پیا۔ نمکین بسکٹ کھائے۔ یادگار پر لکھے سارے نام پڑھے۔
سوزوکی والے سے بات کی روانگی کا وقت پوچھا اور جب سورج پہاڑوں کی اوٹ میں جا رہا تھا ہم اپنے ہوٹل میں آنے کے لئے چڑھائی چڑھ رہے تھے۔
مغرب کی نماز کے بعد میں نے رانی آف ہنزہ کو فون کیا۔ میں ان سے ملنا چاہتی تھی۔ پر اس شب وہ مصروف تھیں اور اگلا دن میرا گلمت کے لئے بک تھا۔ بات تیسرے دن پر جا پڑی تھی۔
رات کا کھانا ہم نے جلد کھا لیا۔ نماز بھی پڑھ لی۔ اس وقت ہنزہ تاریک تھا۔ بتی نہیں تھی۔ چادریں ہم نے کندھوں پر ڈالیں اور ایک دوسری کے آگے پیچھے چلنے لگیں۔ جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply