• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • مجھے صرف تم سے محبت ہے۔اسماء مغل(ہمایوں احتشام کی تحریر کے جواب میں )

مجھے صرف تم سے محبت ہے۔اسماء مغل(ہمایوں احتشام کی تحریر کے جواب میں )

یہ تحریر “ہمایوں احتشام”کی تحریر کے جواب میں لکھی گئی ہے!https://www.mukaalma.com/976

اگرچہ مجھے ہمیشہ تم سے شکوہ رہا کہ تم محبت کے اظہار میں بہت ہی کنجوس واقع ہوئے تھے،تم نے کبھی میری گھنی ناگن سی زلفوں کی تعریف کی نہ لاڈ میں آکر کبھی انہیں سنوارا،کبھی میری سمندر سی گہری آنکھوں میں غوطہ زن نہیں ہوئے،میری غزال سی نشیلی آنکھوں سے چھلکتے جام سے کبھی اپنی پیاس بجھانے کی خواہش ظاہر نہیں کی،راتوں میں جب سارا جہان محوِ خواب ہوتا ہے،دل والے ایک دوسرے سے راز و نیاز میں مصروف ہوتے ہیں،تم نے کبھی میرے شہد آگیں لہجے سے اپنی سماعتوں کو مٹھاس آلود نہیں کیا۔تم میرے قریب رہ کر بھی مجھ سے کوسوں دور رہے،شاید تم کسی اور جہان کے تھے کہ جب بھی میں نے تمھارے قریب ہونا چاہا،تم مزید دو قدم دور ہٹ گئے۔۔

مجھے تم سے شکوہ تھا کہ تم مجھے اپنے اندر،اپنے باطن میں جھانکنے نہیں دیتے،تمھارے خیال میں،مَیں تمھیں عجیب و غریب سمجھتی تھی۔۔ویسے یہ میرا حق بھی ہے،کیوں بھائی کی لاش پر کھانا کھانے والی دنیا میں بلاشبہ تم ایک عجوبہ ہی ہو،مجھے لگتا تھا کہ تم مجھ سے کبھی کبھی اجنبی ہوجاتے ہو،جیسے ایک لمحے کی بھی شناسائی نہ ہو،اور کبھی ایسا کہ یک جان دو قالب۔۔تمھیں لگتا ہے کہ میں یہ سوچتی ہوں کہ تم مجھے بالکل نہیں سمجھ پاتے۔۔۔تو تم ٹھیک سمجھتے ہو!

مجھے معلوم ہے کہ جو ڈھیروں باتیں میں ہر روز تم سے کرتی ہوں،تم سنتے ہو۔۔۔میرا رونا،قہقہے لگا نا،کبھی مدھم گیلی سی ہنسی۔۔اور یہ بھی جانتی ہوں کہ جب تم میرے قہقہے میں میرا ساتھ نہیں دے پاتے تو کتنے پشیماں ہوتے ہو۔۔جب میرا درد تمھارے سینے میں کوئی ایک معمولی سی ٹیس پیدا کرنے میں ناکام ٹھہرتا ہے،مجھے معلوم ہے اس کی وجہ تمھیں معلوم نہ ہوگی۔۔تمھاری بیزاری۔۔جس کی کوئی وجہ تم آج تک دریافت نہیں کر پائے ہو۔۔
تم سب جانتے ہو،میرے حالات،میرے خاندان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات،مگر کوئی ایک لفظ بھی کبھی تمھیں متاثر نہ کرسکا۔۔شاید ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا ہوگا،میری بہن کی علمی قابلیت پر تمھیں اعتراض ہے،حق پر ہو کہ وہ تم سی فہم و فراست نہیں رکھتی۔۔

مگر سنو!تم جو ہمیشہ مجھے یہ باور کراتے رہے کہ تم مجھ سے یکسر مختلف ہو،اور میرے ساتھ زندگی بتانے کی جھوٹی داستاں نہیں سنا سکتے،نہ ہی مجھے شہزادی کی مانند اپنی ہمسفر بنا نے کی کوئی تسلی ہی دے سکتے ہو۔۔
تم جانتے تھے کہ مجھے تمھارے دوستوں کے ساتھ تمھاری سیاسی گفتگو بالکل پسند نہ تھی،میری جگہ کوئی بھی عورت ہوتی تو وہ بھی یہ پسند نہ کرتی،تم یہ بات جانتے تھے،اور مانتے بھی تھے۔۔تمھارا دوستوں کے ساتھ ان کے مسائل حل کرنے میں مدد گار بن جانا بھی مجھے پسند نہ تھا،لیکن کیوں پسند نہ تھا،تم نے کبھی جاننا ہی نہ چاہا۔۔
پر میں نے یہ جان لیا تھا کہ تم ایسے ہی ہو۔۔

تمھارے بقول پسماندہ علاقوں کے باسی اجتماعیت پر یقین رکھتے ہیں،ان کے لیے انسان چیزوں سے کہیں زیادہ اہم اور معتبر ہوتے ہیں۔۔۔تو کیا تمھاری نظر میں مَیں کوئی چیز تھی؟؟؟
اور تمھارے بقول تم پسماندہ وطن سندھ کے گوٹھوں کے باسی،جو بنجاروں اور آوارہ گرد وں کی مانند سفر پر یقین رکھتے چلتے چلے جاتے ہو،تمھارے بقول تمھیں نئے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے،جو تمھارے دل میں گھر کرتے ہیں،لیکن تمھیں سفر زیادہ عزیز ہے۔۔۔۔
تو مجھے بھی سفر میں آنے والا کوئی پڑاؤ ہی سمجھ  لیا ہوتا ۔۔لیکن میں نے سنا ہے کہ جن کے پاؤں سے سفر بندھ جائے،وفا ان سے اپنا دامن چھڑا لیتی ہے،
تم نے ٹھیک کہاکہ مجھ سی شہزادی تم سے بنجارے کے پاؤں نہیں باندھ سکتی!

میرے شکوہ میں تمھارا جوابِ شکوہ بجا ہے کہ جہاں مزدور دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں،فاقوں سے خودکشیاں کرتے ہیں،بچے کیڑے مکوڑوں کی طرح مر جاتے ہیں،کسا ن قحط سالی کا شکار ہیں،ہزاروں لوگ کراچی سے غائب ہوجاتے ہیں،جانتی ہوں کہ تیرہ ہزار تعفن زدہ لاشیں،تیرہ ہزار خاندانوں کی موت کی نوید ہے، لیکن کیا تمھیں ایک پَل کے لیے بھی میرے اس گھر کا خیال آیا جو میں نے خیالوں ہی خیالوں میں تمھارے ساتھ بنایا تھا،خواہشوں کا ایک ایک تنکا جوڑ کر۔۔اور تم نے ایک پل کے ہزارویں حصے میں اسے مسمار کردیا۔۔ا س کا حساب کون دے گا؟۔۔۔۔سند ھ سے غائب ہونے والوں کے گولیوں سے چھلنی ہوئے اجسام،ایک لاکھ شہدا جو مذہب کے نام پر مار دیے گئے،بلدیہ ٹاؤن کے دو سو ساٹھ جھلسے ہوئے لاشے،جن کی شناخت تک ممکن نہیں۔۔۔۔اور جس کی پاداش میں تم نے مجھے ہی زندہ لاش بنانے کی ٹھان لی۔۔

تمھیں فکر ہے کہ مُردوں کو انصاف نہیں ملا۔۔۔اور جو تم جیتوں کے ساتھ بے انصافی کر رہے ہو،اس کا کیا؟؟۔۔۔
تم سوال کرتے ہو کہ ناانصافی،معاشی عدم توازن،بھوک افلاس اور بے روزگاری کے سیلاب سے محبت کیسے ممکن ہے۔۔۔

کیا کبھی تم نے یہ کہا کہ۔۔سنو!میں تمھیں کبھی اس عفریت کی ہوا بھی نہیں لگنے دوں گا،۔۔محبت ممکنات میں سے نہ بھی ہوتی تو میں اسے تمھارے لیے ممکن بنا دیتا،حالات جیسے بھی ہوتے۔۔۔کبھی کہا؟

میں بے حس نہیں ہوں،نہ ہی محبت کرنے والے بے حس ہوتے ہیں۔۔کیا کبھی تم نے یہ محسوس کیا کہ میری دنیا تم سے تمھی تک ہے،کوئی چمن زار،کوئی شبستان جہاں تم نہیں وہ ویرانہ ہے۔۔یہاں کچھ بھی ممکن ہے،لیکن اس کے اسباب بنانا پڑتے ہیں،
خدا کسی پر یہ وقت نہ لائے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کی ادھ جلی لاش پر ناچتے ہوئے آتش بازی کرے،یا رومانس کے گلچھڑے اڑائے۔۔۔لیکن میں یہ جانتی ہوں کہ جو مرنے والوں کے ساتھ ہی مر جاتے ہیں،وہ بزدل ہوتے ہیں۔اور تم بزدل ہو!

Advertisements
julia rana solicitors

کاش تم جان پاتے کہ میں تم سے تمھارا احسا س چھین نہیں رہی تھی،بلکہ اپنے ہونے کا احساس بھی تمھارے وجود میں پیوست کر دینا چاہتی تھی،کہ جب کبھی تمھیں کسی ایسے حالات کا سامنا ہو تو تم خود کو اکیلا محسوس نہ کروبلکہ میرا احساس،میری ہتھیلیوں کی نرمی،اور انگلیوں کی پوروں کی گرمی تمھارا اکیلا پن بانٹ لے۔۔
تمھاری ہزار کج روی کے باوجود میں تمھاری توجہ کی طالب رہی،اور تم دنیا کے جھمیلوں میں الجھے میری ذات سے غافل۔۔۔
آہ!! جانِ جہاں،نہایت غم کے ساتھ کہتی ہوں،
“مجھے صرف تم سے محبت ہے”!!

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply