رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”تہاڈا کُتا ٹامی”؟۔۔عبدالرؤف حافظ

آج کل مناسب رہائشی مکان لینا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کےلئے کتنا مشکل ہے، اس   کا اندازہ پہلے اتنا نہیں تھا، گزشتہ دو ماہ سے جگہ جگہ خاک چھاننا پڑی، کہیں پر قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں تو کہیں اور مسائل۔ کئی نامی گرامی رہائشی منصوبوں کی زمینیں سالوں سے بنجر اور بے آباد پڑی ہیں، فائلوں کی قیمتیں کروڑوں تک پہنچ چکی ہیں مگر ڈویلپمنٹ اور قابلِ  رہائش ہونے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں۔ کئی جگہوں پر رہائشیوں نے سولر انرجی کے ذریعہ سے اپنی بجلی پر انحصار کرتے ہوئے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں کہ جب منظوری ہوگی تو سرکاری سہولیات میسر ہو جائیں گی۔

عموماً غیر قانونی رہائشی منصوبوں میں قیمت نسبتاً کم ہے مگر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے سے عدم تحفظ کی وجہ سے محتاط شخص ڈرتا ہے کہ کہیں کوئی نقصان ہی نہ ہوجائے۔ عموما ًغیر قانونی رہائشی منصوبے کسی طاقتور گروپ کے نام پر پیسے کما رہے ہوتے ہیں، وہ غیر قانونی ہوتے ہوئے بھی دھڑلے سے قومی جرائد میں اپنی تشہیری مہم چلا رہے ہوتے ہیں، اس کے لیے وہ سیاسی و عسکری شخصیات کا نام اور تصاویر استعمال کر رہے ہوتے ہیں، جبکہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی اسے صرف برائے نام نوٹسز کے ذریعہ   غیر قانونی کہنے پر اکتفا کر رہی ہوتی ہے۔ پُرزور تشہیری مہم میں اس کی حیثیت نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے اور یہ بھی علم نہیں کہ کب یہ اسٹیٹس غیر قانونی سے قانونی ہوجائے اور اس وقت قیمت عام بندے کی پہنچ  سے دور چلی جائے، بہتر ہے کہ ڈویلپمنٹ اتھارٹیز غیر قانونی اسٹیٹس کی وجہ بھی بتائے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں آیا سنگین ہیں یا معمولی نوعیت ہے۔

اس سب کے باوجود یہ سوالات اپنی جگہ ہیں کہ غیر قانونی منصوبے اپنی تشہیری مہم ملکی جرائد میں کس قانون کے تحت کر رہے ہوتے ہیں؟ اس ملک میں اپنا سامان بیچنے کے لیے کسی قسم کا اشتہار بھی میڈیا پر دیا جا سکتا ہے؟ نامی گرامی سیاسی و عسکری شخصیات ان منصوبوں میں کیوں شامل ہوتے ہیں ؟کیا سیاسی اخلاقیات اور قوانین میں اس کی گنجائش ہے کہ متعلقہ اتھارٹی کی طرف سے غیر قانونی قرار دیے جانے والے منصوبے کی تقریبات میں وہ شرکت کریں؟

یہی وہ وجوہات ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے مجرم سیاسی پشت پناہی کی بنیاد پر دندناتے پھرتے ہیں اور قانون کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔

موجودہ حکومت کی رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کالے دھن(Black money) کو سفید کرنے کی اجازت کی وجہ سے جو ظلم ہوا ہے وہ ایک الگ موضوع ہے، کئی جگہوں پر تقریباً چالیس سے پچاس فیصد تک قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

رئیل اسٹیٹ سیکٹر اس ملک میں ایک دندناتا منہ زور ہاتھی ہے اس کے سد باب کےلیے قوانین اور ادارتی سطح پر کیے جانے والے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس سیکٹر کو ریگولرائز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply