یک خلوی جانداروں کے اندر کی ننھی دنیائیں۔۔وہاراامباکر،

 اگر آپ نے بائیولوجی پڑھی ہے تو خلیے کی تصویر دیکھی ہو گی۔ بیضوی خلیے کے اندر دائرے اور آڑی ترچھی لکیریں بنی ہوں گی۔ اور آپ کو کہا گیا ہو گا کہ ان کو دیکھ کر شناخت کریں کہ یہ کیا ہیں۔ آپ نے ان کے ساتھ nucleus یا vesicle وغیرہ لکھ دیا ہو گا۔

یہ مفید مشق ہے لیکن یہ خلیے کو جامد اور یکساں قسم کی شے کے طور پر پیش کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خلیہ اسی قسم کی اشیا سے بھرا ہوا ہے لیکن مختلف خلیات کی زندگی اور صورت اپنی اپنی اور بڑی منفرد ہوتی ہے۔
ہمارے جیسے کثیر خلوی جانداروں کے جسم اسی اصول کے تحت بنے ہیں۔ ان میں قسم قسم کے خلیات ہیں جن میں سے ہر ایک کی ذمے داری اپنا خاص کام کرنا ہے۔ لیکن یک خلوی یوکارئیوٹ میں یہ تنوع اس سے بھی زیادہ ہے۔
یہ وہ جاندار ہیں جنہوں نے اپنا پورا طرزِ زندگی ایک ہی خلیے میں سمو لیا ہے۔ اور ایسے جاندار ہر طرح کے روپ میں پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کے اندرونی حصے تو کم و بیش وہی رہتے ہیں لیکن ان سے بننے والے جاندار بہت فرق قسم کے ہوتے ہیں۔
مثلاً، امیبا کی کوئی خاص شکل نہیں ہوتی ہے جبکہ ڈائی ایٹم کی بڑی غیرلچکدار اور سخت۔ اپنے ماحول میں اپنی زندگیاں بسر کرنے والے ان جانداروں کی فزیولوجی اور زندگیاں بڑی دلکش ہیں۔ لیکن ان کے اندر کی دنیائیں؟ اگر ہم خلیے کو ایک ننھی دنیا کے طور پر تصور کریں تو اس کے اپنے اندر کی سوسائٹی کیمسٹری اور بائیولوجی سے بنی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا سب سے اہم کام اپنے سرحد کا تعین ہے۔ خلیے کے اندر کے مادے کو باہر سے الگ رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اتنی جگہ چھوڑ دینا کہ باہر سے ضروری اجزا اندر آ سکیں۔
یہ کام کرنے والا اہم حصہ پلازما ممبرین ہے۔ یہ fatty acid کی دہری تہہ ہے جو خلیے کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ کچھ چیزوں کو گزرنے دیتی ہے اور باقی کو روک لیتی ہے۔
لیکن کئی جانداروں کے لئے یہ ممبرین سرحد کے طور پر کافی نہیں۔ کچھ سیلیٹ، جیسا کہ پلاگوٹرکس کے پلازما ممبرین ایک بڑے سٹرکچر (pellicle) کے اندر محفوظ ہوتی ہے۔ یہ سٹرکچر اس جاندار کی شکل کا تعین کرتا ہے اور اس کے بالوں کو مضبوط جگہ دیتا ہے۔
کئی دوسرے جاندار (جیسا کہ سبز الجی پیڈاسٹرم) اپنے پلازما ممبرین کے باہر ایک دیوار بنا لیتے ہیں اور خلیہ اس دیوار کی حفاظت میں رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس باہری سرحد کے اندر کیا ہے؟ باقی سب کچھ۔ یہ زندگی کا شوربہ ہے۔ خوراک اور آرگینل سائٹوپلازم کی مائع یخنی میں تیرتے پھرتے ہیں۔ اور کسی اچھے شوربے کی طرح، اس میں ایک نازک توازن ہے۔ اگر آپ ایک مائع دنیا میں رہ رہے ہیں جس کے باہر پتلی سے جھلی آپ کو باہر کی دنیا سے الگ رکھے ہوئے ہے تو پانی اندر بھی آ سکتا ہے۔ تھوڑا سا پانی تو ٹھیک ہے لیکن اس کی زیادہ مقدار خطرناک ہو سکتی ہے۔ اگر پانی حد سے زیادہ ہو جائے تو جاندار پھٹ کر مر جائے گا۔ لیکن جاندار اس خطرے کا فعال طریقے سے مقابلہ کرتے ہیں۔
اگر آپ فرونٹونیا ورنالس کے کنارے کو دیکھیں تو اس خطرے سے مقابلے کا حل نظر آئے گا۔ اس میں “نہریں” بنی ہیں جو پانی کو ایک سِرے پر صاف سے علاقے میں لے کر جا رہی ہیں۔ یہ ایک contractile vacuole ہے۔ پانی اس میں بھرتا جاتا ہے اور جب یہ بھر جائے تو پچک کر مساموں کے ذریعے پانی کو خلیے سے باہر نکال دیتا ہے اور اندر کی دنیا کو متوازن کر دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم اس دنیا کے اندر مزید گہرائی میں جاتے ہیں۔ یہاں پر بڑی ایکٹویٹی جاری ہے جس میں سے سب کچھ ہمیں نظر نہیں آ رہا۔ اس ایکٹویٹی کو پاور دینے والی شے مائیٹوکونڈریا ہے۔ یہ بہت چھوٹے ہیں اور آسانی سے نظر نہیں آتے لیکن خلیے کے لئے یہ بجلی گھر ہیں۔ مائیٹوکونڈریا خوراک کی مدد سے یہ پاور پیدا کرتے ہیں اور ان یک خلوی جانداروں نے خوراک حاصل کرنے کے لئے بڑے اچھوتے طریقے ڈھونڈے ہیں۔
کئی جاندار اپنی خوراک خود تیار کرتے ہیں۔ بڑی ہوشیار کیمسٹری اور کلوروپلاسٹ کی مدد سے روشنی کو شوگر میں تبدیل کرتے ہیں۔ کلوروپلاسٹ کئی شکلوں اور سائز میں آتے ہیں، لیکن ان کو پہنچاننا آسان ہے۔ ان کی خاص خصوصیت ان کا سبز رنگ ہے۔ یہ روشنی جذب کرنے والے کلوروفل سے آتا ہے جو کلوروپلاسٹ کو طاقت دیتا ہے۔
لیکن بائیولوجی کو مستثنیات بہت پسند ہیں۔ ہمیں کلوروپلاسٹ میں سبز کے علاوہ دوسرے رنگوں کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ جیسا کہ سرخ الجی جس کی پگمنٹ اس کے کلوروپلاسٹ کو سرخ کر دیتی ہے۔
خیر، ان کا جو بھی رنگ ہو، یہ وہ جاندار ہیں کہ جب تک انہیں روشنی ملتی رہے، یہ اپنی اندرونی دنیا کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ لیکن کئی دوسرے جاندار ہیں جو اتنی محنت نہیں کرتے بلکہ اس کے لئے ایسے دوسرے جاندار ڈھونڈتے ہیں جن کو کھا لیں۔ اور اس طرح ان کی محنت کو چرا لیں۔ (اور اگر آپ کو ایسے جاندار پسند نہیں آئے تو یاد رکھیں کہ ہم بھی ایسے ہی ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو خوراک کو کسی طرح سے جسم کے اندر لے جانے کا طریقہ ڈھونڈنا ہے۔ کئی جانداروں میں ایسا دروازہ سسٹوم کہلاتا ہے۔ اور خوراک بنانے کے لئے یہ دروازہ کھول کر دوسرے جاندار کو چپکے سے نگل لیتے ہیں۔
لیکن صرف نگل لینا کافی نہیں۔ یہ پہلا سٹیپ ہے۔ جاندار کے جسم میں داخل ہونے کے بعد یہ اس خوراک کو کسی تحفے کی طرف ایک ممبرین میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ اس کے اندر ہاضمے والی انزائم ہے جو اس شکار کے جسم کے بخیے ادھیڑ دیں گی۔
پانی کی طرح ہی، خلیے کو یہ تمام ہضم شدہ جاندار ساری عمر اپنے جسم میں نہیں رکھنا۔ تو جو استعمال نہیں ہو سکا، وہ سائیٹوپروکٹ کے سوراخ کے ذریعے باہر نکال دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر کئی دوسرے خاص سپیشلائزڈ حصے جو ان جانداروں کو اپنے طرزِ زندگی کے چیلنج سے مقابلہ کرنے کی اہلیت دیتے ہیں۔ مثلاً، ہم لوکسوڈ کو دیکھتے ہیں۔ اسے پانی میں ایسی جگہ پر رہنا پسند ہے جہاں آکسیجن کم ہو۔ ایسے علاقے نیچے ہوتے ہیں، پانی کی گہرائی میں۔ اسے گہرائی میں جانا ہے۔ اور یہاں جانے کے لئے اسے پہچاننا ہے کہ “نیچے” کہاں ہے۔ یہ جاندار اس کو معلوم کرنے کے لئے Muller vesicles کو استعمال کرتا ہے۔  یہ سادہ سٹرکچر ہے جو گریویٹی ڈیٹکٹ کی صلاحیت دیتا ہے۔ اس میں ایک معدنیاتی granule ہے جو اس کے باریک مرتعش رویں سے بندھا ہے۔ جب گریویٹی اسے کھینچتی ہے تو یہ اس رویں کو کھینچتا ہے۔ یہ اندرونی قطب نما کا کام کرتا ہے اور لوکسوڈ کو بتاتا ہے کہ نیچے کی سمت کونسی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم ایک قدم پیچھے لے کر ان جانداروں کے اندر کی یہ ننھی دنیائیں دیکھیں، تو یہ احساس کتنا شاندار ہے کہ ان جانداروں نے یہ سب اپنے ری ایکشنز کی مدد سے اکٹھا کیا اور بنایا ہے۔ اس کے لئے ریسورس اکٹھے کئے ہیں اور الگ الگ حصے بنائے ہیں جو سب ملکر زبردست طریقے سے یہ نظام چلاتے ہیں۔  اس میں کیمسٹری اور پرابیبلٹی کے اتنے ٹکڑے ہیں جو ہم آہنگی کے ساتھ اس یک خلوی کی ننھی دنیا کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اسمبلی کے بیچ میں نیوکلئیس ہے۔ یہ گول عضو ہے جس میں ڈی این اے موجود ہے، جو جاندار کے وجود کی ترکیب رکھتا ہے۔ یوکارئیوٹ میں سے ہر ایک کے پاس یہ نیوکلئیس ہے لیکن سیلیٹ نے اس میں بھی اپنا الگ ڈیزائن ڈھونڈ لیا ہے۔ سیلیٹ میں ایک نہیں بلکہ دو قسم کے نیوکلئیس ہیں۔ بڑا نیوکلئیس میکرو نیوکلئیس کہلاتا ہے اور یہ روزمرہ کی جینیاتی ضروریات پورا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ جبکہ چھوٹے والے مائیکرونیوکلئیس ہیں۔ اور ان کی بنیادی ذمہ داری جنسی ری پروڈکشن کے وقت جینیاتی انفارمیشن کو اگلی نسل میں منتقل کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہم اپنا سفر نیوکلئیس پر ختم کرتے ہیں۔ کیونکہ یہی خلیے کا وہ حصہ ہے جو نہ صرف جاندار کی زندگی کو ممکن بناتا ہے بلکہ اپنی اولاد کو بھی یہی صلاحیت منتقل کرتا ہے اور ان دنیاوں کو برقرار اور آنے والی ایسی نت نئی دنیاوں کی تخلیق کا ذمہ دار ہے۔ اور یہ زندگی کا یہ حیرت انگیز ڈرامہ جاری رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ترجمہ اس ویڈیو کی کمٹری کا ہے۔ اگر دلچسپی کا موضوع ہے تو یہ ویڈیو ضرور دیکھیں
https://youtu.be/OTv-RQcckQc

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply