• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • آخری اسٹیشن(بہاول پور تا امروکہ تک پھیلی بربادی کی ایک داستان/قسط 2،آخری حصّہ)-ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

آخری اسٹیشن(بہاول پور تا امروکہ تک پھیلی بربادی کی ایک داستان/قسط 2،آخری حصّہ)-ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

3 ستمبر 1947,امروکا  اسٹیشن
سطح سمندر سے بلندی 572 فٹ

رات کے ڈھائی بجنے کو تھے اور غلام محمد کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ امروکا ریلوے اسٹیشن کا یہ بوڑھا اسٹیشن ماسٹر اس وقت تک سو جاتا تھا لیکن آج اس کی آنکھوں کو کسی کا انتظار تھا۔ آنے والا بہت خاص تھا۔
تھوڑی ہی دیر بعد دور سے ایک روشنی دکھائی دی اور غلام محمد کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔
دہلی سے کراچی جانے والی ٹرین امروکا پہنچنے والی تھی۔ یہ کوئی عام مسافر ٹرین نہ  تھی، بلکہ ہندوستان سے نئی بننے والی مملکت پاکستان کے حصے کا دفتری سامان، اسلحہ و دیگر خزانہ لے کر آ نے  والی وہ خاص ٹرین تھی جس کا اسے تین دن سے انتظار تھا۔
حالانکہ امروکا میں اس ٹرین کا سٹاپ پندرہ منٹ کا تھا لیکن اس جانب پاکستان کا پہلا اسٹیشن ہونے کے ناطے غلام محمد اسے کچھ دیر اور روک سکتا تھا۔
ٹرین کے رکتے ہی اس نے انجن کے سامنے نئی مملکت کا پرچم لگا دیا اور اسے سلامی دی۔ ڈرائیور سمیت سکیورٹی کے عملے کو وہ اپنے کمرے میں لے آیا۔ اس کی بیوی جو کب سے کھانا پکائے انتظار میں تھی، تمام عملے کا کھانا لے کر آئی اور دسترخوان پہ چُن دیا۔
مہمان نوازی کے اصولوں سے واقف امروکا کا یہ بوڑھا اسٹیشن ماسٹر، پاکستان کے حصے کا مال بحفاظت لے کر جانے والوں کو بغیر کھانا کھلائے کیسے جانے دیتا۔
طعام کے بعد عملے نے غلام محمد کا شکریہ ادا کیا اور قریباً پینتالیس منٹ بعد ٹرین چل پڑی۔
پلیٹ فارم کے کنارے پر ہلکی سی ملگجی روشنی والا لالٹین اٹھائے غلام محمد اس ڈرائیور کو ہمیشہ یاد رہنے والا تھا جو اب جاتی ٹرین کو ہاتھ ہلا رہا تھا۔

نومبر 2023
آہ
1893 میں بننے والا غلام محمد کا امروکا اسٹیشن 
مسافر مغرب سے چند منٹ پہلے جب اِس اسٹیشن پہ اترا تو ہاتھ میں جھنڈا لیے پاگلوں کی طرح اُس ٹرین کے نشان تلاش کرتا یہاں وہاں بھٹکنے لگا۔ مگر نہ  تو غلام محمد نظر آیا نہ  اس کی  لالٹین اور نہ  ہی وہ ٹرین جس پہ جھنڈا لگانے کی خواہش مسافر دل میں دبائے یہاں تک پہنچا تھا۔ اور اس ٹرین کے بعد تو نجانے کتنی ریل گاڑیاں آئیں اور اس کے نشان مٹا کے یہاں سے گزر گئیں۔ امروکے میں اب کچھ نہیں سوائے ایک بوڑھی عمارت، دو پٹڑیوں، چند بورڈز اور ریل کے کانٹوں کے۔
البتہ کچھ دور ایک بلند ٹاور ضرور ملتا ہے جو اس علاقے میں فوجی راج کا گواہ ہے۔
پاکستان کے انچ انچ سے شدید محبت کرنے والا یہ مسافر ایک آخری بار ہندوستانی سرحد کے پاس پہلے یا آخری اسٹیشن کو دیکھتا ہے، اور دوبارہ آباد ہونے کی دعا دے کر رخ موڑ لیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہندوستان کے شمال مغربی حصوں میں چلنے والے ریل کے نظام کو ”شمال مغربی ریلوے” کا نام دیا گیا تھا جو قیامِ پاکستان کے بعد 1961 تک مستعمل رہا۔ 1961 سے مئی 1974 تک یہ ”مغربی پاکستان ریلوے” کہلاتا رہا اور بالآخر پاکستان ریلوے بنا جو اب تک چلتا آ رہا ہے۔

ایک دور تھا جب اس ریلوے نیٹ ورک کو ملک کے ذرائع نقل و حمل میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت حاصل تھی، کروڑوں لوگ صرف ٹرین کے ذریعے سفر کرتے تھے۔ نیز یہ مال برداری کا بھی اہم ذریعہ تھا۔ ہزاروں خاندانوں کا چولہا ریل کے انجن سے جلتا تھا۔ پاکستان ریلوے کے پاس اربوں کی زمینیں تھیں جن میں رہائشی کالونیاں، کوارٹرز، ریلوے کلب، ڈاک بنگلے، اسپتال، بجلی گھر ریستوران اور پارک ہوا کرتے تھے۔
پھر ہر محکمے کے ساتھ اس کا زوال بھی شروع ہوا۔ ایک کے بعد ایک مختلف ٹریکس پہ ٹرینیں چلنا بند ہو گئیں اور ریلوے اسٹیشن ویران ہوتے چلے گئے۔ ساتھ ہی ریلوے کے اثاثے چوری کیئے جانے سمیت ریلوے کی قیمتی زمینوں، کوارٹرز اور افسران کی رہائش گاہوں پر بھی قبضہ شروع ہو گیا۔
آج پاکستان میں ریلوے ٹریک کی کل لمبائی کم و بیش ” آٹھ ہزار کلومیٹر” ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کے بجائے اضافے کے، ہر گزرتے سال اس میں کمی ہی دیکھنے کو ملی ہے۔
ہم نے اس میں جو اضافہ کیا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ مردان سے چارسدہ تک ایک چھوٹی سی لائن بچھا دی اور پھر جیکب آباد سے براستہ کشمور و راجن پور، ڈیرہ غازی خان کو ملا دیا۔ کھوکھراپار میں بھی ایک ریلوے لائن کو میٹر گیج سے براڈ گیج میں تبدیل کیا گیا ہے۔ جبکہ کئی ٹریک ایسے ہیں جن کو پاکستان ریلوے نے مکمل بند کر دیا جن میں سے ایک اہم ترین ٹریک سمہ سٹہ تا امروکا ہے جسے 1890 سے 1894 کے درمیان بچھایا گیا تھا۔

سہیل خان ایک جگہ لکھتے ہیں ؛

”اس ریل سروس کو اصل میں ریلوے کمپنی نے دہلی، بھٹنڈا اور سمہ سٹہ کے درمیان 257 کلومیٹر کے ٹریک پر متعارف کرایا تھا۔ ریل کی پٹڑی کا مغربی حصہ اس وقت کی ریاست بہاولپور میں سمہ سٹہ اور امروکہ سیکشن کے درمیان بچھایا گیا تھا۔
اسی طرح اس وقت کی بھارتی ریاست پٹیالہ کے شہر بھٹنڈا اور ہندومل کوٹ کے درمیان دوسرا ریلوے ٹریک بچھایا گیا۔ ریاستی ریلوے لائنوں کا نام ”دربار لائنز” رکھا گیا تھا اور ان کے تمام اخراجات متعلقہ ریاستیں برداشت کرتی تھیں۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے، نارتھ ویسٹرن ریلوے کے زیرِاثر دہلی اور کراچی کو ملانے کے لیے یہ ریلوے لائن بہت اہمیت کی حامل تھی جِسے 1947 میں بھارت سے کراچی تک عملے اور ان کے سامان کی نقل و حمل کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ ”

ریاست بہاولپور کی 112 کلومیٹر کی دوسری دربار لائن بہاولنگر اور فورٹ عباس کے درمیان 1928 میں بچھائی گئی تھی۔
اس ٹریک پر کھچی والا، فقیروالی، ہارون آباد اور ڈونگا بونگہ کی نئی غلہ منڈیاں قائم کی گئیں اور چولستان کے یہ علاقے کافی خوشحال ہو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اُس دور میں چلنے والی گاڑیاں کراچی سے سمہ سٹہ جنکشن اور پھر بہاولپور سے ہوتی ہوئی بغداد، ڈیرہ بکھا، لال سہانرا، اسرانی، خیر پور ٹامیوالی، شیخ واہن، قائم پور، حاصل پور، بخشن خان، چشتیاں، چک عبداللہ، مدرسہ، تخت محل، بہاولنگر جنکشن، چھبیانہ، منچن آباد، منڈی صادق گنج، سوبھاوالا اور پاک بھارت سرحد پر آخری اسٹیشن امروکہ تک جاتی تھیں۔
دوسری طرف بہاولنگر سے فورٹ عباس جانے والی لائن ڈونگہ بونگہ، ہارون آباد، فقیر والی، فورٹ عباس، مروٹ، منصورہ، یزمان سے ہوتی ہوئی قط العمارہ اسٹیشن (جو اب بہاولپور کا حصہ ہے) کے قریب امروکا سے آنے والی لائن میں ضم ہو کر سمہ سٹہ تک جاتی ہے جس پر پھر کبھی لکھوں گا۔ اس پٹڑی کا بیشتر حصہ صحرائے چولستان سے ہو کر گزرتا تھا۔
امروکا لائن پر 1894 میں قائم ہونے والے مرکزی جنکشن کا نام ”روجھانوالی” تھا جسے بعد ازاں 1901 میں نواب بہاول خان عباسی پنجم کے نام پہ ”بہاول نگر جنکشن” کر دیا گیا جس نے سابق ریاست بہاولپور خصوصاً ضلع بہاولنگر کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ہندوستان میں آگے دہلی تک جانے کے لیے بھی یہی ٹریک استعمال ہوتا تھا۔ اس دور میں سمہ سٹہ سے بہاول نگر تک روزانہ کئی ٹرینیں چلا کرتی تھیں جن کی بدولت یہاں کے اسٹیشن پہ خوب رونق رہتی تھی۔ اپنی ٹرین یاترا کے دوران موہن داس گاندھی بھی ان اسٹیشنوں سے گزرے تھے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ دہلی سے کراچی جاتے ہوئے وہ نہ صرف یہاں سے گزرے تھے بلکہ منڈی صادق گنج اسٹیشن پہ رکھی کرسی پہ آرام بھی کیا۔ اس بات کا واضح ذکر کہیں نہیں ملتا۔
بہاولنگر ریلوے جنکشن 1935 میں اپنے عروج پر تھا جس کی ایک خاص وجہ کوئٹہ سے دہلی تک مال بردار ٹرینوں کا باقاعدگی سے چلنا تھا۔ اسی دور میں عملے کے لیے پانچ سو کوارٹرز بنائے گئے جن میں ریلوے افسران کی رہائش، ریلوے ہسپتال، ڈی اے کے بنگلے ، کھیل کے میدان، قبرستان، ڈانس کلب، ورکشاپ اور ریلوے پولیس اسٹیشن شامل ہیں۔
پھر 1938 میں یہاں ایک ڈی سی بجلی گھر قائم کیا گیا جو ڈیزل انجن کی مدد سے بجلی پیدا کیا کرتا تھا جس سے بہاول نگر جنکشن پر خوب روشنی رہتی تھی۔
ریلوے کی تمام ضروریات پوری ہونے کے بعد یہ ایک خوبصورت مقام میں تبدیل ہو گیا۔ اسٹیشن پر مستقل چوبیس گھنٹے مسافروں کی ہلچل رہتی تھی، چائے کے اسٹال کھلے رہتے، اسٹیشن ماسٹر سے لے کر، کانٹا بدلنے والا اور ٹینکیوں میں پانی بھرنے والا عملہ مستعد رہتا تھا اور اسے اس وقت برصغیر کے اہم ریلوے جنکشنوں میں شمار کیا جاتا تھا۔
یہاں تک کہ تقسیم کے بعد بھی اس جنکشن نے 1980 تک کاروباری مرکز کے طور پر اپنی ساکھ برقرار رکھی اور یہ شہر سے بھی اہم تصور کیا جاتا تھا۔
اور پھر آہستہ آہستہ جمہوریت کے ثمرات اس تک بھی پہنچ گئے۔
نوے کی دہائی کے آخرمیں شدید کرپشن سے ریلوے کو نقصان ہونے لگ گیا۔ ایک خبر کے مطابق ہمارے ایک وزیر ریلوے (جن کا اپنا ٹرانسپورٹ کا دھندہ تھا) نے پیسے لے کے ٹرینیں بند کرنا شروع کر دیں اور بسوں کو پروموٹ کیا۔ جان بوجھ کر ٹرینیں لیٹ کی جاتیں اور خرابی کا بہانہ بنا کر گھنٹوں انہیں ویرانوں میں کھڑا رکھا جاتا۔ آخر تنگ آ کر مسافروں نے بسوں کا سفر اختیار کرنا شروع کیا۔
یوں دیکھتے دیکھتے ریلوے شدید مالی خسارے میں چلا گیا۔ ٹریک بند ہونے لگے اور اسٹیشنز کی حالت ابتر ہونے لگی۔ ریلوے ملازمین شدید مالی پریشانیوں سے دوچار ہونے لگے لیکن کہیں سنوائی نا ہوئی۔
واحد ٹرین جو سالوں سے سمہ سٹہ تا امروکہ ان پٹریوں سے گزر رہی تھی، 26 جولائی 2011 کو بند کر دی گئی اور بہاول پور سے آگے یہ سب اسٹیشن ویران ہو گئے۔ ضلع بہاول نگر کی مانگ اجڑ گئی۔۔۔۔۔
بدقسمتی سے ایسا شاندار ریلوے جنکشن اور یہ پورا ٹریک کرپشن کا شکار ہو گیا۔
سمہ سٹہ سے بھاولنگرتک کا ٹریک اہم دفاعی ٹریک ہے سو اس کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 2021 میں اس ٹریک کی دوبارہ بحالی کا ایک نوٹیفیکیشن نظر سے گزرا تھا مگر اس کے بعد کوئی عملی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔
بطور ایک پاکستانی میری حکومت اور محکمہ ریلوے سے گزارش ہے کہ اس ٹریک کو بحال کیا جائے اور ریلوے کے اس قیمتی ورثے کو بچا کر عوام کی فلاح و بہبود کے لیئے استعمال کیا جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply