بیاد صحبتِ نازک خیالاں/عامر حسینی

ٹھنڈی ہوا چل پڑی تھی ۔ ایسے میں فضا میں چھائی سموگ سے پیدا گھٹن کا احساس جاتا رہا تھا،میں گاندھی /جناح پارک کی دیوار کے مخالف سمت واقع مکان میں ملک احسن رضا سے مل رہا تھا ۔ بہت ساری باتیں ہوئیں ۔ احسن روزنامہ بیٹھک ملتان کے صحافتی معیار کی تعریف پہ تعریف کیے جاتے تھے اور میں ایک منجھے ہوئے انگریزی صحافت کی دنیا میں اپنا منفرد مقام رکھنے والے تجربہ کار جہاں دیدہ صحافی کی تعریف سے خوش ہورہا تھا۔

میرے پہلو میں سون ایرک لائیڈ مین کی کتاب “پانے کو سارا جہان: کارل مارکس کی زندگی اور اُس کا کام” پڑی تھی، جسے میں بار بار یونہی تھپتھپاتا اور اُس کے لمس سے ایک نئی سرشاری کا احساس ہوتا ۔

لاہور کی صحافتی برادری میں موقع  پرستوں کے آئمہ کی کمی نہیں ہے اور ان میں سے ایک آئمۃ الکاذبین آج اپنے اہل خانہ کے ساتھ امریکہ پرواز کرگیا، وہ ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر کی حیثیت سے 12 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پاتا رہا اور اُس کی ادارت کا خلاصہ اگر کریں تو وہ فقط سلطنت شریفیہ کے چھوٹے میاں کے قصیدے لکھنا اور انھیں سیاست کا مدار المہام ثابت کرنا رہا ۔ وہ عُرفِ عام میں ایک بڑا پھنّے خان ایڈیٹر تھا تو کس کی مجال تھی کہ کوئی اُس کی صحافت کے صحافت ہونے پر سوال کھڑا کرسکے، سو  وہ جھوٹ کو سچ بناکر پیش کرتا رہا ۔ اُس نے اپنے اخبار کے مالکان کی خوشنودی کے لیے درجنوں عامل صحافیوں کو بے روزگار کرنے میں دیر نہ لگائی ۔ اُس کی ادارت کے زمانے میں اخبار کا ادارتی صفحہ اکثر باپ ۔ بیٹے کے اوپر نیچے مضامین سے ہمارا منہ چڑا رہا ہوتا ۔ اُس نے ایک مضمون یاد کررکھا تھا اور وہ تھا:
My His highness Master is Shahbaz Sharif the Khadim-e-Punjab
زیر بحث موضوع کوئی ہو، مسئلہ کیسا ہی کیوں نا   ہو اُس میں خادمِ پنجاب کا تذکرہ لازم و ملزوم تھا۔

اُس نے لاہور ایڈیشن کی ادارت سنبھالنے کے بعد سے پالیسی یہ اختیار کی ہوئی تھی کہ آسمان ہی کیوں نا ٹوٹ پڑے پی پی پی کی مرکزی قیادت کو ایک یا دو کالمی اندرون صفحات میں جگہ دینی ہے اور بعد ازا‍ں وہ وہاں بھی جگہ دینا نہیں چاہتا تھا ۔ اُس کے سیٹھ ایک مرد اور ایک عورت تھے جنھیں رہ رہ کر یہ بات یاد آتی تھی کہ سیٹھ مرد کے باپ اور سیٹھ عورت کے سُسر کی درباری سیاست کا زیڈ اے بھٹو نے بینڈ بجادیا تھا اور لیاری سے اُس کی سیاست کا قلع قمع کردیا تھا ۔ اس لیے ان دنوں اُن کی اخباری پالیسی یہ تھی کہ زیڈ اے بھٹو کے داماد کو راکھشش بناکر پیش کیا جائے ۔

اُس ایڈیٹر کا باپ انسانی حقوق کا دیوتا تھا اور سابق کمیونسٹ تھا-فرانسیسی ادیب و نقاد سیمنت بو کا کہنا تھا کہ کمیونسٹ سے سابق کیمونسٹ ہونا بہت بڑی نحوست ہوا کرتی ہے ۔ اب اُس سابق کمیونسٹ کی نظر میں انسانوں کے بنیادی حقوق کا اگر کوئی نگہباں دیوتا سمان تھا تو وہ انکل سام تھا اور پاکستان میں اینٹی اسٹبلشمنٹ لبرل سیاست کی اگر کوئی مجسم شکل ہے تو وہ میاں نواز شریف ہے ۔ اُسے مریم نواز میں ایک دوسری بے نظیر کا جنم ہوتے لگ رہا تھا ۔

اپنی سوچ کو فروختنی بنانے اور اُسے ضیاء الحق کی بدروح نواَز شریف کے پاس گروی رکھ دینے کی مہارت سے وہ مالا مال تھا،اور بیٹا باپ سے بھی دو ہاتھ آگے تھا اور اُس نے جاتی امرا رائے ونڈ کے مالک کے سامنے طویل سجدہ ریزی میں باقی سب کی سجدہ ریزی کے ریکارڈ توڑ ڈالے تھے ۔ یہ سب کچھ کرکے بھی وہ صحافت کا “معتبر آدمی” مانا جاتا ہے ۔
لاہور کی فضا بڑی بے اعتباری اور بے یقینی سی ہوگئی ہے لیکن اس فضا میں کچھ بااعتباروں کا دَم غنیمت ہے ۔

میں لاہور کے گلی کوچوں میں تاریک راہوں میں مارے جانے والے پانچ سو کے قریب ایسے سیاسی کارکنوں کی لاشوں کی پرچھائیوں کو آج بھی چلتے پھرتے دیکھتا ہوں، مجھے اُن کی سسکیاں سُنائی دیتی ہیں اور اُن کے اپنے ہی خون میں نہائے چہرے سوال کرتے نظر آتے ہیں۔۔
کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے

مجھے ایلس فیض ماڈل ٹاؤن سے سائیکل پر پاکستان ٹائمز کے دفتر کی طرف جاتی دکھائی دیتی ہیں اور میں ایک نوجوان رکشہ ڈرائیور کے ساتھ لٹن روڈ سے فیروزپور روڈ اور وہاں سے وفاقی کالونی کی سڑک پر سفر کرتا ای بلاک کے مکان نمبر 600 پر پہنچ جاتا ہوں اور باہر نکل کر نوجوان جیالوجسٹ زوہیب حسن بخاری میرا استقبال کرتا ہے ۔ لاہور شہر کو بے اعتباری کے موسم میں اعتبار کے قابل بنائے رکھنے کی کوشش میں مصروف تین آدمیوں کو اندر ڈرائنگ روم میں بیٹھا دیکھ لیتا ہوں ۔

ان میں انصاف کا طلبگار سابق جج ہے جس نے سوشل میڈیا پر میڈیا کے دلالوں کو ننگا کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور اس میں وہ بہت کامیاب جارہا ہے ۔

دوسرا ایک ایسا صحافی /کالم نگار ہے جس کی تحریریں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا شفاف آئینہ ہیں اور وہ سیاسی تاریخ کو اتنی دیانت داری سے بیان کرتا چلا جاتا ہے کہ اُسے اس کی بہت بڑی قیمت چُکانا پڑی ہے ۔ لیکن اس پر اُسے اپنی ایمانداری پر نہ تو کوئی پچھتاوا ہے اور نہ ہی کوئی ارمان۔
میں اگر امیتابھ گوش ہوا کرتا تو
The Multan Chromosome
ناول لکھ کر دوسرے شخص کو خراج تحسین پیش کرتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ صحبت ‘صحبت نازک خیالاں’ ہے ۔ اور میں یہاں اُن کی نازک خیال آرائی کا براہ راست مشاہدہ کررہا ہوں ۔
رات آہستہ آہستہ گزرتی جاتی تھی اور ہم سب گفتگو میں اپنا اپنا حصہ ڈال چُکے تھے ۔ پہلے وہ تین رخصت ہوئے اور پھر میں وہاں سے چلا آیا ۔
دا ملتان کروموسوم ( حیدر جاوید سید)، معتوب جج شرافت علی رانا اور معتوب جیالا راؤ عابد سے سوال ہوتا ہے کہ اگر مریم نواز انھیں اپنی سوشل میڈیا کے بیج دے تو کیا یہ قبول کرلیں گے؟ دا ملتان کروموسوم فوراً کہہ اٹھتا ہے: “اس سے اچھا ہے ہم یزید وقت کے ہاتھوں پر بیعت کرلیں ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply