فکرومباحثہ کے چنداصول۔۔۔۔قیصر عباس فاطمی

فلسفے اور منطق کی پیچیدگیوں میں الجھے بغیربھی اگر سوچنے کے کچھ بنیادی اصول سیکھ لیے جائیں، تو جہا ں ہم خود فکری اغلاط سے بچ سکتے ہیں، وہاں بحث و مباحثہ کے دوران اپنے موقف کو مغبوط دلائل سے ثابت کرنے اور دوسروں کے دعوؤں اور دلائل کو بہتر طور پر سمجھنے کے بھی قابل بن سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک وسیع اور دقیق موضوع ہے۔ جس پر ہزاروں کتب لکھی گئی ہیں جو تمام باریکیوں کا احاطہ کرتی ہیں تاہم اس تحریر میں وہ اصول درج کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو روزمرہ کی فکری سرگرمیوں کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔

ہماری سوچ کی بنیاد مشاہدہ ہے، مشاہدہ سوالات کو جنم دیتا ہے اور سوالات ہی کسی موضوع پر رائے قائم کرنے ، خود قائل ہونے یا کسی دوسے کو قائل کرنے کے لیے دلائل  قائم کرنے کی بنیاد ہیں۔ جن موضوعات پر سوال نہیں اٹھائے جا سکتے، یا پھر سوال کی معقولیت ثابت نا ہو، اس پر کوئی گفتگو ہو سکتی ہے نا ہی سوچ بچار۔ لہذا دلائل پیش کرنے اور دلائل کو پرکھنے سے بھی پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ زیرِ مشاہدہ یا زیرِگفتگو موضوع پر اٹھائے جانے والے سوال “معقول” ہیں یا نہیں۔ مثلاً ہوا قابل مشاہدہ تو ہے مگر ہوا کا “قد” کتنا ہے؟ یہ سوال نامعقول ہے اس اعتبار سے مزید سوچ بچار اور گفتگو کی گنجائش نہیں  رہتی۔ دوسری طرف سوال نے کس بنیاد پر جنم لیا؟ مثلاً “عدم” پر کیے جانے والے سوالات “نامعقول” سمجھیں جائیں گے کیونکہ عدم قابل مشاہدہ نہیں۔ لہذا ہر قابل مشاہدہ شے پر کیا جانے والا سوال ضروری نہیں کہ وہ معقول بھی ہو، ہاں البتہ ہر سوال کی بنیاد کا قابل مشاہدہ ہونا ضروری ہے۔  لہذاضروری یے کہ تمام قابل مشاہدہ اور قابل ادراک اشیاء و موضوعات پر اٹھائے جا سکنے والے سوالات کے خدوخال، ہیئیت و حیثیت اور معںی واضح ہوں۔

دوسرا اہم مرحلہ دلائل اور ثبوت پیش کرنے کا ہے۔ دستیاب معلومات کی بنیاد پر اٹھائے گئے سوالات کے جوابات مہیا کرنا جو اغلاط سے پاک ہوں۔ تا کہ کوئی قابل قبول نتیجہ اخذ کیا جا سکے۔ اس کے لیے دلیل اور وجہ دلیل میں ربط قائم کرنا سب سے اہم ہے۔  جیسا کہ دوران گفتگو یا غوروفکر کے مرحلے میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا اور کارآمد طریقہ “کاز-ایفیکٹ” ہے۔ اردو میں  “چونکہ-اس لیے”، “اگر-تو” وغیرہ کی بنیاد پر کیے جانے والے استدلال اسی طریقہ کے تحت ہیں۔ اسی طرح اگر مفروضات کی بنیاد پر کوئی دلیل قائم کی جائے تو ربط کا تسلسل اور تعلق قائم رہنا ضروری ہے۔ یہاں کچھ مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

مثلاً، یہ کہا جائے کہ “چونکہ اکثر لوگ سگریٹ نوشی پسند نہیں کرتے، مگر ان کا سگریٹ نوشی پسند نا کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا لۃذا میں سگریٹ نوشی کر سکتاہوں”، سگریٹ نوشی کے حق میں ایک کمزور دلیل ہے۔ کیونکہ اس میں “وجہ دلیل” ناقص ہے۔ اب یہی دلیل اس طرح پیش کی جائے ۔ “چونکہ سگریٹ نوشی غیر قانونی نہیں تو میں سگریٹ نوشی کر سکتا ہوں اگرچہ بہت سے لوگ اس کو ناپسند ہی کیوں نا کرتے ہیں”۔ یہ دلیل قدرے بہتر نظر آئے گی۔ اب اگر غور کیا جائے تو سگریٹ نوشی کے غلط یا صحیح ہونے کی اصل وجہ کا تعین کرنا ضروری ہے۔ آیا کہ یہ عمل قانونی اعتبار سے جانچا جا رہا ہے یا اخلاقی؟ اگر اخلاقی تو دلیل اس طرح قائم ہو گی “چونکہ اکثر لوگ سگریٹ نوشی پسند نہیں کرتے، لۃذا میں سگریٹ نوشی نہیں کر سکتا” اور ااگر قانونی اعتبار سے دیکھیں تو یہی دلیل اس برح ہو گی “چونکہ سگریٹ نوشی غیر قانونی نہیں لہذا میں سگریٹ نوشی کر سکتا ہوں”۔ الغرض اسی عمل کو وجہ دلیل کی بنیاد پر مختلف نتائج تک لے جایا جا سکتا ہے۔

دلیل میں مزید دو چیزوں کی نشاندہی کرنا ضروی ہے، غیر متعلقہ وجہ دلیل کا الگ کر دینا، اور وجہ کے ناکافی ہونے کی وجہ سے دلیل قائم نا کرنا۔ مثلاً، اگر میں یہ کہوں کہ ڈسٹ بن میں پڑے دفتری کاغذات کو تلف کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اور کاغذات کو جلانا بہتر عمل نہیں۔ اگر کاغذات کو ریسائیکل کیا جائے تو اس سے ہم قدرتی ذرائع کو بہتر انداز میں دوبارہ استعمال کے قابل بنا سکتے ہیں۔ لہذا کاغذات کو ریسائکل کرنا چاہیے”۔ اس عبارت دو الگ الگ مدعے بیان ہوئے ہیں، جن کا ایک ہی نتیجہ نکالا گیا۔ یعنی، کاغذات کو تلف کرنا ایک الگ مدعا ہے، اور قدرتی ذرائع کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانا ایک الگ مدعا ہے۔ پہلے مدعے کا حل کسی بھی طرح کاغذات کو تلف کر دینا ہے۔ جبکہ دوسرے کا بہتر حل ریسائکل کرنا۔ ایک اور مثال، جو قدرے زیادہ آسان جہم ہے، وہ یہ ہے۔ “دفتری ملازمین کے لیے ضروری ہے کہ وہ موبائل باہر جمع کروایں، کیونکہ دفتری اوقات میں ان کے پاس موبائل استعمال کرنے کا وقت نہیں ہوتا اور موبائل کے استعمال سے دفتری کام حرج ہونے کا بھی اندیشہ ہے”۔ یہاں پر “موبائل باہر جمع کرانے کی وجہ دفتری کام میں حرج ہے” اس لیے دوسری وجہ کو الگ کر دینا ہو گا۔

اب دیکھتے ہیں دلیل قائم کرنے کے لیے ناکافی وجوہات۔ مثلاً کمرے میں بیٹھے ہوئے اگر باہر پانی کے ٹپکنے کی آواز آئے تواس بنیاد پر بارش برسنے کی دلیل قائم کر لینا۔ یا پھر بچے کو روتا دیکھ کر یہ دلیل قائم کرنا کہ اسے ضرور پیٹا گیا ہے۔ ایسی صورتوں میں دلیل ہمیشہ کمزور اور ناقص رہتی ہے۔ اس مرحلے پر یقین اور امکان کا معاملہ آ جاتا ہے۔ عام طور پر پہلے سے طے شدہ نتائج کو ثآبت کرنے کے لیے اس طرح کے دلائل قائم کیے جاتے ہیں۔ یا پھر ایک ممکنہ صورت سے دوسری ممکنہ صورت اخذ کرنا۔ یعنی اگر بارش کے ہونے کا “امکان” ثابت ہو تو اس بنیاد پر “بارش” کے ہونے کا “امکان” بھی ثابت کر لینا۔ اور اسی طرح ایک “غلط” کی بنیاد پر کسی دوسرے “غلط” کو “درست” ثابت کرنا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الغرض، بحث و مباحثہ اور غوروفکر کے دوران سوال، دلیل اور نتیجہ کو ہر مرحلے پر مختلف طریقوں سے پرکھنا ضروری ہے۔ ان میں سے ہر ایک کا درست، جامع اور واضح ہونا ضروری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply