پہلے کسی محاذ پر گئے ہو؟
نہیں سر!
تو یہ پہلی دفعہ ہے؟
جی سر!
ڈر رہے ہو؟
نہیں سر ۔۔۔
جھوٹ بولتے ہو؟
نہیں سر، تھوڑا سا ڈر ہے۔
کوئی یاد آتا ہے؟
جی سر!
کون؟
اپنے بچے سر!
فائر کھول دو جوان!
آگے بچے ہیں سر۔
“خیر ہے، دشمن کے ہیں!”
(صفحہ نمبر 127)
میانوالی سے تعلق رکھنے والے محمد جمیل اختر نے 2014 میں اپنے افسانے تسطیر، مکالمہ، ایوانِ اردو اور دیگر رسائلِ فنون کو بھیج کر منفرد چھاپ چھوڑنے کی ابتداء کی۔
معاشرے کے کمزور اور یکسر چھوڑ ے ہوئے طبقے کو بطورِ خاص موضوع بناتے ہوئے جنگ، بھک مری، غمِ روزگار، تنہائی، نفسیاتی مسائل، ادھوری محبت اور امراء کی نظر میں تھرڈ کلاس گھرانوں کے سوالات و سوانح اور ان کی پچکی ہوئی زندگیوں کا احاطہ کرتے ہوئے جمیل اختر کی پہلی کتاب 2017 میں بنام “ٹوٹی ہوئی سڑک” منظر پر آئی
مذکورہ کتاب “ہندسوں میں بٹی زندگی” کی اشاعتِ اول 2020 میں ہوئی اور یہ ان کے افسانوں ، مختصر کہانیوں کی دوسری کتاب تھی اس کتاب کو نیشنل لائبریری اسلام آباد نے رشید امجد ایوارڈ سے نوازا جبکہ پروین شاکر ٹرسٹ کی جانب سے بھی بیسٹ فکشن کے عکس خوشبو ایوارڈ کے معیار پر پورا اترا ہوا پایا اور یہ کتاب اب تک مذکورہ دو ایوارڈز جیت چکی ہے۔
یہ تو کتاب کا وہ خلاصہ ہے جو ہر کوئی بتا یا لکھ سکتا ہے مگر درست اور سچی بات یہ ہے کہ جمیل اختر قطعی اچھا انسان نہیں ہے اسے بہت سارے مسائل درپیش ہیں نہ تو اسے عدالت کی جانب سے ملنے والے انصاف کی کوئی لہر دکھتی ہے بلکہ اسی وقت جب اس کے افسانے میں کیس کمرہ عدالت میں ہوتا ہے یہ بے قصور بے گناہ مجرموں کی جانب جاکر بیٹھ جاتا ہے اچھی قیمت بھی مل جاتی ہے مگر یہ بکتا نہیں ہے۔
اس کے کردار دن رات روز مرہ کی سڑکوں پر پیدا، جوان اور بوڑھے ہورہے ہیں مگر یہ ان کی سچائی ہی لکھتا ہے کچھ تھوڑا بہت جھوٹ کہ جاتا تو جمیل اختر کی جیب سے کیا جاتا؟
اس کے کردار چھوڑے ہوئے سامان، کلرک، بھیک مانگتے افراد، چوزے، وینٹی لیٹر مشینیں اور ان مشینوں پر دم توڑتے جوڑتے ایسے انسان ہیں جن سے کسی بھی “باشعور” فرد کا کیا لینا دینا
اس کے پاس کہانیوں میں طمانچے، کاٹ دار تھپڑ، سوالات اور وہ عورتیں ہیں جن کے آگے خاموش کھڑا گم شدہ مرد، شوہر، بیٹا، بھائی یا باپ ہے
موت کے کنوؤں میں موٹر سائیکل چلاتے، چوری کرتے غریب، خالی جیب الیکٹریشن، جہیز جمع کرتے بوڑھے، خودکشی کرتی عورتیں اور پرندوں، کبوتروں، جانوروں، مینڈکوں میں بدلتے خاموش تنہا کردار ہیں
مجھے جمیل اختر سے شدید اعتراض ہے کہ اس نے کسی امیر کی کار، مہنگے بنگلے، عالیشان باغیچے، نایاب مشروبات اور اپَر کلاس ایلیٹ فیملیز کی باتیں کیوں نہیں لکھیں؟ کیونکہ یہی کچھ تو بکتا ہے
ہم ہنس کھیل اور جی رہے ہوتے ہیں جمیل اختر اچانک کہیں سے آکر نعرہ مارتا ہے “کلرک فائل کے نیچے دب گیا ہے” اور بھاگ جاتا ہے۔
ہم مزے سے سورہے ہوتے ہیں یہ کتاب کے اندر سے ہوک مارتا ہے “مفت راشن کے لئے لگائی گئی آواز جھوٹ تھی گھر میں ہی رہو” اور چپ ہوجاتا ہے۔
جمیل دھیرے دھیرے وقفے وقفے سے ہنس رہا ہے ہم پر بھی، خود پر بھی، یہاں ہوتے انصاف پر بھی اور پروان چڑھتے زوال پر بھی!
اب میں جمیل سے اور کیا گلہ کروں بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ : یار جمیل! تھوڑا تھوڑا کرکے جھوٹ لکھنا سیکھ! تیرا بھی پیٹ ہے یار، خاندان قبیلہ گھر افراد اور معاشرہ ہے۔
شیشے نہیں بیچ بھائی نقاب اور ماسک والا کاروبار ان دنوں زیادہ منافع بخش اور “سچا” ہے۔
کتاب سے کچھ سطریں پڑھیں اور خود فیصلہ کریں کہ میں جمیل اختر کو درست مشورہ نہیں دے رہا
* کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم یہ ایٹم بم بیچ کر بہت سی روٹیاں اور کپڑے خرید لیں؟
* قید میں لگائے گئے قہقہوں سے آزادی میں بہتے آنسو زیادہ معتبر ہوتے ہیں!
* سنا ہے تم کوڑے کے ڈھیر سے ملے تھے، کیا یہ سچ ہے؟؟
* میں لگاتار کہتا رہا کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے لیکن قاضی مجھے غصے سے دیکھتا رہا اور ساتھ میں اس کپ سے چائے پیتا رہا جس پر حکمران کی تصویر بنی ہوئی تھی!
* آج کل ہر انقلاب پسند گم ہوجاتا ہے اُسے کالے پہاڑوں کے پیچھے بہتے دریا میں پھینک دیا جاتا ہے!
میری ذاتی رائے یہ کہ معاشرے کی سچائی جاننے سمجھنے اور نئے یا پرانے قاری کے لئے اس کتاب کا مطالعہ کرلینے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا اور سب سے اہم بات یہ کہ جمیل اختر کے پاس اس کے ہر افسانے کا پسِ منظر موجود ہے میں دورانِ مطالعہ خود ان سے پوچھتا رہا ہوں میری عرضی پر محمد جمیل اخترا آپ کو یہ کتاب فری ڈلیوری سمیت کتاب کی اصل قیمت سے بھی کم رقم پر محض 500 روپے میں بھیجنے کو تیار ہیں اگر آپ نے واقعی سچ ہی پڑھنا ہے تو
ایک بروسٹ و زنگر جتنی یا ایک پیزے سے بھی کم کی رقم پر یہ کتاب خرید لینے کی اچھی کوشش ہوگی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں