میں تو چلی چین/موتھیان یو جانا بھی حسین تجربہ تھا (قسط16) -سلمیٰ اعوان

Mutianyuجانا اور اُسے دیکھنا میرے حساب سے میری زندگی کا ایک اور انتہائی حسین تجربہ تھا ۔
دیوار چین کے اس بادہ لنگ Badaling والے حصّے کو دیکھ کر واپسی شام کو ہی ہوئی تھی۔یہ ہفتے کا دن تھا اور تینوں بچے گھر پر تھے۔ میرے آنے کے بعد سے یہ ان کا معمول تھا کہ اسکول سے واپسی پر جونہی وہ مجھے دیکھتے۔یکے بعد دیگرے بول اٹھتے۔
‘‘ہاں تو نانو آج کی خبریں کیا ہیں؟کہیں گئیں؟کچھ دیکھا؟جیسے سوالوں کی یلغار ہوتی۔’’
یہی بادہ لنگ سے واپسی پر ہوا۔
‘‘اُف ابو ،ماما آپ لوگ نانو کو موتھیان یو Mutianyu کیوں نہیں لے کر گئے۔یہ عظیم دیوار کا بہترین اور شاندار حصّہ ہے۔’’
اب ان کے اعتراضات کا نشانہ میں بن گئی تھی۔
‘‘حد ہوگئی ہے نانو آپ کی بھی۔بہت ضروری تھا کہ آپ کیبل کار سے چوٹی تک جاتیں اوراس موڈ سے لطف اندوز ہوتیں۔ شاندار Toboggan سے واپسی کرتیں۔اوریقیناً  کہتیں میری زندگی کا شاندار دن اور تجربہ ۔’’

‘‘ارے بھئی بادہ لنگ کو آرٹ اور کلچر کے حوالے سے دیکھو۔کیسے کیسے شاہکار ہیں وہاں۔تمہاری نانو لکھاری ہیں۔انہیں پہلے یہ دکھانے کی ضرورت تھی۔’’
عمران قہقہے لگاتے ہوئے کہتا۔
مگر بات وہی کہ بچے ہمارے عہد کے ہم سے زیادہ ہوشیار ہوگئے ہیں۔

دونوں نواسوں نے ماں باپ کا ناک میں دم کرناتو کیا ایک طرح انہیں طعنے مار مار کر جینا حرام کر دیا کہ آپ لوگوں نے نانو کو سیڑھیاں چڑھا چڑھا کر ہپوہان کر دیا ۔ آپ کو انہیں چیئر لفٹ رائڈ سے چوٹی پر لے جانا چاہیے تھا ۔
مجھے بھی ساتھ ساتھ اُکساتے۔
‘‘ دیکھ لیں نانو آپ کی بیٹی نے آپ کے ساتھ دو نمبری کر دی ہے ۔ ’’
خوب خوب شغل لگتا ۔اِس ساری بک بک ،جھک جھک کا نتیجہ عمران کے ہاتھ کھڑے کردینے کی صورت میں تھا۔
‘‘بھئی غلطی ہوگئی۔معافی کا طالب ہوں۔تین دن کے لیے مجھے چندو جانا ہے۔آنے کے بعد سب سے پہلا کام آپ کی نانو کو موتھیان لے جانا ہے۔’’

بچوں نے تالیاں بجائیں باپ کے نعرے لگائے۔ اس دوران میرے لاڈلوں نے انٹرنیٹ سے معلومات کے ڈھیر لگا دئیے ۔اپنے لیپ ٹاپ پر اس حصّے کے کون کون سے منظر نہ دکھائے ۔
اُف واچ ٹاور کی انوکھی تعمیری ساخت، سبزے سے بھرے جنگل، بہار میں کھلتے  پھول، موسم خزاں میں درختوں سے لٹکتے پھل اور سارا ماحول سُرخ اور پیلے درختوں سے ڈھنپا ہوا۔ لگتا تھا جیسے جنگل میں آگ لگ گئی ہو۔ سردیوں میں برف کی چادریں اوڑھے چوٹیاں اور ڈھلانیں ۔ ایک طرف اگر فطرت اور حسن کے یہ نظارے تھے تو دوسری طرف اس کی تاریخ،اس کی کہانیاں ۔سچی بات ہے میں تو اِن دونوں کے درمیان لٹک گئی تھی۔ یوں موتھیانMutianyu سے خاصی آشنائی ہو گئی ۔تصویری بھی اور تحریری بھی۔

چندو سے واپسی پر اگلے ہی دن عمران نے آفس سے آتے ہی زوردار آواز میں اعلان کر دیا کہ کل بچوں کی نانوMutianyu جائیں گی اور جوھٹے لیں گی ۔تینوں بچوں نے ہُرّا کہتے ہوئے تالیاں بجائیں اور نانو کے بوسے لیے۔اب آئے گا مزہ۔

یوں میرے لاکھ انکار کے باوجود وہ مجھے وہاں لے ہی گئے ۔ بہر حال یہاں آکر شناسائی کے جو نئے انداز سامنے آئے وہ تو اپنی مثال آپ تھے ۔

یہ بیجنگ کے شمال مشرق میں کوئی 75, 70 کلومیٹر پر ہے ۔ کیبل کار میں بیٹھنے اور جوھٹے لینے کا پتریاٹہ میں مزہ چکھ چکی تھی ۔ مگر بات وہی پنڈ اور شہر کی ماڈرن کڑی والی تھی ۔ کار اسٹیشن کی خوب صورتیاں اور کاروباری حسین طریقے سلیقے والے اندازکس درجہ شاندار تھے کہ واہ واہ کہہ اٹھنے کو جی چاہتا تھا۔ پیار سے سہج سے اطمینان سے بیٹھنے کے بعد آپ نیچے دیکھتے ہیں۔نیلگوں دھویں کے غبار میں لپٹی سر ُسبزڈھلانوں والے تہہ در تہہ پہاڑی سلسلوں کا حسن آپ کی سانسوں کو روکتا ہے۔ آپ کی آنکھوں کو تحیر سے پھاڑتا ہے۔آپ کے زبان سے بے اختیار سبحان اللہ، الحمداللہ جیسے الفاظ نکالتا ہے۔ اِن سبز سلسلوں کی بھی انواع کا سلسلہ ہلکے اور تیز رنگوں کے شیڈ کے ساتھ ساتھ بہتے پانیوں کی طرح نظروں میں کُھبا جاتا تھا ۔
ان پر تیرتی رقص کرتی ہوائیں یقیناً یہ جنگلی خوشبوؤں سے بوجھل ہوں گی۔پرندوں کی دید نے آنکھوں کو حسرت سے لبالب بھردیا ہے۔
درختوں اور بوٹوں کے جوشیلے ہلار ہواؤں کی تندی اور تیزی کو بتاتے تھے۔ایسے میں مجھے وہ سلطنت تھانگ Tang کا عظیم شاعر Du Fu کیوں نہ یاد آتا جس نے ایسی ہی کسی اونچائی اور ایسی ہی کسی بلندی سے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا۔یہ نظم میں نے ڈاکٹر نسرین سے چند دن قبل سنی تھی۔
اونچائی سے
ہواؤں میں کاٹ ہے،بادل بلند ہوتے ہیں
بندر اپنے دکھوں پر بین کرتے ہیں
ہوا تازہ، ریت سفید،
اور پرندے دائروں میں اڑتے ہیں،
مدھم سی آواز میں
ہر طرف گرتے ہوئے پتے
جبکہ ایک تواتر سے دریا کی لہریں
ہلکوروں کی صورت بہتی ہیں
خزاں کی دھندلاہٹ میں طے کی ہوئی ہر میل کی مسافت
مجھے تو اپنا ہی سفر لگتا ہے
تنہا،نڈھال اور بیمار سا
اس بالکونی پر چڑھتے ہوئے
زندگی کی ناکامیاں اور پچھتاوے
میری کنپٹیوں کو جذبات سے منجمند کررہی ہیں
اور یہ میں شکستہ دل بدقسمت
کہ جو پینا چھوڑ چکا ہے۔
اور اب میں ہواؤں میں اڑتے اِس اڑن کھٹولے میں بہتی چلی جارہی ہوں۔
میرے قدموں کے نیچے برجیاں تھیں ۔ کشادہ دروں میں بھاگتے دوڑتے لوگ تھے ۔

چوٹی پر پہنچ کر میں نے اک ذرا رک کر ماحول کے سارے حسن کو سرشاری سے دیکھا ہے۔انگ انگ میں مسرت رقصاں ہے۔ لمبی سانس لے کراپنے اردگرد بھنگڑے ڈالتی ہواؤں کو سونگھا ہے۔ اسے اپنے سینے میں اُتارا ہے۔آنکھیں بند ہوگئی ہیں۔

اب چلتی جارہی ہوں۔نیچے جھانکتی ہوں۔چیلسیChelseaاور بل کلنٹن یاد آئے تھے۔خوب رو امریکی صدر اور اُن کی بیٹی یہیں بھاگتی پھر رہی تھی۔انہیں دیکھ کر سینے سے ‘‘کاش’’ نکلا تھا۔ ‘‘میں کب اِسے دیکھوں گی۔’’ہوک نے تب سوال کیا تھا۔

‘‘حاسدی عورت شکر ادا کر اوپر والے کا۔’’اندر نے کہا تھا۔مسکراتے ہوئے اوپر والے کو محبوبانہ انداز میں دیکھا تھا۔ اب دیوار سے چپک کر کھڑی ہوگئی ہوں۔بیٹی اور داماد سے بے نیاز۔
نظریں رکتی ہیں۔رُک رُک کر ،پلٹ پلٹ کر اپنے گردوپیش کو دیکھتی ہیں۔سامنے لگتا ہے جیسے سبزے کا ایک جہان ہے جو دھیرے دھیرے کسی آبشار کی طرح پہاڑوں کے دامن میں گِرتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔میرا دل رُکتاتھا۔ذرا ٹھہرتا تھا۔کیا منظر تھا۔

یہ تاریخ بھی کم بخت کتنی بوریت والی شے ہے۔ ذرا بیٹھی ہوں تو فوراً مجھے جتانے کے لیے سامنے آکھڑی ہوئی ہے اور پوچھتی ہے ۔تم نے اپنے قارئین کو ابھی تک اس کے بارے کچھ خاص نہیں بتایا۔یونہی حقائق کی تکا بوٹیاں کرتی پھر رہی ہو۔تم نے تو بادشاہوں کے ادوارکی خشکی کو مزاح اورخوش مزاجی کے بہتیرے پیرھن پہنادئیے ہیں۔

حد ہوگئی ہے تمہاری بھی تاریخ بی بی بجائے میری شکرگزار ہونے کے کہ میں تمہاری کٹھی میٹھی تفصیلات کو دلچسپ بناتے ہوئے اُسے اختصار کا جامہ بھی پہنا رہی ہوں۔تم الٹا مجھے ہی رگید رہی ہو۔
بیچاری میری اِس پھٹکار پر شرمندہ ہوئی اور بولی۔بس بھئی بس بہت ہوگیا اب مزید مجھے کچھ نہیں کہنا ۔ہاں تمہاری مہربانی تم نے بادشاہوں کے عدل وامن کے گیت بھی بہتیرے گا لیے ہیں۔ اپنی قومی تاریخ کو سجانے، سنوارنے اور ماضی کے حکمرانوں کو پھنے خان ثابت کرنے کے لئے دلائل اور تاویلوں کے ڈھیربھی لگا دئیے ہیں ۔ تاہم یہ کھوج کرنا بھی تو ضروری ہے کہ آخر اِسے بنانے کی ضرورت کیا تھی ؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ کے پاس اپنے حوالے اور وجوہات ہیں ، دلائل اور توجیحات ہیں ۔

سچ بات تو یہی ہے کہ امن اور عام لوگوں کی حفاظت اور انہیں جنگ و جدل سے بچانے کی ضرورت کے حوالے زیادہ ٹھوس صورت میں سامنے آتے ہیں ۔ہماری ناقص رائے میں تو پرانے بادشاہوں کے سامنے بھی آج کے بادشاہوں جیسی سوچ ہی کار فرما تھی ۔

اقتدار،تخت و تاج اور طاقت کی بھوک نے سدا انسان کو بے چین رکھا۔ پہلا اور اہم فکر تو اپنا اور اپنی راجدھانی کی بقا کا ہوتا ۔ تاج و تخت محفوظ، اپنی سلطنت کی گدی بیٹے، پوتے، پڑپوتے کو نصیب ہو جیسی فکر کے تابع ہو۔

ہاں بیچ میں کچھ نیک دل بھی جنم لے لیتے جن کے دلوں میں کہیں تھوڑا بہت پر جا کا بھی خیال آجاتا کہ اسے مظبوط کرو کہ ان غریبڑوں کا تحفظ بھی یقینی ہو جائے ورنہ تو بیچاروں کی تکے ّ بوٹیاں ہی اڑتی پھریں گی ۔ یوں اس میں مبالغے والی تو ذرا سی بات بھی نہیں ۔ہر

چھوٹی بڑی مصیبت کی موری کے آگے تو انہوں نے ہی آنا ہوتا ہے ۔ اور جب وہی نہ رہے تو کہاں کا راج پاٹ ؟

تب کے زمانے کم بخت مارے آج جیسے تھوڑی تھے کہ خلق خدا بس ایک بٹن دبانے کی مار پر ہوتی ۔ یوں تجارتوں کے ہو کے بھی بڑے تھے کہ اکلوتی شاہراہ ریشم کی حفاظت بھی تو مقصود تھی کہ دنیا کا لمبا ترین اور قدیم ترین راستہ تو یہی تھا ۔

ہاں مگر ان کے علاوہ بھی بڑے اہم مسائل تھے ۔اِس میں شک نہیں کہ زمانہ قدیم سے ہی یہ خیا ل بڑا طاقتور تھا کہ چین کی جغرافیائی ساخت اور آب و ہوا نے اِس ایک ملک میں دو مختلف کلچروں کو رواج دے رکھا تھا ۔ جنو ب گرم آب و ہوا کے ساتھ زراعت کے لئے مو زوں ترین حصّہ خیال کیا جاتا تھا۔ شمال سرد اور جانوروں کی چراگاہوں کے لئے بہترین جگہ سمجھی جاتی تھی۔

آب و ہوا اور موسم کے مطابق ہر ایک کا کلچر بھی اسی مناسبت سے ترقی یافتہ اور قدر ے پسماندگی کے زمرے میں آٹھہرتاہے ۔ اگر زرعی پیشے سے منسلک آبادی کے لیئے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لیئے امن اور استحکام ضروری تھا تو اِس کے برعکس ، شمالی علاقوں کے لوگ خود کو زندہ رکھنے کی تگ و دو میں زیادہ متحرک تھے ۔ قدرتی امر تھا کہ ایسے حالات میں ایک حصّے کا دوسرے پر انحصار بڑھ جاتا ہے ۔

اب سچی بات ہے تاریخی تناظر میں شمال کے خانہ بدوشوں کے جنوب کے لوگوں پر حملے دراصل زندگی کی ضروریات کے حصول کے لئے تھے ۔ اُن بیچاروں کو علاقے فتح کرنے سے رغبت نہ تھی۔ ساری جدوجہد تو روٹی اور پیٹ کے لئے تھی ۔ اِس لئے شمال کے حملہ آوروں سے بچاؤ کی بات تو نری فضول ہی لگتی ہے ۔

اب دوسرا اس کی حمایت میں یہ کہا جانا کہ یہ عظیم دیوار ہی تو تھی جس نے اگر ایک طرف شمال اور جنوب کے لوگوں کو اپنی اپنی حدبندیوں میں تقسیم کیا تو ساتھ ہی انہیں رہنے کا قرینہ بھی سکھایا۔ اس نے دونوں کے درمیان جھگڑے کم کر تے ہوئے انہیں شعور دینے کی بھی کوشش کی۔ اِس چھوٹے سے قدم نے جنوب کے پیداواری ڈھانچوں اور معشیت کو عروج دیا ۔

یقیناً بندہ اِس سے اتفاق کرتا ہے کہ جب لوٹ مار کے راستے بند ہو گئے تو شمال کے لوگوں کو بھی احساس ہوا کہ لو ٹ مار پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنے وسائل کو استعمال میں لاؤ۔ اپنی تہذیبی ثقافت کو بہتر اور نمایاں کرو۔ اوریہی وہ اقدام تھے کہ جنہوں نے دونوں کے درمیان بہتر افہام و تفہیم کے دروازے کھولے ۔

اس حوالے سے چینی تاریخ میں ایک اور کہانی بہت اہم کردار ادا کرنے داخل ہوتی ہے۔ ڈاکٹرسن یات سین (1866-1911) Sun Yat, Sen 1911 کے انقلاب کے مرکزی کردار جنہوں نے Qing سلطنت کو کھڈے لین لگایا تھا کا کہنا ہے۔

“اگر یہ سب عظیم دیوار کی حفاظت کے لئے نہ کیا جاتا تو چینی تہذیب ان شمالی لوگوں کے ہاتھوں کن اور ہن سلطنتوں میں ہی تباہ و برباد ہو چکی ہوتی ۔ سونگ 960-1279 اور منگ کو دیکھنا کہاں نصیب ہوتا۔ ”
ہاں اب ذرا تعمیری تفصیل پر بھی بات ہوجائے۔

پہاڑوں پر جب جب بننے کے مراحل آتے تب ان ہی پہاڑوں کے پتھر استعمال کئے گئے۔چلو جب یہ میدانوں سے گزری تب اینٹوں گارے چونے سے کام چلا ۔ جب صحرا لپیٹ آئے تو پھر ولو Willow درختوں کی شاخیں اور گہرائیوں سے نکالی ہوئی ریت نے کام کیا۔7 قبل مسیح سے ہی یہ دیواریں بننے تو لگی تھیں مگر انہیں جوڑ کر باقاعدہ ایک بڑی دیوار کی پہلی صورت 220 قبل مسیح میں شہنشاہ Qimshi Hang نے دی جو چین کا پہلا بادشاہ تھا ۔لیوچی Liuche ، ہین Han شہنشایت نے سلک روٹ کی حفاظت کی ۔ پھر ونگ کے زمانے 1368-1644 تک پتھر اور اینٹوں سے اسے مزید مظبوطی دی گئی ۔کہتے ہیں مظبوط کرنے میں چاول بھی بڑے اہم رہے۔

جہاں تک مدافعانہ حیثیت کا تعلق ہے عظیم دیوار ایک طویل لمبے پھیلاؤ والا سلسلہ ہی نہیں بلکہ اس کے مختلف حصّے جو مختلف دفاعی مقاصد کے تحت ہیں جن میں بلاک ہاؤس،گریژن ٹاؤن، فوجی چوکیاں، درے، سگنل ٹاور پر مشتمل ہیں۔وہ بہت منصوبہ بندی سے بنائے گئے تھے۔

اب تعمیری پہلوؤں  کے ساتھ ساتھ کچھ تخریبی پہلوؤں  پر بھی بات ہو جائے ۔ اسے وقت کی طوالت نے اپنے اپنے عہد کے لوگوں کا خون پسینہ، اُن کے آنسو آہیں، شاہوں کے جلال اور اُن کے جبر دبدبے، اُن کی تخلیقی ذہنی ایچ سبھوں کو شامل کیا۔

ذرا چند لمحوں کے لئے سوچیں ۔بیچارے غریب غربا اور مزدور لوگوں کا حال پتھروں کو توڑنا کتنا کٹھن کام ۔ کہیں اوپر بلندیوں سے لانے میں ہلکان اور کہیں ہزاروں فٹ نیچے گہرائی سے ڈھویا ڈھوئی کا سلسلہ ۔ مفت بیگار کے یہ جبری سلسلے ۔لوگوں کو گھروں اور خاندانوں کے بیچ سے اٹھا کر لے جاتے ۔ تو اب بھلا اُن بیچاروں کے آنسو آہیں کیسے نہ شامل ہوتیں ۔

Qin سلطنت کے پہلے بادشاہ کا زمانہ۔جب اِس عظیم دیوار کو بنانے کے لیے ایک نئے نویلے دولہا کو بھرتی کیا گیا۔بے حد خوبصورت دلہن کے یہ دن تو ابھی مرادوں بھرے تھے کہ اِن کے سہانے شب و روز میں جدائی کا زہر گھل گیا ۔

محبت بھرے جذبات نے طوفان اُٹھایا۔ایک دن اُس سے ملنے کے لیے نکل پڑی۔کوسوں میل دور کا سفر۔ پوچھتی پوچھاتی بھوکی پیاسی جب اُس جگہ پہنچی جہاں تعمیراتی کام ہورہا تھا۔ ساتھی لوگوں نے بتایا کہ اس کا شوہر تو مرگیا ہے۔ اُسے تو دیوار کے نیچے ہی دفنا دیا گیا ہے۔ خبر تھی یا کوئی بجلی جو اس پر گری۔تین دن اور تین راتیں وہ مسلسل روتی رہی حتیٰ کہ دیوار کے بیشتر حصّے ایک کے بعد ایک گرتے چلے گئے۔

سچی بات ہے قیمت تو عام آدمی کو ہی ادا کرنی پڑتی ہے۔لیڈی Mengjiang تو ایک مثال ہے۔
شمال کے گھڑ سوار لٹیروں کو بھی سب سے زیادہ اِس بات پر اعتراض تھا کہ یہ کیا انہیں محصور کردیا۔ وہ کیا بزدل ہیں؟انہیں تو یوں بھی جنوب کے کھاتے پیتے لوگوں سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔وہ تو برملا کہتے سب بکواس ہے کہ یہ اُن کی حفاظت کے لیے بنائی جارہی ہے۔ یہ تو بادشاہ کن کے راج کو دوام دینے کی کوشش ہے۔ شاید اسی لیے وہ بادشاہ سے بھی متنفر تھے۔

اب یہ سوال کرنا بھی ضروری تھاکہ کِسی نے اِسے کبھی سر بھی کیا ؟

سنگاپور کے Monksمونک ز کے بارے روایت ہے کہ انہوں نے کوئی نو ماہ میں اِسے تسخیر کیاتھا۔مگر اس پر بھی کہا گیا کہ کہاں ؟ صرف بیجنگ کاپورشن کور ہواتھا۔113170میل کی لمبائی کو پیدل نو ماہ میں سر کرنا کوئی خالہ جی کا گھر تھا۔

مارکوپولو کو تو یہ اعزاز حاصل ہوا ناکہ وہ قبلائی خان کا ہر دل عزیز بندہ (Yuanchina)منگولیا تک گیا۔ اس نے دیوار کا ذکر بھی کیا۔اس افریقی شہرہ آفاق سیاح ابن بطوطہ کا حوالہ بھی تو بڑا اہم ہے کہ Garin Menziesکی کتاب میں اِس کا ذکر کھل کر ہوا۔چینی نقشہ جو غالباً 1421سال کا ہے بتاتا ہے کہ یہ چینیوں نے دریافت کیا۔
71سال قبل کولمبس کہ جب وہ کوسوں کا سفر کرکے Yuanشہنشایت کے دور

میں یہاں آیا تھا۔ یہی لگ بھگ1346 میں۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے دیوار چین کے بارے چین آنے سے قبل سن رکھا تھا۔اس نے اسے الہامی کتاب قرآن کے ساتھ بھی جوڑ دیا تھا۔ یاجوج ماجوج کا بھی ذکر کیا۔

اب یہ اعزاز بھی توچینی دھکّے شاہی سے اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں کہ امریکی خلابازوں کی آنکھوں میں زمین سے نظر آنے والی کوئی شے چُبھی تھی تو وہ یہی دیوار چین ہی تھی ۔ہماری عظیم دیوار۔
اب نیل آرمسٹرانگ Neil Armstrongلاکھ کہیں کہ اُنہیں تو کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی ۔ چین بھلا اس پر یقین کرتا ہے ۔ اس کے حسابوں ایسا بیانیہ نری سازش ہے اوراس سے چین کی تذلیل مقصود ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سچی بات ہے اب اس کا کیا علاج کہ ان کے اپنے پہلے خلا باز YangLiwei نے2003 میں یہ انکشاف کر دیا تھا کہ اس نے خلا سے کوئی دیوار شوار نہیں دیکھی ۔
یہاں تو خیر سے مسلمان بھی چینیوں سے پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے اپنی اذان کو سرمایہ بنایا اور فخر کیا کہ چاند پر سنی جانے والی آواز اذان کی تھی۔
Toboggan کا تجربہ بھی نہ کرنا گویا خود کو بُہت سے رنگوں سے محروم کرنے کے مترادف تھا ۔اور وہ میں نے کیا۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply