اور میں نم دیدہ نم دیدہ (13)-ابوبکر قدوسی

سعودی حکومت نے حرم کی توسیع میں جس قدر ذوق اور شوق کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ یہ توسیع شوق سے زیادہ ضرورت بن گئی تھی ۔ موجودہ سعودی خاندان کے سریر آئے اقتدار ہونے سے پہلے حجاج کرام اور زائرین حرم جب اپنے علاقوں سے حرم کی زیارت کے واسطے نکلتے تو اپنے اہل خاندان سے اہتمام سے یوں ملاقاتیں کر کے آتے کہ
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
سبب اس کا میں اپنے سفرنامے کے شروع میں بھی لکھ چکا کہ جدہ کی بندرگاہ سے اور دیگر خشکی کے راستوں سے جو قافلے حرم کو آتے تھے وہ عموماً بدوؤں کے ہاتھوں لٹ جاتے ۔ مال سے بھی جاتے اور جان سے بھی جاتے ۔
اب جو یہ ” مومن مبتلا ” سعودی خاندان برسر اقتدار آیا تو انہوں نے انہی ڈاکوؤں کو حاجیوں کا خادم بنا دیا۔ وہ جو پہلے مال لوٹتے تھے اور جان سے مارتے تھے ، اب اپنے حسن اخلاق سے دل اور جان لے جاتے ہیں۔ہر وقت لاکھوں افراد اور کبھی کبھی ملینز” کی تعداد میں حاجی ایک محدود جگہ پر جمع ہوتے ہیں اور یہ عرب میزبان بنا تلخ ہوئے ان کو منظم اور مرتب کرتے ہیں ، راہ دکھلاتے ہیں اور بہت سے حاجی جو بے ضابطگی کر رہے ہوتے ہیں ان کو نرمی سے ضابطوں کے پابند کرتے ہیں ۔ بارہا میں نے دیکھا کہ وہ راستوں پر صفیں بنانے سے منع کرتے ہیں لیکن حاجی باز نہیں آتے ۔ ایک روز تو ایسا منظر بھی دیکھا کہ سپاہی ان کو منع کر رہا تھا اور وہ بضد تھے کہ” ہم نے یہیں نماز پڑھنی ہے” آخرش سپاہی ہار گیا اور حاجی جیت گئے اور انہوں نے زبردستی وہاں صف بچھا لی۔۔۔
سعودیوں کو مومن ” مبتلاء” میں نے اس واسطے لکھا کہ چہار سو سے عموماً تنقید کا نشانہ بنتے ہیں
ہماری موجودہ نسل اور اس سے پچھلی نسل اس قتل و غارت سے آگاہ ہی نہیں ہے جس کا ذکر اب محض کتابوں میں ملتا ہے اور سعودی حکومت کے سبب یہ حرم جائے امن ہوئی ہے ۔
اب جب حاجیوں کو قرار آیا ، جان و مال کی امان پائی تو پھر برسوں کی پیاس بجھانے جوق در جوق نکلے ۔ ہر روز ، ہر ماہ اور ہر برس یہ قافلہ ہائے شوق بڑھے ہی چلے آ رہے تھے ، سو ضروری تھا کہ حرم میں توسیع بھی کی جائے اور ساتھ ساتھ حجاج کے لیے سہولیات بھی میسر کی جائیں ۔
اب سعودیوں نے کمال یہ کیا کہ اس ضرورت کو اپنا شوق بھی بنا لیا ۔حرم کی سعودی توسیع کا آغاز مملکتِ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز آل سعود کے زمانے سے ہوا تھا۔ یہ سعودی دور حکومت میں توسیع کا پہلا مرحلہ تھا جو شاہ فیصل کے دور تک چلا اور مکمل ہوا ۔
پھر دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے کہ جو شاہ خالد کے دور میں مشرقی صحنوں کی توسیع سے شروع ہوا اور، شاہ فہد کے دور میں مغربی جانب کی توسیع تک چلا اور شاہ عبداللہ کے دور میں مَسعَی (سعی کرنے کی جگہ) کی توسیع نمایاں ترین ہیں اور ساتھ ساتھ سعی کے بالمقابل نئی عمارات کی تعمیر نے تو کمال کر دیا ہے ۔ یوں شاہ عبدالعزیز کے دور سے شروع ہوئی یہ توسیع مسلسل ہو رہی ہے ، دعا ہے کہ حرم یوں ہی آباد رہے ۔
تیرا پہلو تیرے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی
اس توسیع میں دو پہلو مد نظر رکھے گئے ہیں ایک یہ کہ شاہان سعودیہ نے کمال محبت سے اپنے شوق پورے کیے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے حجاج کرام اور عام زائرین کی سہولت کو خاص طور پر پیش نگاہ رکھا ہے ۔ ملک فہد کی جو تعمیرات ہیں اس میں ایک خاص طرح کی سادگی کی اور وقار پایا جاتا ہے ۔ جبکہ شاہ عبداللہ کی جو موجودہ توسیعات ہیں اس میں خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ایک بانک پن نظر آتا ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ پر حسنِ تعمیر کا نمونہ ہے لیکن ہر دو اپنی مقام پر دل کو موہ لیتی ہیں ۔
باب ملک فہد سے جب آپ حرم میں داخل ہوتے ہیں اور صحن حرم تک پہنچتے ہیں تو یہ سارا علاقہ آج سے قریباً بیس برس پہلے تعمیر کیا گیا تھا اور آج بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بالکل نیا ہو ۔ صفائی ستھرائی کا جو خیال رکھا جاتا ہے وہ اس پر مستزاد ہے ۔ اور جو تعمیرات کا حسن ہے اس کے تو کیا ہی کہنے ۔ مکہ شہر کے باہر سے آتی ہوئی ٹھنڈی ہوائیں سارے ماحول کو پرسکون کر دیتی ہیں ۔ مکہ شہر سے کے باہر سے اتی ہوائیں اس سے میری مراد یہ ہے کہ شاہ فہد کے دور میں بیت اللہ میں جو ایئر کنڈیشننگ سسٹم نصب ہوا اس کا پلاٹ شہر سے باہر لگایا گیا ہے اور وہاں سے سرنگوں اور پائپوں کے ذریعے ٹھنڈی ہوا آتی ہے ۔یہ منصوبہ فن تعمیر کا ایک عجوبہ ہے ۔ ہوتا یہ ہے کہ حرم کی توسیع ، تعمیر اور زائرین کی سہولت واسطے بیسیوں دماغ ہر وقت منصوبہ بندی میں مصروف رہتے ہیں ۔ سعودیوں کو اللہ نے مال بھی دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خرچ کرنے کا حوصلہ بھی ، یقیناً جب اتنے وسیع و عریض حرم کو ایئر کنڈیشن کرنے کا فیصلہ ہوا ہوگا تو اس میں ہی یہ بات زیر بحث آئی ہوگی کہ پلانٹ کا شور شہر میں کون برداشت کرے گا ۔ کیونکہ ہزاروں لاکھوں مربع میٹر پر تعمیر یہ حرم اتنا وسیع ہے کہ اس کے لیے ایئر کنڈیشننگ پلانٹ بھی خاصا بڑا اور وسیع حجم کا ہی ہوگا ۔ تب ہی ان دماغوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کو شہر سے باہر تعمیر کیا جائے ۔ انہوں نے یہ سوچا اور کر دکھایا ۔ آپ حرم کی توسیع کی ڈاکومنٹریز دیکھیں تو اس میں جا بجا ایسے تصورات اور پھر ان پر عمل کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ” ہم نے یوں سوچا اور اس میں یہ مشکل تھی ، پھر ہم نے اس مشکل کا حل سوچ کر یہ کر دکھایا۔۔۔”
ایک روز میں فجر کی نماز پڑھ کے باب ملک فہد کی پہلی منزل پر تھا ۔ ستون کے زیریں حصے میں پیتل کی بنی جالی کے بیچ میں سے ٹھنڈی ہوائیں آ رہی تھیں ، ایسی ٹھنڈی ہوا کہ دل سے دعا نکلی ” اللہ ملک فہد کی قبر میں بھی یوں ہی جنت سے کھڑکی کھول دے اور ٹھنڈی ہوائیں آتی رہے ”
تیسرے دن ظہر کی نماز کے بعد میں مرحوم شاہ عبداللہ کی توسیع کو دیکھنے چل دیا ۔ اس کا ایک حصہ صفا کی جانب سابق سعودی فرمانروا شاہ فہد کے دور میں کی گئی توسیع تک دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے ۔
اور دوسرا حصہ دارالتوحید ہوٹل سے آگے باب عمرہ کے پہلو تک کی نئی عمارات کی تعمیر ہے ۔
اس مرحلے کی تکمیل کے بعد مسجد حرام میں مزید 28167 مربع میٹر کی توسیع ہو گئی ہے ، جو کل توسیع کا ستر فیصد ہے ۔ یہ نئی عمارت انسان کو مبہوت کر دیتی ہے ۔ اس میں ذوق اور شوق دونوں اپنے کمال کو چھوتے دکھائی دیتے ہیں ۔اس کی چھت پر بنے نقش و نگار آپ کو مغلوں کے ذوق تعمیر کی دنیا میں لے جاتے ہیں لیکن ان میں جدت ایک اضافی خوبی ہے۔
میں نے اپنے موبائل کے کیمرے سے اس کی کتنی ہی تصاویر اتاریں جو آپ پوسٹ کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ آپ کچھ کچھ میری فوٹوگرافی کی صلاحیتوں کے معترف ہو جائیں گے۔

موجود بادشاہ شاہ سلمان کے دور میں سعودی پالیسی میں ایک بڑا بدلاؤ آیا ہے ۔ اور سعودی عرب بلاشبہ ایک نئے دور میں داخل ہوا ہے ۔ اس میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں اور ساتھ خرابیاں بھی ۔ بہت سے پہلو ایسے ہیں کہ جو قابل تعریف ہیں لیکن جدت طرازی کی اس دوڑ میں بہت سے پہلو ایسے ہیں کہ جو پسند نہیں کیے جا رہے اور اپنے اندر بہت کچھ مضمرات لیے ہوئے ہیں ۔
حرم کے حوالے سے شاہ سلمان کے منصوبے بنیادی طور پر ان کے نام ضرور لگیں گے لیکن دراصل اس کے پیچھے ان کے بیٹے اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دماغ نہیں یا ویژن کار فرما ہے ۔ ماضی میں جو لوگ عمرہ کرنے آتے تھے وہ تین شہروں تک محدود ہوتے تھے ۔ان کو مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ جانے کی اجازت ہوتی تھی اور اس اجازت میں تیسرا شہر جدہ ان کو سیر و سیاحت کے لیے مل جاتا تھا ۔ کیونکہ آمد و رفت کے لیے ایئرپورٹ اسی شہر میں ہے ۔ محمد بن سلمان نے عمرہ کے زائرین کے لیے ویزے کی مدت بڑھا کر تین مہینہ کر دی اور ایک انقلابی فیصلہ یہ کیا کہ اب عمرے کے ویزے پر لوگ پوری مملکت میں سیر و سیاحت کے لیے جا سکتے ہیں ۔ یقیناً یہ فیصلہ ملک میں سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کے پیش نظر کیا گیا ہے جو سعودی عرب کی معیشت کو مضبوط کرنے کی ایک شاندار کوشش ہے ۔ سعودی حکومت سال 2030ء تک عمرے کے لیے مسجد حرام آنے والے افراد کی گنجائش کو سالانہ 3 کروڑ تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ تعداد وژن 2030 پروگرام کے اہداف کا حصّہ ہے۔اس پالیسی کے اثرات مجھے اپنے اس سفر میں جا بجا محسوس ہوتے رہے زائرین کی کثرت اور ہجوم صاف بتا رہا تھا کہ سعودی حکومت چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ عمرے کے لیے آئیں اور ملک میں زر مبادلہ آئے۔ بظاہر اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں یہ ان کا حق ہے ، کیونکہ جس طرح وہ حاجیوں کے لیے سہولیات فراہم کرتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں اس کے بعد اگر اس سے یہ ان کے ملک کو فائدہ پہنچتا ہے تو یہ اس مملکت کا حق بنتا ہے۔ شاید اسی پالیسی کے نتیجے میں نے یہ محسوس کیا کہ حرم میں تعینات سعودی پولیس اور دیگر شعبوں کے افراد کا رویہ حاجیوں سے بہت نرم ہوتا ہے ، ماضی میں ان کا رویہ برا نہ ہوتا تھا لیکن اب تو خاصا بہتر ہے ، گمان ہے کہ ایسا کرنے کے لیے ان کی الگ سے ٹریننگ کی گئی ہو گی ۔
محمد بن سلمان کے اس ہدف یعنی تین کروڑ سالانہ حاجیوں کی آمد کو یقینی بنانے کے لیے مسجد حرام کی تیسری توسیع پر کام جاری ہے۔ اس توسیع کا افتتاح سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے

2015ء میں کیا تھا۔ حرمِ مکّی کی توسیع کے منصوبے پر کم از کم 100 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ اس میں انفرااسٹرکچر اور پراپرٹی خریدنے کے اخراجات شامل ہیں۔ مذکورہ توسیع پانچ بنیادی منصوبوں پر مشتمل ہے۔ ان میں توسیع کی مرکزی عمارت، صحن کا منصوبہ، پیدل چلنے والوں کی سرنگوں کا منصوبہ، حرم شریف کے لیے مرکزی خدمات کے اسٹیشن کا منصوبہ اور مسجد حرام کے اطراف پہلی رِنگ روڈ شامل ہے۔ سعودی نئی تعمیرات کرنے میں خاصے بہادر ہیں سو اس مقصد کے حصول کے لیے پرانی عالی شان امارات کو گرا دینا بھی ان کے لیے ایک آسان سا فیصلہ ہوتا ہے ۔ یہ بات البتہ قابل تحسین ہے کہ جب وہ توسیع کے کسی مرحلے کے لیے کسی عمارت کو گرانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس کے مالک کو اتنا سرمایہ دیتے ہیں کہ اس کو اس عمارت کے گرنے کا کوئی افسوس نہیں ہوتا ۔اب نہیں معلوم کہ بیت اللہ کے اطراف میں رنگ روڈ کی زد میں کیا کیا آتا ہے ۔ لیکن اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ بہت بڑا منصوبہ ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ یہ حسن تعمیر کا بھی ایک کارنامہ ہوگا کیونکہ مکہ کی زمین ہموار نہیں ، بلکہ مکمل پہاڑی علاقہ ہے ۔
نئی توسیع کے دوران مسجد حرام کے سابقہ رقبے کے مقابلے میں دو تہائی رقبے کا اضافہ کیا جائے گا۔ اس طرح حرم مکّی کا مجموعی رقبہ 15 لاکھ مربع میٹر کے قریب ہو جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply