ٹائم اور انسانی منیجمنٹ کے ماہر خالد سہیل….مرزا یٰسین بیگ

خالد سہیل قلم پرور ، روح پرور اور دوست پرور انسان ہیں۔ 70 کتابیں پڑھنی مشکل ہوجاتی ہیں مگر انھوں نے 70 کتابیں لکھ ڈالیں۔ بسیار نویسی اور بسیار خوری ان کے محبوب مشاغل ہیں۔ لکھتے اور کھاتے وقت ان کے چہرے سے مسرت ٹپک رہی ہوتی ہے۔ خالد صاحب پر بھی یہ جملہ فٹ آتا ہے کہ کھاتا ہے تو کھلاتا بھی ہے۔
 پاکستانی باپ ہر سال ایک نیا بچہ لے آتا ہے اور خالد ہر سال ایک نئی کتاب۔ اتنے زودنویس ہیں کہ جتنی دیر میں ایک عام آدمی چیک لکھتا ہے موصوف دو مضمون لکھ ڈالتے ہیں۔
1985 میں ان کے ایک افسانے نے میرے دل میں گھر کرلیا تھا تب سے یہ دل میں بیٹھے ہیں اور کرایہ بھی ادا نہیں کرتے۔ ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ جس کے دل میں بیٹھے ہوں اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ کبھی لکھواتے ہیں ، کبھی پڑھواتے ہیں۔ رام ، رام کہنا نہیں آتا مگر پھر بھی سب کو رام کرلیتے ہیں۔ غریب تو غریب “امیر” کو بھی اپنا بنالیتے ہیں۔
ایک امیر کو اتنا اپنا بنایا کہ اس نے اپنے پورے نام امیر حسین جعفری کے ساتھ ان پر کتاب مرتب کرڈالی “ڈاکٹر خالد سہیل ۔۔ فن و شخصیت” ۔ اس کتاب سے ڈاکٹر خالد سہیل کا اچھا خاصا سراغ مل جاتا ہے۔ امیر جعفری کا کہنا ہے کہ جب وہ نئے نئے ٹورنٹو آئے تھے تو چند نے مشورہ دیا ڈاکٹر خالد سے دور رہئےوہ بڑی متنازعہ شخصیت ہیں اور یوں امیر نے سمجھ لیا کہ ٹورنٹو میں اگر کسی سے دوستی ہوسکتی ہے تو وہ خالد سہیل ہی ہیں ۔ اب امیر کے پاس سگریٹ بھی ہے اور ایک “گریٹ” بھی ۔
ڈاکٹر خالد سہیل
“ڈاکٹر خالد سہیل ۔۔ فن و شخصیت” کا ایک اہم مضمون شبانہ خاتون کا ہے جو دہلی انڈیا سے تعلق رکھتی ہیں اور انھوں نے خالد سہیل پر ایک مقالہ لکھا تھا۔ یہ مقالہ اتنا بھرپور ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ڈاکٹر خالد کی خلوت و جلوت دونوں نظر آنے لگتی ہے ۔ مقالہ نگار بیک وقت ادیبہ اور جاسوس دکھائی دیتی ہیں۔ خالد سہیل نے ان کے سامنے دل کھول کر رکھ دیا تھا ۔ اتنا دل تو وہ اپنی سگی محبوبہ کے سامنے بھی نہیں کھولتے۔ اس مقالے میں ان کے ایک افسانے “بوسہ” کا اختصاریہ بھی درج ہے اور اس سے حضرت خالد کی جوانی عیاں ہوجاتی ہے۔ شبانہ خاتون نے شبانہ روز کی تحقیق کے بعد خالد سہیل کو زودنویس ادیب قرار دیا ہے۔ میں اس میں اپنی نومولود اصطلاح “سرزد نویس” کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ جو بھی چیز موصوف سے ارادی یا غیرارادی طور پر سرزد ہوجائے تو اسے قلم کے دائرے میں ضرور لاتے ہیں چاہے وہ “سرخ دائرہ” کیوں نہ ہو۔ ان کے ہاں انسان اور قلم کیلئے کوئی”ریڈ لائن” نہیں ہے۔
کتاب میں ایک مضمون گوہر تاج کا بھی ہے جو اپنے تئیں سرتاج جیسا ذہن رکھتی ہیں۔ انھوں نے خالد کے اندر ایک پوشیدہ عورت دریافت کی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ خالد سہیل کے اندر ایک نہیں بیسیوں عورتیں پوشیدہ ہیں۔ خالد عورتوں کی عزت کو اپنی عزت سمجھتے ہیں۔
وقت پر کام آنا اور وقت پر کام لینا خالد سہیل کی کامیابی کے دو راز ہیں۔ لوگ دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں موصوف اپنے خیالات بھی گزارتے ہیں۔ کھوٹے سکے اور گاڑی اچھی طرح چلانا انھیں خوب آتا ہے۔ جہاں جائیں داستان اور اپنی کتاب چھوڑ آتے ہیں۔
 وہ “ٹوٹا ہوا آدمی” لکھ تو سکتے ہیں مگر خود کبھی نہیں ٹوٹتے۔ جب کبھی ٹوٹے بھی تو اس کا کوئی “ٹوٹا” لیک ہونے نہیں دیا۔ “چند گز کا فاصلہ” ضرور رکھتے ہیں اور اسی فاصلے میں ان کی شخصیت کے ٹوٹے اجزاء دفن رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرنے کے بعد گورکن کو بھی زحمت دینا نہیں چاہتے۔ یہ ان کی عظمت کی دلیل ہے کہ جو ٹھان لی بس اسی میں اٹھان لی ۔
ڈاکٹر بلند اقبال نے خالد سہیل کے پاس “ثوابوں کی پوٹلی” دیکھی ہے غالباً وہ گرین زون کے گرین رنگ سے متاثر ہوگئے ہیں ورنہ ثواب و گناہ تو ان کو چھوکر بھی نہیں گذرے۔ کبھی سرخ رنگ کے شیدائی تھے اب سفید پوش ہیں ۔ خالد کے ہاں guilt کا نہیں صرف built کا تصور ہے۔ میرے اور ان کے مشترکہ ناول “پاپی” میں بھی وہ یہی فلسفہ سمجھاتے رہے ہیں۔
مرحوم سعید انجم نے کہا تھا “خالد عقیدوں کے شہر میں تجربوں کا آدمی ہے”. میرے نزدیک وہ “نئے خواب اور نیا نصاب” پڑھنے اور پڑھانے کے شوقین ہیں۔
 فیصل عظیم ان کیلئے”طبیب کی لکھائی” کا عنوان تلاش کرتے ہیں۔ صادقہ نصیر انھیں مسیحا اور نماز انسانیت کا مقتدی کہتی ہیں ۔ سچ یہی ہے کہ وہ کسی کا دل نہیں دکھاتے ۔ بس دل میں جھانک کر دل کی صفائی کردیتے ہیں۔
جس زمانے میں اردو کے ادیب و شعراء ویب سائیٹس کا صرف ذکر سنتے تھے ، خالد سہیل کے پاس ان کی اپنی ایک پوری ویب سائیٹ موجود تھی اور ہے۔ وہ ای میل اور فیمیل کے بغیر رہ ہی نہیں پاتے۔ آج کل Tiktok ، Reels اور Instagram میں مصروفیت بڑھارہے ہیں۔
 باریش رہ کر صوفیوں اور فرشتوں کو تجسس اور امتحان میں ڈال دیا ہے۔ فرحت پروین کے مضمون کے عنوان کو تھوڑا سا ٹوئسٹ کرتے ہوئےمیں یہ کہوں گا کہ خالد دیوتاؤں کے وجود سے منکر ایسے دیوتا ہیں جو “ہم سب” کے بغیر رہ نہیں پاتے۔
شاید نوجوانی میں “محبت نامے” لکھ نہیں پائے تھے اس لئے میچور خالد سہیل نے اب ادبی محبت ناموں کی داغ بیل ڈال دی ہے اور لگتا ہے یہ بیل خوب منڈھے چڑھ رہی ہے۔
شاہد اختر صاحب نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ خالد سہیل سادہ مزاج ، صاف گو ، بےخوف اور امن پسند ہیں ۔ میں نے چونکہ خالد سہیل سے کئی بچگانہ ، آنہ دو آنہ لڑائیاں بھی لڑی ہیں اس لئے مجھے ان کی کئی مزید خوبیوں کا بھی پتہ ہے۔ خالد اپنی صفائی کئی دنوں تک سوچ سوچ کر دے سکتے ہیں۔ پانی ، مشروب اور غصہ ایک ہی انداز میں پیتے ہیں یعنی پینے کے بعد چہرہ بتادیتا ہے کہ کیا پیا ہے۔ کوئی کچھ کہہ دے تو اسے یاد رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں repeat اورDelete کا گیان بڑا کام کرتا ہے۔ دوستوں ، کتابوں اور سہیلیوں پر ہوم ورک خوب کرتے ہیں۔ پروجیکٹ کے شائق ہیں اور عقل کو پروجیکٹر کی طرح استعمال کرتے ہیں۔
خالد سہیل دنیاوی درویش ہیں۔ انھیں اپنے مریضوں ، کتابوں اور اپنی صحت کا خیال رکھنا خوب آتا ہے۔ ٹائم منیجمنٹ اور انسانی منیجمنٹ کے ماہر ہیں۔ رس نکالنا اور رس پلانا خوب آتا ہے۔ یہ شہر کا وہ حاضر آدمی ہے جو اپنی اسٹیبلشمنٹ رکھتا ہے۔ اس کے دم سے ٹورنٹو میں اردو اِٹھلاتی پھرتی ہے۔ خالد سہیل کے بغیر اس شہر میں اردو اور کئیوں کا گزارا نہیں۔
مرزا یاسین بیگ
 جولائی 2023ء

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply