اُمِّ فیصل (5)-مرزا مدثر نواز

ہاجرہ کی ماں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی جب اس کی ماں کا انتقال ہوا۔ ہاجرہ کے نانا کا دوسری شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن ہاجرہ کی ماں نے بھائیوں کی خواہش کی وجہ سے اپنے باپ کو راضی کیا اور اس کی دوسری شادی کروا دی۔ رب کائنات نے ہاجرہ کے نانا کو دو بیٹوں عبداللہ اور عبدالرحمٰن سے نوازا اور یوں ہاجرہ کی ماں کی بھی خواہش پوری ہو گئی۔ اس دور میں آج کے مقابلے میں پیسے کی ریل پیل نہیں تھی اور غربت کے ڈیرے تھے۔ لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کی غرض سے دور دراز کے مشہور مدرسوں میں بھیج دیتے جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ کھانے پینے اور دوسری ضروریات کی فراہمی بھی مدرسہ کی ذمہ داری ہوتی۔ذرائع آمدورفت و مواصلات محدود ہونے کی وجہ سے بچے ایک عرصہ دراز تک اپنے گھروں سے دور رہتے اور اکثر اوقات کئی سال پر محیط اپنی تعلیم مکمل کر کے ہی گھروں کو لوٹتے۔ والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ رابطہ خط و کتابت یا آنے جانے والوں کے ذریعے ہوتا۔

عبداللہ نے جب ہوش سنبھالا تو اسے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کے قصبہ دیوبند بھیج دیا گیا جہاں سے واپسی پر اس نے ایبٹ آباد کے قریب اپنے گاؤں میں ہی درس و تدریس شروع کی اور وہیں اپنی ساری زندگی گزاری۔ دوسرے بھائی عبد الرّحمٰن نے حصول ِ تعلیم کے لیے ہندوستان کے شہر بریلی کا رخ کیا جہاں سے واپسی پر اس نے لاہور میں بیرون شیرانوالہ گیٹ کی مسجد اقصیٰ میں امامت و درس و تدریس شروع کی۔عبد الرّحمٰن کا شمار اپنے مکتبہ فکر کے بہت بڑے عالم و پیر کی فہرست میں ہوتا ہے اور انہوں نے اپنی ساری زندگی اسی مسجد میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے گزاری۔ ان کی رہائش مسجد سے ملحقہ دو کمروں کے ایک چھوٹے سے مکان میں تھی۔

عبد اللہ و عبدالرّحمٰن دونوں بھائی اپنی اکلوتی بہن اور اس کی اولاد سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے کیونکہ بہن نے انہیں اپنی گود میں کِھلایا۔ گھر سے نکالے جانے کے بعد ابراہیم نے اپنے سسرال میں قیام کیا اور کام کاج کی تلاش شروع کی لیکن ایک دیہی علاقہ میں مزدوری کے بہت ہی محدود مواقع تھے۔ خاندان میں سے کسی نے بھی ابراہیم کی خبر گیری کی نہ اس کے بھائیوں کو سمجھا کر اسے گھر واپس لے جانے کی کوشش کی۔ ایک بہت بڑا زمیندار اور ڈیرے کا مالک نہ چاہتے ہوئے بھی حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے سسرال میں قیام پر مجبور تھا۔
؎ صبح کے تخت نشین شام کو مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا

یہ دنیا دارالآزمائش ہے‘ یہاں رہتے ہوئے آفات‘ مصیبتوں‘ پریشانیوں‘ مسائل‘ لوگوں کے غیر مناسب سلوک و رویوّں سے سامنا نہ ہو‘ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہر قسم کے مسائل سے مبرّا و مثالی زندگی کا تصور تو صرف جنت میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ کہا جاتا ہے کہ خالق کائنات سے آزمائشوں‘ مصیبتوں‘ پریشانیوں سے احسن طریقے سے نبردآزما ہونے کی توفیق و دعا مانگنی چاہیے اور صبر و نماز سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ رات چاہے جتنی بھی طویل کیوں نہ ہو‘ صبح کا سورج ضرور طلوع ہوتا ہے۔”Don’t wish for less problems, wish for more skills”۔قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ ”ترجمہ: اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے‘ دشمن کے ڈر سے‘ بھوک پیاس سے‘ مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے‘ البقرہ۔155“

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply