عمران خان کیوں نہیں؟/ڈاکٹر اختر علی سیّد

عمران خان کے حامی اپنے نظریات اور خیالات کے اظہار میں جو شدت رکھتے ہیں اس سے ہم سب واقف ہیں۔ میں وقتاً فوقتاً اس شدت کو جانچنے کے لیے فیس بک پر ایک آدھ جملہ لکھ کر صرف یہ دیکھتا ہوں کہ اب تحریک انصاف کے دوست کیا اور کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ ان دوستوں کی ہر پوسٹ نواز شریف اور آصف زرداری کی مبینہ کرپشن کی داستانیں بیان کر رہی ہوتی ہے۔ فرصت میسر ہو تو ان پر کیے گئے تبصرے بھی پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ دیگر سیاستدانوں کے حامی بھی کچھ نہ کچھ ضرور کہتے نظر آتے ہیں مگر ان تبصروں میں ایمان کی وہ شدت نہیں ہوتی جو عمران خان کے حامیوں میں آپ کو نظر آتی ہے۔ عمران خان کے حامی نہ صرف متشدد ہیں بلکہ اظہار رائے میں بلند آہنگ بھی ہیں ۔ وہ زیادہ اور اونچی آواز میں بولتے ہیں۔ اس لئے ان کی موجودگی ان کی تعداد سے کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہوگا کہ کوئی صاحب جن سے آپ کی صاحب سلامت بھی نہیں ہے وہ صرف فیس بک پر آپ کی فرینڈز لسٹ کا حصّہ ہیں وہ عمران خان پر ہونے والی ہلکی سی تنقید کے جواب میں ایک بہت بھاری گالی سے نواز دیں گے۔ یہ کم ہی ہوا ہے کہ تحریک انصاف کے کسی دوست نے سنجیدگی سے یہ سوال پوچھا ہو کہ  عمران خان کے لیے آپ کی ناپسندیدگی کا سبب کیا ہے؟۔ بھائیوں جیسے فواد اسلم صاحب نے چند دن پہلے یہ سوال پوچھا تو میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے استفسار کا تفصیل سے جواب دینے کی کوشش کروں گا۔

پہلی گزارش تو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں متحرک کرداروں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جسے مکمل حمایت کا حقدار سمجھا جائے۔ یہ سب انسان ہیں ان سب نے بے تحاشا  غلطیاں کی ہیں۔ ان میں سے کچھ غلطیاں کر کے اور ان سے سیکھ کر آگے بڑھ گئے اور دوبارہ ان غلطیوں کو دہرانے سے یہ اب پرہیز کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ کچھ نے غلطیوں کا ادراک صرف ذاتی نقصان کے بعد کیا مگر پھر بھی ان غلطیوں کو دہرانے سے احتراز نہیں برتا۔ ہر ملک کا سیاستدان مختلف غلطیاں کرتا ہے پاکستان کے سیاستدانوں کی غلطیاں پاکستان ہی کے تناظر میں دیکھی اور سمجھی جانی چاہئیں۔ پاکستانی سیاست دان کی غلطیوں کا موازنہ کسی اور ملک کے سیاستدانوں سے ممکن نہیں ہے کیونکہ ہر ملک میں سیاستدان کو ایک مختلف صورتحال اور مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے سیاستدان کی سب سے بڑی غلطی کیا ہے؟
پاکستان کے سیاستدان کی سب سے بڑی غلطی ملک کے پاور سنٹر کے ساتھ اس طرح کے اشتراک عمل پر ایسی آمادگی ہے جس میں وہ اس کے ساتھ مل کر ملک کے سیاسی عمل کے انقطاع کا سبب بن جائے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان کا پاور سینٹر بھی معاملات پر پورا کنٹرول چاہتا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان کے پاور سنٹر کے لیے بھی ضروری تھا کہ وہ اپنے کنٹرول کے لیے عوام کو جواز فراہم کرے۔ اور یہ جواز دنیا بھر میں ایک مخصوص ڈسکورس کے ذریعے سے فراہم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں پاور سنٹر کی سب سے اہم کارگزاری اس مخصوص ڈسکورس کا تسلط ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ incitement to discourse فرانسیسی فلسفی مشل فوکو کی اصطلاح ہے۔ مجھے اس اصطلاح کی ایک سادہ اور عام فہم تشریح اور اس کے ایک مختلف ترجمے کی اجازت دیجئے۔ دنیا بھر کے پاور سینٹر اپنی قوت میں استحکام اور اس کے مکمل نفوذ کے لئے اپنا ایک ڈسکورس تشکیل دیتے ہیں۔ یہ ڈسکورس پاور سنٹر سے جڑے دانشور، صحافی اور مذہبی علما ایک ایسے “حق” کے طور پر بیان کرتے ہیں جس پر تنقید اور اختلاف تو کجا ان پر سوال اور شک بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس ڈسکورس کو ایک تسلیم شدہ حقیقت اور حق کے طور پر مانا اور منوایا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاور سینٹر  کو بھی اس ضمن میں کوئی استثناء نہیں ہے۔ اس پاور سینٹر نے بھی اپنا ایک ڈسکورس وضع کیا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف ملک پر اپنی حاکمیت اور غیر قانونی تسلط کے لیے جواز فراہم کرنا تھا۔
اگر آپ اس ڈسکورس کا جائزہ لیں تو اس کی تین بڑی جہتیں آپ باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔

1- پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اس کی بقا صرف اور صرف ایک مذہبی ریاست بننے ہی میں ہے۔

2-پاکستان چاروں طرف سے خطرات میں گِھرا ہوا ہے اور ان خطرات سے نمٹنے کے لئے اس کو ایک مضبوط، غیر متنازع اور جدید آلاتِ حرب سے لیس فوج چاہیے۔

3- پاکستان کے سیاستدان کرپٹ، غدار اور نااہل ہیں۔ ریاستی امور چلانے کے لیے جن پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔

نفسیات کا طالب علم تاریخ دان نہیں ہوتا تاہم یہ ضرور کہہ سکتا ہے کہ  یہ تینوں باتیں ایک عام پاکستانی کے ذہن میں اس درجہ راسخ ہوچکی ہیں کہ اب ہونے والی تمام بحث اور گفتگو کی تہہ میں ان کی موجودگی کو کوئی بھی با آسانی دیکھ سکتا ہے۔ اس ڈسکورس کی نشرواشاعت میں پاور سنٹر سے جڑے صحافیوں اور مذہبی علما نے گزشتہ کئی دہائیوں میں بقدر جثہ اور بقدر جبہ اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔

پاکستان میں آرگینک یا عوامی دانشور نام کی کوئی مخلوق نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ شاعر، ادیب اور صحافی دانشور کا کردار ادا کر سکتے تھے مگر سوشل سائنس سے ان کی عدم واقفیت نے انھیں کبھی بھی یہ کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہونے دیا۔ اس لیے پاکستان کا دانشور پاور سنٹر کا آلہ کار اس طرح نہیں بن سکا جیسے کہ صحافی اور مذہبی علما۔۔

اب پاؤر سنٹر کے ڈسکورس کی بیان کردہ تین جہتوں کو دیکھیے۔

پاور سینٹر کے مذہب پر اصرار نے ملک میں جمہوریت کو اس لیے ہمیشہ خطرے میں رکھا کیونکہ منتخب نمائندے عوامی فلاح سے زیادہ مذہبی حوالوں سے صحیح اور غلط کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ریاست کے لیے کسی مذہبی گروہ کے کفر اور اسلام کا فیصلہ اس گروہ کی ملک میں بحفاظت زندگی سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔یعنی ریاست ایک عام شہری کی زندگی سے زیادہ اس کے ایمان کے بارے میں فکر مند ہے۔ پاور سینٹر کے اس ڈسکورس میں مذہبی علمانے اپنے مفاد کو بہت اچھی طرح دیکھا اور اس کے پھیلاؤ میں اپنا موثر کردار ادا کیا۔۔ ریاست اور مذہب کے کردار کے حوالے سے ایسی ایسی اساطیر گھڑی گئیں، جن کو سن کر ایک عام آدمی کے لیے مذہب کے اس کردار پر شک کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ مثلاً ا سرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار اس لئے نہیں کرنا کہ وہ ایک غاصب ریاست ہے اور دنیا بھر کے باشعور اور باضمیر شہری فلسطینیوں پر اسرائیل کے قبضے اور ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان میں ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کی وجوہات اساطیری بیان کی جاتی ہیں۔ ہمارے مذہبی اساطیر میں ایک موعودہ وقت پر یہ پاکستانی افواج ہونگی جو ریاست اسرائیل پر حملہ کر کے اسے نیست و نابود کر دیں گی۔ اگر آج اسرائیل کو تسلیم کر لیا گیا تو اس وقت قانوناً اس پر حملہ نہیں کیا جاسکے گا۔۔ پاکستان کے قیام کے مذہبی اسباب بیان کرتے ہوئے آپ نے یہ جملہ بھی بارہا سنا ہوگا کہ اس کو اللہ نے بنایا تھا اور آج تک اسی وجہ سے قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔ (یہ کہتے ہوئے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ جس پاکستان کو اللہ نے بنایا تھا وہ پاکستان 1971 میں دو لخت ہو چکا) اس خیال کے استحکام کے لیے بھی اساطیری حوالے درکار تھے۔ کچھ بزرگوں کے خواب اور قائداعظم کی خواب گاہ میں جناب رسالتمآب کی تشریف آوری جیسے واقعات آپ نے بھی سنے ہوں گے۔۔ اس خیال کے حامل افراد آنے والے وقتوں میں دنیا میں غلبہ اسلام کے جو خواب دیکھتے ہیں وہ غلبہ بنیادی طور پر کوئی علمی یا اقتصادی غلبہ نہیں ہے بلکہ وہ حقیقت میں عسکری غلبہ ہے۔ اب اس ڈسکورس کی تہہ میں چھپے ہوئے پاور سینٹر اور مذہبی طبقے کے مفادات کو باہم جڑا ہوا دیکھیے اور پھر   اس حقیقت کی طرف توجہ فرمائیے کہ ہمارے تمام تر ہیرو مذہبی زعماء یا پھر سپہ سالار ہی کیوں ہوتے ہیں؟

اس تحریر کے اختصار کے پیش نظر اس سرسری وضاحت پر اکتفا فرمائیے اور چلیے پاور سینٹر کے ڈسکورس کی دوسری جہت کی جانب۔۔۔ اور وہ ہے ریاست پاکستان کو لاحق خطرات کا ڈسکورس۔ اگر آپ مذہبی لوگوں کی اساطیر پر یقین نہیں رکھتے تب بھی کیا آپ ان خطرات سے بے نیاز ہو سکتے ہیں جو پہلے ہندوستان اور بعد میں طالبان کی جانب سے ریاست اور شہریوں کو لاحق تھے اور آج تک ہیں۔ ۔ ہندوستان کے ساتھ تو اپنی شہ رگ پر فیصلہ ہوچکا۔ جہاد کشمیر پراجیکٹ بند کردیا گیا ہے۔ اس پراجیکٹ کے شراکت دار تو آپ کو یاد ہوں گے۔ دوسری طرف وہ افغان طالبان ہوں یا پاکستانی طالبان۔۔۔ دونوں پاکستان کے پاور سینٹرز کی اپنی تخلیق کردہ مشکلات ہیں جو ان کی نا عاقبت اندیشی اور کوتاہ بینی کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ یاد کیجیے  جب یہ دونوں گروہ اپنے تخلیق کے مراحل طے کر رہے تھے تو پاکستان کے پاور سینٹرز اور مذہبی لوگوں نے ان کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ ان گروہوں کی مدد کے لیے اگر یونیورسٹی آف نبراسکا میں جہادی مینویل لکھا گیا تو پاکستان میں ان کے لئے جہاد کی 14سو سال پرانی تاریخ کو تبدیل کر دیا گیا۔ اس کو میں پاور سنٹر کے ڈسکورس کا تسلط کہتا ہوں کہ جب چاہے نئی اساطیر تخلیق کی جا سکے اور جب چاہے پرانے مذہبی متن کو دوبارہ تحریر کیا جا سکے۔ ڈسکورس کو مسلط کرنے کے عمل میں مذہب کا استعمال اس لیے مفید اور موثر ثابت ہوتا ہے کیونکہ عوام مذہبی استدلال پر شک اور سوال سے پرہیز کرتے ہیں۔

ہم نے یہ طے کرلیا کہ اب ریاست مذہب کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی اور مذہب کی بقا اس کے غلبے میں چھپی ہے اور یہ غلبہ بغیر فوج کے ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا جس طرح مذہب کی حیثیت پر سوال ممکن نہیں ہے اسی طرح فوج کی افادیت پر شک صرف ریاست ہی نہیں بلکہ مذہب کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔۔۔ سیاستدان اگر اپنے فرائض سے مخلص ہو تو اس کے لیے مذہب اور فوج کے اس نظریاتی اور عملی اشتراک پر سوال اٹھانا لازمی اور ضروری ہو جاتا ہے۔ سیاستدان کے پاس صرف دو راستے ہیں یا تو وہ پاور سینٹر کا شراکت کار بنے یا پھر اپنی حیثیت پر اصرار کرے۔ شراکت داروں کی بابت تو آپ خوب جانتے ہیں ان کے نام پتے بتانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اپنی سیاسی حیثیت پر اصرار کرنے والے کیونکہ ریاست اور مذہب دونوں کے مجرم ٹھہرتے ہیں اس لیے یا تو ان کو راستے سے ہٹادیا جاتا۔۔ ان کا سیاسی کردار ختم کردیا جاتا ہے، یا پھر عوام میں ان کی مقبولیت پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں عوامی مقبولیت ختم کرنے کا سب سے آزمودہ اور موثر طریقہ ان کی کرپشن کی مبینہ کہانیاں صحافیوں کے ذریعے پھیلانا رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں یہ طریقہ نیا نہیں ہے اس کا استعمال محترمہ فاطمہ جناح سے شروع ہوا تھا جو آج کی تاریخ تک جاری و ساری ہے۔

اگر آپ ملک میں پاور سنٹر کے اس ڈسکورس کو دیکھ سکتے ہیں تو پھر آپ اس سے جڑے کرداروں کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ غضب کرپشن کی عجب داستان سنانے والے صحافی بھی آپ کو نظر آئیں گے اور اپنے علاوہ دیگر تمام کو چور اور ڈاکو بلانے والے سیاستدان بھی۔ اگر یہ ڈسکورس نظر میں رہے تو مختلف اوقات میں پاور سنٹر کی کارگزاری کے مختلف لیول اور مختلف اوقات میں اس کے تسلط کو دانستہ یا نادانستہ اپنی حمایت سے نوازنے والے لوگوں کو بھی آپ بخوبی دیکھ لیں گے۔

عمران خان پاکستان کی سیاست کے وہ کردار ہیں جو آج تک پاور سنٹر کے اس ڈسکورس کی تینوں جہتوں کے سب سے بڑے حامی اور مبلغ رہے ہیں۔ ریاست مدینہ پر ان کے دعاوی آپ کے سامنے ہیں۔ طالبان کے لئے ان کی غیر مشروط حمایت اور سیاست دانوں کی کرپشن پر ان کا اور ان کے حامیوں کا غیر متزلزل ایمان۔۔۔ سب آپ کے سامنے ہیں۔ ڈسکورس کے تسلط کے حوالے سے یہ بالکل وہی مقاصد ہیں جو پاور سینٹر ہمیشہ سے حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ عمران خان وہ واحد سیاستدان ہیں جو پاور سنٹر کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہونے کے باوجود آج بھی اعلانیہ اس کی حمایت کے متمنی ہیں۔ مذہب کے ساتھ ان کی وابستگی جس قدر مضبوط ہے اس کے ثبوت ان کی پوری زندگی پر بکھرے ہوئے ہیں۔ طالبان پر ان کے نظریات آج بھی وہی ہیں جو دس سال پہلے تھے۔ اپنے اور اپنے ساتھیوں پر لگنے والے مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کے باوجود ان کی “چور” اور “ڈاکو” کی گردان پر آج تک کوئی اثر نہیں پڑا۔

اس خاکسار کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاور سنٹر کے ساتھ اس طرح کے عمل پر کون، کب اور کس قیمت پر کوئی آمادہ ہوتا ہے۔ عمران خان کے حوالے سے اس کا جواب سیدھا ہے کہ وہ پاور سینٹر کے ساتھ آج بھی اور ہر قیمت پر پارٹنرشپ کے لیے تیار ہیں اور یہی ایک سیاستدان کے طور پر ان کے لئے ناپسندیدگی کا سب سے بڑا سبب ہے۔

پاور سینٹر کی کارگزاریوں کا ایک اور تشویشناک پہلو سامنے رکھیے۔ عمران خان کا سیاست میں ورود پاور سنٹر کے ایما پر ہوا تھا۔ ان کا اولین امیج (صداقت، دیانت اور عوامی خدمت کے دیوتا) بھی پاور سنٹر نے بنایا تھا۔ 2011 کے بعد پاور سینٹر نے اپنی کاوش کو نئی صورت اور نئی توانائی فراہم کی تھی جس میں عمران خان کا ایک اساطیری امیج بھی اجاگر کرنا شامل تھا۔ میں نے پہلی مرتبہ اس کوشش کو 2017 میں محسوس کیا تھا اور اسی وقت اس پر لکھا بھی تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ان کو صداقت اور دیانت کے ایک ایسے پیکر کے طور پر دکھایا جا چکا ہے جس کے ہر مخالف کے لیے بددیانت اور کرپٹ ہونا لازم ٹھہرادیا گیا ہے۔ ملک کے تمام تر مسائل کی وجہ ان کے سیاسی مخالفین کو قرار دیا جا چکا ہے۔ ۔۔ ان کے امیج کو مذہبی رنگ بھی دے دیا گیا ہے ۔ ان کو حضرت یوسف سے (معاذاللہ) زیادہ حسین ۔۔۔ ان کے صاحبزادے کے نام کے حوالے سے ان کی کنیت ابو القاسم قرار دے کر ممکنہ طور پر ان کو امام مہدی بھی کہا جا چکا ہے۔ گو یہ باتیں قبولیت عامہ حاصل نہیں کر سکیں تاہم یہ تصورات ان کے حامیوں کے ذہن اور ذہنی حالت کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔ جس طرح ان کے حامی ان کے خلاف بات سننے کا حوصلہ کھو چکے ہیں اور وہ عمران خان کے مخالفین سے قطع تعلق کرتے چلے جارہے ہیں۔ ان کے جذبات کی شدت اور عدم برداشت وہ پہلو ہیں جو ڈسکورس کے تسلط اور شدت کی نشاندہی کے لیے بہت کافی ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ جب صداقت اور دیانت کا یہ بت ٹوٹے گا تو اس کو سجدہ کرنے والوں پر کیا گزرے گی۔؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بات تو میں اور آپ سمجھتے ہیں کہ عمران خان آج پاور سینٹر کے لیے ناقابل اعتماد ثابت ہو چکے ہیں۔ پاور سینٹر ان کی حمایت سے تائب ہو چکا مگر عمران خان آج بھی پاور سینٹر کی حمایت کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے بیٹھے ہیں۔ پاور سنٹر تو کل پھر کسی اور کو عمران خان بنا کر لے آئے گا۔۔ تشویش کی بات ہمارے لوگوں کا وہ رجحان ہے جس کے زیر اثر وہ پاور سینٹر کے ہر ڈسکورس کو آئے روز اپنے ایمان اور ایقان سے نوازتے چلے آئے ہیں۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply