اور میں نم دیدہ نم دیدہ (28)ہم کراچی والے ہیں -ابوبکر قدوسی

وقت کافی بیت چکا تھا اور میں جلدی جلدی ہوٹل کی جانب چل رہا تھا ۔سامان ہم نے پہلے سے ہی پیک کر لیا ہوا تھا بس اب جا کر ہوٹل چھوڑنا تھا اور پھر مکے کا سفر تھا ۔ ہمارے ہوٹل میں کتنی ہی لفٹیں تھی لیکن چیک آؤٹ ٹائم ہونے کی وجہ سے لفٹوں پر باری ہی نہیں آ رہی تھی۔ میں جیسے تیسے کر کے سامان نیچے لے کے آیا ، جو اب کئی بکسوں پر مشتمل تھا ۔
یعنی ” سکندر ” مدینے سے خالی ہاتھ واپس نہیں جا رہا تھا ۔ ہم لاؤنج میں بیٹھ کر بس کا انتظار کرنے لگے ۔ بس والے کا تھوڑی دیر پہلے فون آیا تھا کہ ” تیار رہیں ، ہم آ رہے ہیں ” ۔ بظاہر محسوس ہوا کہ جیسے سر پر کھڑا ہے ۔ لیکن یہ انتظار طویل ہو رہا تھا ، عصر کا وقت ہونے کو تھا اور بس کا کوئی نام و نشان نہ تھا ۔ میں نے اسے فون کیا تو بولا ” بالکل قریب ہی ہوں ” ۔ میں نے پوچھا کہ :
” کیا میں عصر پڑھ لوں ؟ ”
کچھ سوچ کر ۔۔۔۔۔ یوں بولا کہ
” ۔۔۔۔اچھا ، آپ پڑھ لیں ” ۔
میں ہنس رہا تھا کہ موصوف ایسے ظاہر کر ریے ہیں کہ جیسے ساتھ والے دروازے پر کب سے کھڑے ہیں ، جبکہ اندازہ تھا کہ ابھی دور ہیں ۔
اڑھائی گھنٹے کے بے کار انتظار کے بعد قریباً ساڑھے چار بجے کے قریب بس آئی اور ہم سوار ہوئے ۔ بس اگلے ہوٹل کو چل دی ، وہاں سے سات آٹھ افراد پر مشتمل ایک خاندان کے لوگ بیٹھے اور بس میں کچھ ہنگام کی صورت بن گئی کہ ساتھ بچے بھی تھے ۔ لیکن اصل شور گھر کے ادھیڑ عمر سربراہ کر رہے تھے جو فون پر کسی سے بات کرتے اپنے ایجنٹ کو برا بھلا کہہ رہے تھے ، جو اب ان کا فون بھی نہیں اٹھا رہا تھا ۔ موصوف نے احرام باندھا ہؤا تھا اور ساتھ ہر دوسرے جملے میں اس احرام کا حوالہ بھی دے رہے تھے ۔اور کہہ رہے تھے کہ
” ابھی میں نے احرام باندھا ہوا ہے اس لیے زبان روک رہا ہوں ، احرام اتار کر اسے بتاؤں گا ”
گو احرام میں بھی آپ کچھ گالیاں دے ہی رہے تھے ، گویا اس شعر کا منظر تھا ۔
انہیں شوق عبادت بھی ہے اور گانے کی عادت بھی
نکلتی ہیں دعائیں ان کے منہ سے ٹھمریاں ہو کر
اور موصوف غصے میں بولتے ہوئے ایک دلچسپ جملہ بھی ساتھ ساتھ شامل کرتے اور گفتگو سہ آتشہ ہو جاتی ۔
” اسے معلوم نہیں ، ہم کراچی والے ہیں ”
وہ بےچارے اتنے غصے میں تھے کہ میں نے تسلی دینے کے لیے مداخلت کی ۔۔ ہمدردی پا کر وہ مزید پھٹ پڑے ، ان کے ساتھ ایجنٹ نے واقعی زیادتی کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ دو بجے کا ان کو کھڑا کر رکھا تھا اور ماحول وہی بنا رکھا تھا کہ
” ابھی ابھی آیا ، آپ بس ادھر ادھر نہ ہونا ” ۔
وہ بتا رہے تھے کہ اس دباؤ میں وہ اپنے بچوں کو کچھ کھلا تک نہ سکے اور سب بھوکے بیٹھے ہیں ۔ میں نے ان کو تسلی دی ، اسی دوران بس مدینے سے نکل کر مضافات میں پہنچ گئی اور میقات کی عمارت میں داخل ہو رہی تھی ۔
مدینہ آنے سے پہلے میرا ارادہ تھا کہ جب مدینے سے واپس نکلوں گا تو احرام باندھوں گا لیکن طبیعت پر تھکاوٹ غالب آ چکی تھی اس سبب یہ ارادہ منسوخ کر چکا تھا ۔ سو میں نے احرام نہیں باندھا لیکن مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنا تھی اور مسجد بھی دیکھنا چاہتا تھا ، اس سبب گاڑی سےاتر آیا ۔
طائف کے میقات کی نسبت یہ مسجد خاصی بڑی تھی ۔ اور یہاں ہجوم بھی کئی گنا زیادہ تھا ۔دسیوں بسیں کھڑی تھیں اور کہیں زیادہ گاڑیاں بھی ۔ وسیع و عریض پارکنگ تھی جس میں بسوں کی رعایت سے خاصی جگہ رکھی گئی تھی ۔
اس کو مسجد ذی الحلیفہ کہتے ہیں ۔ یہ شاندار مسجد پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش رکھتی ہے ۔ اس کے چاروں طرف کھلا احاطہ ہے جس میں کھجوروں کے درختوں کے بیچ پارکنگ کی جگہ چھوڑی گئی ہے اور پھر مسجد کی عمارت کے گرد چہار سمت حجاج اور معتمرین کے لیے غسل خانے بنائے گئے ہے ۔ سب کچھ بہت صاف ستھرا اور شاندار تعمیر کیا گیا ہے اور سہولیات کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔
ان غسل خانوں سے نکلتے ہیں تو چھوٹے چھوٹے باغیچے ہیں اور باغیچوں کے بیچ میں مسجد اپنی پوری شان و شوکت سے کھڑی ہے ۔ رات کے اندھیرے میں سفید رنگ کی تیز روشنیوں میں نہائی یہ عمارت حس جمالیات کی تکمیل کا سامان تھا ۔ سن دو ہزار آٹھ میں اس کی تعمیر نو کی گئی اور اسے نئے نقشے کے مطابق تیار کیا گیا ۔ گہرے سرخ رنگ کے قالین ایسے دبیز تھے کہ ان میں پاؤں گھس رہے تھے ۔ چھت پر فانوس اور سامنے شاندار محراب بنانے والوں کے ذوق کا نشان تھے ۔ میں نے مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کیں اور مسجد کو دیکھتے دیکھتے باہر نکلنا شروع کیا ۔
واپس آیا تو بس اپنی جگہ موجود نہیں تھی ، ڈرائیو صاحب نے کمال فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے کسی دوسری جگہ جا کھڑا کیا تھا ۔ میں نے موصوف کو فون کیا تو انہوں نے اپنے نئے قیام کا بتایا اور میں وہاں پہنچ پایا ۔ قریباً پون گھنٹہ انتظار کرنا پڑا تب جا کر معتمرین واپس آئے ۔ تھکاوٹ کے سبب یہ انتظار محبوب کے انتظار سے بھی کچھ بڑھ کر مشکل ہو رہا تھا ۔ سب سے آخر میں وہ کراچی والے بھائی بس میں سوار ہوئے جنہوں نے احرام اتارنے کے بعد ” گالیاں ” دینے کا وعدہ کیا ہؤا تھا ۔
بس مکے کی طرف تیزی سے رواں دواں تھی ، بس میں کچھ خرابی تھی کہ شور کافی کر رہی تھی ابھی تین ماہ بعد لکھتے ہوئے بھی کانوں میں اس ” رونے ” کی آواز آ رہی ہے کہ جو رفتار بڑھانے سے بس کے ” منہ ” سے نکل رہی تھی ۔ سفر کافی لمبا ثابت ہو رہا تھا اور بھوک چمک رہی تھی ۔ اسی اثناء میں بس کھانے کے ایک ہوٹل پر رک گئی ۔مختلف طرح کے کھانے موجود تھے ۔ یہ ایک بڑا ہوٹل تھا اور نسبتاً صاف ستھرا بھی تھا جہاں مختلف طرح کے کھانے موجود تھے ۔ کھانوں کے نرخ کچھ زیادہ ہی تھے ۔ جب ہم مدینے کی طرف آ رہے تھے تو پاکستانیوں کا ہوٹل تھا جو زیادہ تر ملتان کے تھے اس ہوٹل کا بھی بیشتر عملہ پاکستانی ہی تھا لیکن صفائی ستھرائی اور تعمیر کا معیار کچھ بہتر تھا ۔ اب کھانے کے لیے چاولوں کا انتخاب کیا ۔ چاول میں نے اس لیے لکھا کہ نہ وہ پلاؤ تھا نہ بریانی تھی اور نہ ہی عربوں کا ” کبثہ” یا ” مندی” تھی ۔ بس چاول تھے ان پر مرغی کے روسٹ ٹکڑے دھرے تھے لیکن ذائقے میں وہ کوئی اور ہی چیز تھی ، جس کو ختم کرنا محال ثابت ہوا۔
کب پیروی قیس کریں عشق و جنوں میں
اس فن میں کچھ اپنا ہی ہم ایجاد کریں گے
یہ اس ہوٹل والے کی کوئی اپنی ہی ایجاد تھی جو خاصی بے مزہ تھی ۔
راستے میں ایک جگہ چیک پوسٹ آئی جہاں پاسپورٹ چیک ہونے تھے ۔ اس بار اہلکار نے پچھلی بار والا ” اعتبار ” نہ کیا اور کچھ منتخب افراد کے پاسپورٹ چیک کئے اور بس چل دی ۔
کچھ کچھ آبادی کے آثار دکھائی دے رہے تھے کہ ابو الحسن علی قدوسی کا فون آیا ۔ پوچھ رہے تھے کہ ہم کہاں ہیں ؟
میں نے دکھائی دینے والے آثار کے بارے میں بتایا تو کہنے لگے ” آپ مکے سے بالکل قریب ہیں ، امید ہے کہ پون گھنٹے تک پہنچ جائیں گے ۔”
بتا رہے تھے کہ وہ بھی مکہ آ رہے ہیں ان کو اچانک مکہ کے لیے نکلنا پڑا تھا ۔ قصہ یہ ہوا کہ ابو الحسن کی اہلیہ کی پھپھو ریاض میں رہتی ہیں ، وہ اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ عمرے کے لیے آئی تھیں کہ ان کی بہو کے ساتھ حادثہ پیش آگیا ۔ کوئی پاکستانی خاتون اوپری منزل پر الیکٹرانک کار لے کر طواف کرنے نکلی تھیں اور ان سے وہ گاڑی بے قابو ہوئی اور پھپھو کی بہو کو جا لگی۔ اور ان کے گھٹنے کے پاس سے ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔ وہ اب اپنے شہر سے دور پریشانی کے عالم میں ہسپتال میں بیٹھے تھے ۔ جبکہ ابوالحسن اور ان کی اہلیہ مکے کی طرف ان کی اعانت کے لیے چلے آ رہے تھے ۔
کچھ ہی دیر میں مکے کی نشانی کلاک ٹاور دکھائی دینے لگا اور اس سے تھوڑا آگے بڑھ کے شاندار مکہ ہمارے سامنے تھا ۔
ایک اچھا سا معاملہ یہ رہا کہ بس والے نے سب سے پہلے ووکو ہوٹل جا کر بس کھڑی کی۔ مجھے اسی بات کی فکر تھی کہ کہیں ساری بس خالی کرنے کے بعد ہماری باری نہ آئے ، کہ جیسے مدینے میں ہوا تھا ۔
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا ہے دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
لیکن اس بار ” ساقی ” نے ہمیں سب سے پہلے اتارا ۔
مہربان ووکو میرے سامنے تھا سفر کی تھکاوٹ کے سبب کچھ بڑھ کے سکون میرے اندر اتر رہا تھا ۔
بس والے نے ہمارا سامان اتارا تو پاس کھڑا ایک مہربان بنگالی پورٹر آگے بڑھایا اور ہمارا سامان سنہری ٹرالی پر رکھ لیا اور کہا کہ ” آپ اپنا کمرہ بک کروا لیجیے “۔
میں کاؤنٹر پر گیا تو وہاں پر ایک سعودی خاتون براجمان تھی اس خاتون نے بڑی پھرتی سے میرا پاسپورٹ چیک کر کے کمرے کی چابی میرے سامنے رکھ دی ۔ یہ ٹاور نمبر چھ تھا اور منزل دسویں تھی جبکہ پچھلے ہفتے جب میں پاکستان سے سیدھا یہاں کے ٹھہرا تھا تب پینتیسویں منزل پر کمرا ملا تھا ۔ میں چابیاں پکڑ کے کمرے کو چل دیا جہاں سفید اجلے نرم بستر میرے منتظر تھے۔
میرا اس ہفتے مکے میں تین دن کا قیام تھا اور اس کے بعد مجھے ایک دن جدہ میں رکنا تھا اور پھر پاکستان واپسی تھی مجھے جو پانا تھا انہیں تین دنوں میں پانا تھا جو کھونا تھا وہ تو عمر بھر سے کھو ہی رہے تھے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply