لتا جی کا عشق۔۔طاہر سرور میر

لتا منگیشکر اور استاد سلامت خان کی داستان محبت
لتا، رخصت ہوئیں، ایک عہد تمام ہوا۔ آج ان پر بہت کچھ پڑھتے پڑھتے طاہر سرور میر کا خصوصی سکوپ پڑھا تو جی چاہا کہ ضرور شیئر کیا جائے۔ ہر بڑے ادب، بڑی کہانی اور بڑے فنکار کے پیچھے محبت کی کوئی داستان، کوئی نہ کوئی کسک ہوتی ہے۔ لتا اور استاد سلامت کی محبت بھی اسی کتاب کا ایک باب ہے!
عارف انیس
ایک زمانہ لتا کا مداح تھا اور وہ استاد سلامت علی خاں کی دیوانی تھیں۔ استاد سلامت کو اپنے عہد کا تان سین مانا گیا۔ یہ عشق کے اساطیری جہان کی عظیم داستان ہے کہ سرسوتی دیوی نے سُروں اور تال کے دیوتا سے عشق کیا تھا۔
جی ہاں۔۔۔ لتا منگیشکر نے استاد سلامت علی خاں سے ٹوٹ کر محبت کی اور انھیں شادی کی پیشکش بھی کی تھی لیکن ہر لازوال محبت کی طرح اس کا انجام بھی ناکامی ٹھہرا تھا۔
اس محبت کا آغاز 50 کی دہائی میں ہوا جب لتا منگیشکر اور استاد سلامت علی خاں کے شباب کی ابتدا تھی لیکن وہ دونوں موسیقی کی دنیا میں برگزیدہ اور عجائبات مان لیے گئے تھے۔ لتا منگیشکر کا شعبہ فلم کی پس پردہ موسیقی اور استاد سلامت کا میدان خیال گائیکی، ٹھمری اور کافی کے ساتھ لے کاری تھا۔
دونوں کسب کمال کے لحاظ سے معیار اور معراج کے سنگھاسن پر براجمان تھے۔ شاید اس منزل پر جہاں جمالیاتی تخلیات کے پرندوں اور ہماؤں کے پَر جلتے ہیں۔ حفظ مراتب اور ترتیب کے لحاظ سے شاستریہ سنگیت (کلاسیکی موسیقی) اور فلمی میوزک میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جس طرح مندر کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکنے والے ایک عام پروہت اور برہمن میں ہوتا ہے۔
لتا منگشیکر مرہٹہ اور برہمن ہونے کے ساتھ انمول گائیکہ ہیں اس لیے اس فرق کو اچھی طرح سمجھتی تھیں۔ انھیں یہ امتیاز اور اعزاز حاصل ہوا کہ وہ پس پردہ گائیکی جیسے کمرشل میوزک میں ’ایکسیلینس‘ کہلائیں اور سرسوتی دیوی مان لی گئیں۔ موسیقی کی اعلیٰ صنف کی رعنائیاں، باریکیاں اور سچائیاں دونوں فنکاروں کو ایک دوسرے کے قریب لے آئیں۔
استاد سلامت علی خاں اور لتا منگیشکر ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے تھے، دونوں شادی کرنے کے بارے میں فیصلہ بھی کر چکے تھے لیکن ایسا ہو نہ سکا۔
دیوی اور دیوتا کے اس ناکام عشق کو اگر راگ داری اور سنگیت کے ہجوں اور عبارت میں بیان کیا جائے تو خیال گائیکی کی منزل، راستے، سائبان، الاپ، آبوگ، استھائی اور انترہ سب اداس پائے۔
الاپ اور آبوگ راگ کا آغاز اور شکل واضح کرنے کے مراحل ہیں جبکہ استھائی اور انترہ کو مقطع اور مطلع کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب استاد سلامت علی خاں اور استاد نزاکت علی خاں کی جوڑی لاہور سے کلکتہ اور ممبئی پہنچی تھی اور پورے انڈیا میں ان کے یادگار کنسرٹ ہو رہے تھے۔
دو عظیم فنکاروں کی یہ محبت پچاس کی دہائی میں پروان چڑھی جب انڈین فلم انڈسٹری ابھی بولی وڈ نہیں بنی تھی، اس لیے اس پر کلاسیکی اساتذہ کے ساتھ ساتھ میچور اور مستند فنکاروں کا راج تھا۔
کمرشل ازم کی ضرورت سٹائل اور گلیمر ہوتے ہیں جبکہ کلاسیکی فنکاروں کا امیج دیومالائی اور جادوئی ہوتا ہے۔
پرتھوی راج کپور کو اس وقت انڈین فلم انڈسٹری اور برصغیر کا سب سے قد آور فنکار تسلیم کیا جاتا تھا جنھوں نے اپنے ہاں محفل موسیقی کے اختتام پر استاد سلامت اور استاد نزاکت کی جادوئی پرفارمنس پر انھیں سجدہ کیا تھا۔
ابتدا اور انجام تک کیا ہوا؟
کلاسکس کے کلاسیکل رومانس کی ابتدا سے لے کر انجام تک کیا ہوا؟ کس طرح ان دو محبت کرنے والے عظیم فنکاروں کی خواہشات کو انڈیا اور پاکستان کے بنتے بگڑتے معاملات کی بھینٹ چڑھایا گیا اور کس طرح استاد سلامت اور لتا کی محبت کو انڈیا اور پاکستان میں رائج روایتی نفرت کی اس دیوار میں چنوا دیا گیا۔
برصغیر کے عظیم فنکاروں کی ناکام محبت کی کہانی سے جڑے عزیز و اقارب،رشتہ داروں اور مشترکہ دوستوں سے بات چیت کی گئی تاکہ ماضی کا یہ گوشہ سامنے لایا جا سکے۔
لتا منگیشکر نے پاکستانی میڈیا سے کہا تھا کہ ’میرا دل چاہتا ہے میں اُڑ کر لاہور چلی جاؤں۔‘ اپنے اس انٹرویو میں ہی لتاجی نے انکشاف کیا تھا کہ ’استاد سلامت علی خاں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے لاہور لے جائیں گے لیکن انھوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔‘
لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہونہ ہو!
لتا منگیشکر کا یہ انٹرویو پڑھ کر استاد سلامت بہت دن تک اداس رہے۔ شجاعت نے دکھی آواز میں کہا کہ میرے دادا استاد سلامت، لتا جی کا گایا یہ گیت ’لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو‘ گنگناتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے تھے۔
ایک صحافی نے ان سے پوچھا ’خاں صاحب! آپ نے لتا منگیشکر کا انٹرویو پڑھا جس میں انھوں نے کہا ہے کہ استاد سلامت انھیں لاہور لے کر نہیں گئے اور انھوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔‘
استاد سلامت نے کہا کہ ’لتا جی نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ وہ اُڑ کر لاہور پہنچ جائیں۔ ہمارا بھی دل چاہتا ہے کہ ہم اُڑ کر ممبئی پہنچیں، کلکتہ پہنچیں اور شام چوراسی بھی پہنچیں، اپنے آبائی گھر دیکھیں اور اس آنگن کو دوبارہ دیکھیں جہاں پیدا ہوئے تھے، کھیلے کودیں لیکن دونوں ملکوں کے بارڈر پر ہر وقت جنگی ماحول بنا رہتا ہے، زمینی راستے بند ہوتے ہیں اور ہوائی راستے بھی بند ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھار کھلتے ہیں زیادہ عرصہ بند ہی رہتے ہیں۔ یا بند رہیں تو ہم وہاں جائیں ہی نا، کبھی کبھار چلے جاتے ہیں تو دوستیاں ہو جاتی ہیں، رشتے بن جاتے ہیں، پھر راستے بند ہوتے ہیں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔‘
استاد سلامت نے لتا منگیشکر سے شادی سے انکار کیوں کیا؟
اس سوال کے جواب میں استاد سلامت نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ لتا بائی کوئی عام فنکارہ نہیں ہیں۔
’انھیں ہندو سماج میں ایک دیوی مانا جاتا ہے، ہندوستان سمیت پوری دنیا میں ہندو لتا منگیشکر کو اوتار سمجھتے ہیں۔ اس لیے لتا سے میری شادی ہونا آسان معاملہ نہیں تھا۔ اس وقت مجھے یوں لگا اگر میں نے لتا سے شادی کر لی تو کم از کم یہ ہو سکتا ہے کہ مجھے اور لتا کو ختم کر دیا جائے اور زیادہ سے زیادہ یہ بھی ممکن تھا کہ پاکستان اور انڈیا میں جنگ ہو جاتی، ایسا ممکن تھا کیونکہ دونوں کے مابین مسائل بھی ہیں اور یہ لڑنے کے بہانے بھی ڈھونڈتے رہتے ہیں۔‘
استاد سلامت نے بتایا تھا کہ ’1953 کے بعد ہم دونوں بھائی کئی مرتبہ انڈیا کے دوروں پر جاتے رہے۔ ممبئی میں ہمارا معمول ہوتا کہ ہم اکثر لتا بائی کے مہمان بنتے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہم نے لتا منگیشکر کے ہاں قیام کر رکھا تھا۔ لتا بائی نے اپنی تمام تر مصروفیات کینسل کر دی تھیں۔ درجنوں پروڈیوسر اور میوزک ڈائریکٹر اپنی فلموں کے گانوں کے لیے ڈیٹس لینے ان کے گھر آتے لیکن وہ کسی سے مل نہیں رہی تھیں۔‘
استاد سلامت نے کہا کہ ’بڑے بھائی استاد نزاکت جو دنیاوی طور پر مجھ سے زیادہ سمجھدار تھے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے بادل چوہدری کے ہاں شفٹ ہو گئے۔ بادل چوہدری انڈیا میں ہمارے پروموٹر تھے۔ ہم جب انڈیا جاتے تھے تو کلکتہ اور ممبئی میں ان کے گھر میں رہتے تھے۔ ممبئی میں بادل چوہدری کا گھر لتا بائی کے پاس ہی تھا۔ اب یہ ہوا کہ لتا جی صبح اٹھ کر بادل چوہدری کے گھر آ جاتیں اور پھر رات تک میرے ساتھ رہتیں۔ وہ گھر سے نکلتے ہوئے گھونگھٹ اوڑھ لیتی تھیں تاکہ کوئی انھیں پہچان نہ سکے۔‘
بادل چوہدری 15سال تک استاد سلامت کا سایہ بن کر ان کے ساتھ رہے اور استاد نزاکت اور استاد سلامت کے پروموٹر بھی تھے۔ ان کے لتا منگیشکر فیملی سے بھی گہرے مراسم ہیں۔ ٹیلی فون کال پر وہ فر فر یہ ساری کہانی بیان کرنے لگے۔ انھوں نے کہا کہ ’استاد سلامت بھگوان کا روپ لے کر دنیا میں آئے تھے۔ ایک تو وہ گوئیے ایسے تھے کہ کوئی ان جیسا دوسرا نہیں تھا۔ صرف آٹھ نو سال کی عمر میں انھوں نے ہروبلب کے میلے میں راگ بسنت بہار گایا تو انھیں پورے برصغیر نے انھیں گویا مان لیا تھا۔‘
’جوانی میں انڈیا آئے تو انھوں نے پہلے سے رائج شاستریہ سنگیت ’ڈیلیٹ‘ کر کے اپنا سنگیت رائج کر دیا۔ کن رسیا تو ایک طرف کلاسیکل میوزک سے وابستہ کلاکار کانوں کو ہاتھ لگانے لگے تھے اور کچھ وہ تھے جو بھائیوں کی اس جوڑی پر فدا ہو گئے تھے اور لتا جی فدا ہونے والوں میں شامل تھیں۔ لتا جی پر تو استاد سلامت کے سنگیت نے ایسا اثر چھوڑا کہ وہ ان کے عشق میں اپنے میگا سٹارڈم کو بھول گئیں تھیں۔‘
لتا جی نے استاد سلامت کو کیا پیشکش کی تھی؟
بادل چوہدری نے بتایا کہ لتا جی نے استاد سلامت سے یہاں تک کہا تھا کہ آپ چھ مہینے پاکستان میں اپنے بیوی بچوں کے پاس رہیں اور چھ ماہ ممبئی میں میرے ساتھ رہیں۔ وہ سارا دن استاد سلامت کا سنگیت سنتی رہتی تھیں، فلمی میوزک سے ان کا دل اٹھ گیا تھا۔
’استاد سلامت شریف انسان تھے اگر ان کے دل میں رتی برابر لالچ بھی ہوتا تو وہ ان سے فوراً شادی کر لیتے۔ لتا جی اور استاد سلامت ممبئی میں میرے گھر میں ملتے تھے جہاں لتا گھنٹوں خاں صاحب کو سنتی تھیں۔ لتا بھی نمبر ون تھیں اور استاد سلامت بھی نمبر ون تھے، دراصل یہ عشق معیار اور کسب ِکمال کا بھی عشق تھا۔‘
ٹیلی گرام میں کیااطلاع دی گئی تھی؟
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ گوئیے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم استاد سلامت کے مداحوں میں شامل تھے لیکن وہ درویش فنکار ہمیں اپنا یار بیلی بھی کہتے تھے۔‘
ان بزرگ کے مطابق استاد سلامت نے بتایا تھا کہ ایک مرتبہ ہم دونوں بھائی (نزاکت اور سلامت) لتا کے ہاں قیام کئے ہوئے تھے، میرا اور لتا کا عشق زوروں پر تھا۔
’اس دن لتا بڑی خوش تھیں انھوں نے اپنے ہاتھوں سے ہمارے لیے کھانے بنائے تھے۔ لتا کی چھوٹی بہن نے انھیں ایک ٹیلی گرام دیا جو میرے لیے تھا اور لاہور سے موصول ہوا تھا۔ لتا نے وہ ٹیلی گرام پڑھا تو اس میں اطلاع تھی کہ میرے ہاں پہلا بیٹا (شرافت علی خاں) پیدا ہوا ہے۔ لتا نے مجھے مبارکباد دی لیکن انھیں اس لمحے یہ احساس بھی ہوا کہ جسے وہ اپنا سمجھ رہی ہیں دراصل وہ کسی اور کا ہے۔‘
نامور گلوکار اور استاد نزاکت علی خاں کے بیٹے اور استاد سلامت علی خاں کے بھتیجے رفاقت علی خاں نے بتایا کہ ’میرے چچا استاد سلامت علی خاں ایک اوتار تھے، یہ ممکن نہیں کہ کوئی انسان صرف ایک جنم میں ریاض اور محنت کے بل بوتے پر اس قدر سنگیت سیکھ لے۔ لتا منگیشکر بھی چونکہ اوتار ہیں اور اعلیٰ پائے کی فنکارہ ہیں اس لیے انھیں یہ ادراک بھی ہے کہ استاد سلامت نے اپنی مختصر زندگی میں موسیقی کے جہان میں کیا معجزے کر دکھائے؟ اس لیے وہ استاد سلامت کے سنگیت کی تاب نہ لاسکیں اور ان کے عشق میں گرفتار ہو گئیں۔‘
رفاقت خاں نے بتایا کہ ’استاد سلامت میرے گرو بھی تھے اور دوست بھی، انھوں نے اپنے اور لتا جی کے بارے میں بہت سی باتیں شیئر کی تھیں اور میں خود بھی اس عظیم محبت کے بارے میں ان سے سوال کرتا رہتا تھا۔ کچھ سوالوں کے وہ جواب دے دیتے تھے اور بعض ان سنے کر دیتے تھے۔ استاد سلامت کہتے تھے لتا بائی دنیا کے ہر گوئیے کے ساتھ گانا شروع کر دیتی تھیں لیکن میرا گانا سن کر خاموش ہو جاتی تھیں جو موسیقی کی دنیا کا ایک کرشمہ تھا۔‘
استاد سلامت کے ایک عزیز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ 1999 میں, اپنی وفات سے پہلے، فالج کے بعد بہت دن تک استاد سلامت لندن کے ہسپتال میں زیر علاج رہے جس کے تمام تر اخراجات لتا منگیشکر نے ادا کیے تھے۔‘

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply