فیلو جوڈیئس/مبشر حسن

فیلو جوڈیئس کی پیدائش ہوئی 20 قبل مسیح (اندازاً) اور وفات ہوئی 50 عیسوی(اندازاً)۔ یونان (سکندریہ) کا یہ رہنے والا تھا اور اس کا اہم کام مذہبی فلسفہ ہے
فیلو جوڈیئس عرف فیلو آف سکندریہ یہودوی م ہیلینیائی فلسفی تھا۔ اگر چہ اسے اپنے دور کا عظیم ترین یہودی فلسفی قرار دیا جاتا ہے لیکن اس نے یونانی فلسفہ کو اس حد تک بنیاد بنایا کہ یونانی فلسفی ہی کہلانے کا حق دار بنتا ہے۔ اس نے مختلف مآخذوں سے مستعار لیے ہوئے عناصر کو ایک اچھوتا امتزاج دیا وہ غالباً اپنے ہم عصر پال اور یوحنا کی انجیل کے مصنفین پر بھی اثر انداز ہوا۔ فیلو کی سب سے بڑی اہمیت عیسائیت کی فلسفیانہ اور الہیاتی بنیادوں کو ترقی دینے میں ہے ۔کلیسیا نے فیلو کی تحریروں کو محفوظ رکھا لیکن یہودی روایت کو اس کی فکر میں کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ایچ اے وولفسن کے بقول فیلو مذہبی فلسفہ کا بانی تھا۔
فیلو نے یونانی فلسفہ اور ثقافت کا بغور مطالعہ کیا۔ وہ افلاطون کو بہت احترام کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اس کے فلسفہ نے معاصر افلاطونیت کی نمائندگی کی جس میں رواقیت کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔ فیلو کی زندگی کے متعلق تاریخ میں بہت کم معلومات ملتی ہیں۔ اس نے سکندریہ میں زندگی گزاری جہاں اس وقت تقریبا دس لاکھ لوگ رہتے تھے جن میں یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی ( فلسطین سے باہر بھی مقیم تھی۔ اس کا تعلق ایک امیر اورممتاز گھرانے سے تھا۔ وہ اپنی برادری کے معاملات میں ملوث رہا جس کے باعث فکری زندگی میں تعطل پیدا ہوتا رہا۔
اسے یہودی وفد کا سر براہ بنا کر 40-39ء میں روم بھیجا گیا۔
فیلوعبرانی اسطورہ کی تفسیر کرنے کے لیے اپنا تشبیہاتی طریقہ کار استعمال کرتا ہے۔ اس کے فلسفہ کی بنیاد روحانی زندگی کو دنیاوی مسائل سے ممیز کر نے میں ہے۔ فیلو نے مادی دنیا اور طبعی جسم کو بہ نظر تحقیر دیکھا۔ افلاطون کی طرح اس کے لیے بھی جسم’’ایک شرانگیز اور مردہ چیز‘‘ تھا۔ فطرتاً برا اور روح کے خلاف سازش کرنے والا۔ لیکن یہ لازمی برائی تھی چنانچہ فیلو زندگی سے مکمل اجتناب کی حمایت نہیں کرتا۔ اس کے برعکس وہ سب سے پہلے انسانوں کی جانب عملی فرائض پورے کرنے اور دنیاوی املاک کو قابل تعریف کاموں میں استعمال کر نے کی بات کرتا ہے۔ اس طرح اس کے خیال میں مسرت ناگزیر اور دولت مفید ہے لیکن ایک
پا ک باز شخص کے لیے یہ کامل خیر نہیں۔ وہ یقین رکھتا تھا کہ انسانوں کو درجہ بدرجہ چیزوں کے مادی پہلو سے اجتناب کرنا چاہیے۔ فلسفیوں جیسے کچھ لوگ اپنے ذہنوں کو ابدی حقیقوں پر مرکوز کر نے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اس کے نزدیک ’’حقیقی اور زندہ خدا کے علم‘‘ میں ہی انسان کی حتمی منزل مطلق مسرت تھی۔
فیلو نے فلسفے اور دانش کے درمیان تمیز کی۔ اس کے خیال میں فلسفہ ’انسانوں کے لیے عظیم ترین بھلائی ہے جسے وہ خدا کی جانب سے استدلال کے تحفے کے باعث حاصل کر تے ہیں۔ یہ دانش سے لگاؤ اور اعلی ترین علم حاصل کر نے کا وسیلہ ہے۔ جبکہ دانش تمام الوہی اور انسانی چیزوں کا علم ہے جو کہ توریت میں موجود ہے ۔ چنانچہ موسیٰ توریت کے مصنف کی حیثیت میں فلسفے کی معراج تک پہنچا اور براہ راست خدا سے علم سیکھا۔
اس کا اخلاقی عقیدہ اپنے جوہر میں رواقی (Stoic) ہے اور اس میں پاکیزگی حاصل کر نے کی مستعد کوشش شامل ہے۔ فیلو کی نظر میں انسان بنیادی طور پر مجہول ہے اور خدا ہی روح میں اعلیٰ اہلیتوں کے بیج بوتا ہے۔ لہٰذا ہم انسان خدا کے آلے ہیں۔اس کے باوجود انسان واحد ایسی مخلوق ہے جو عمل کی آزادی رکھتا ہے اگر چہ یہ آزادی ذہن کی حدود میں پابند ہے
فیلو نے یونانی ’’سائنسی‘‘ یا منطقی فلسفہ کو عبرانی صحائف کی خالصتاً اسطوریاتی آئیڈیالوجی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ۔ ’’سائنسی‘‘ نقطہء نظر کی بنیاد کے طور پر وہ “Timaeus” میں افلاطون کے بیان کردہ نظریۂ دنیا کو استعمال کرتا ہے ۔اس کا تخلیق کا ماڈل بھی افلاطون سے ماخوذ ہے لیکن اس کے خیال میں خدا بذات خود تخلیق کا وسیلہ نہیں بلکہ لوگوس “Logos” ہے۔ فیلو کے مطابق لوگوس’’ مرد خدا‘‘ یا خدا سا یہ ہے جسے ساری تخلیق کے لیے بطور آلہ اور نمونہ استعمال کیا گیا۔ لوگوس نے بے صفت بے شکل مادے کو چار ازلی عناصر میں تبدیل کیا۔ خدا نے اس جوہر سے ہر چیز تخلیق کی اور خود کسی کو بھی نہ چھوا کیونکہ بدہیئت اور بد وضع مادوں کو چھونا خدا کے شایان شان نہیں تھا۔
فیلو کے فلسفے پر سب سے زیادہ اثرات افلاطون ارسطو نوفیثا غورث پسندوں کلبوں اور رواقیوں کے تھے۔ اس کا فلسفیانہ نقطہء نظر اس حد تک افلاطونی ہے کہ سینٹ جیروم اور دیگر کلیسیائی فادرز نے اکثر یہ مقبول عام مقولہ بولا:’’ یا افلاطون نے فیلو کا رنگ اپنایا یا فیلو، افلاطون کے رنگ میں رنگا گیا۔‘‘ مگر فیلو نے افلاطون کی تھیوریز میں کافی ترامیم کیں۔
تکوینیات اور اخلاقیات میں وہ ارسطو کا مرہون منت تھا۔ اگر چہ فیلو نے اکثر جگہوں پر رواقیوں کی اصطلاحات سے کام لیا لیکن ان کے افکار پر تنقید بھی کرتا رہا۔
ماضی میں محققین نے فیلو کی اہمیت گھٹانے کے لیے اسے محض ایک دینیاتی عالم اور مبلغ کے طور پر پیش کیا، لیکن 20 ویں صدی کے وسط میں ایک امریکی محقق ایچ اے وولفسن نے بطورمفکر فیلو کا اچھوتا پن منوایا ۔ بالخصوص فیلو خدا کی ہستی کے قابل ادراک اور اس کے جوہر کے نا قابل ادراک ہونے کے درمیان فرق بیان کر نے والا پہلاشخص تھا۔ اپنے نظریہِ خدا میں بھی اس نے اپنی فلسفیانہ عمق دکھائی ۔ اس نے خدا کی باطنی محبت کی تفسیر میں بھی ندرتِ خیال کا مظاہرہ کیا ۔ وہ کہتا ہے کہ خدا نے انسان کو یہ محبت و دیعت کی اور انسان بھی خدا حبیا بن گیا۔ سیاسی تھیوری میں فیلو نے عموماً کہا کہ جمہوریت بہترین طرز حکومت ہے، لیکن جمہوریت سے اس کی مراد کوئی مخصوص حکومتی نظام نہیں بلکہ کسی بھی حکومت کے تحت با قاعدگی اور نظم و ضبط ہے جس میں تمام انسان قانون کے سامنے برابر ہیں۔
سکندریہ میں یہودیوں کے انحطاط کے ساتھ یہودیت پر فیلو کا اثر بھی ماند پڑ گیا۔ یونانی فلسفے نے 1200 سال بعد یہودی فکر پر موسس میمونائیڈز کے کام میں بھی دوبارہ اپنا اثر دکھایا۔ تاہم ابتدائی کلیسیائی فادرز ( سینٹ جان ) اور مسلم مفکرین پر فیلو کے فلسفے نے نہایت اہم اثرات مرتب کیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply