“سکوت”کا شاعر “سکوت” کا نہیں ۔۔ششی کمار سنگھ

اردو ہندی کے اتنا ہی قریب ہے جتنا یہ دور ہے۔ قربت اتنی ہے کہ ہندی الفاظ میں اُردو کے بہت سے الفاظ شامل ہیں جن کو آسانی سے پہچانا نہیں جاسکتا ہے۔ فاصلہ اتنا ہے کہ اسکرپٹ میں کوئی مماثلت نہیں ہے، سوائے الف (ا) کے۔ ہندی کی روح میں تخلیق کردہ اُردو ادب ہندی میں مقبول ہے، لیکن یہ صرف ہندی رسم الخط کے ذریعے ہی قارئین تک پہنچتا ہے۔ ادب اور ادیب سب کا ہوتا ہے۔ ان کا کوئی ملک یا زبان نہیں ہوتی۔ کیا پریم چند کو صرف ہندی یا ہندوستان کا ادیب کہا جاسکتا ہے! کیا رابندر ناتھ ٹیگور کو صرف بنگالی کا ادیب کہا جاسکتا ہے! کیا ہم اس چوکھٹے میں چیخوف، گورکی، ٹالسٹائی، فیض اور فراز وغیرہ کو بند کر سکتے ہیں!

مظہر حسین سیّد پاکستانی شاعر ہیں یہ خیال (ہندوستان میں) دل دہلا دینے والا ہے لیکن یہ کہتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ ‘ان کی شاعری ہندوستان میں بھی مقبول ہے’۔ اُردو ادب کے لیے وقف ویب سائٹ، ریختہ پر ان کی غزلوں کا ہونا اس بات کی گواہی ہے کہ ادب کی کوئی سر حد نہیں ہے۔

حسیات کا تنوع ‘سکوت’ میں واضح نظر آتا ہے۔ زندگی کے بیشتر پہلوؤں کو ‘سکوت’ میں مجتمع کردیا گیا ہے۔ نام نہاد ترقی کی اندھی دوڑ میں، پوری دنیا فطرت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس نام نہاد ترقی کا خمیازہ جنگلات کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مظہر صاحب ‘سکوت’ کی پہلی غزل کے پہلے ہی شعر میں کہتے ہیں۔
شجر کلام کریں، شہر بھی نیا ہو جائے
میں ایک اسم پڑھوں اور معجزہ ہو جائے

فطرت سے محبت کا اظہار کئی غزلوں میں ملتا ہے۔ مظہر صاحب کا دماغ فطرت سے سکون پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مظہرصاحب نے شہر کو ہر جگہ نظرانداز کرنے کے انداز میں زیر بحث لایا ہے۔ مظہر صاحب واضح طور پر کہتے ہیں کہ۔

جو مزا آتا تھا اک باغ لگانے میں مجھے
وہ مشینوں کو چلانے میں نہیں آتا تھا

‘سکوت’ میں متعددبار‘شجر’ کے لفظ کا آنا بھی اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے۔

مظہر صاحب نے شہر، شہرداری اور اس کی پریشانیوں پر بہت سے اشعار کہے ہیں۔

رُکوں تو پیڑ نہیں کوئی سایہ دار یہاں
چلوں تو شہر میں چلنے کا راستہ نہیں ہے

لے کے نکلا تھا خواب آنکھوں میں
شہر سے سوگوار آیا ہوں

خواب کیا تھے مگر اب تو غنیمت ہے یہی
سانس لینے کو جو تھوڑی سی ہوا مل جائے

مظہرصاحب کی شاعری میں اپنے ماحول کے بارے میں خوف و ہراس کا احساس جا بجا بکھر ا ہوا ہے۔ کہیں آنکھوں کو سزا دینے کا ذکر ہے اور کہیں محبت میں سزا کا ذکر ہے۔ یہ دنیا میں موجود دہشت کی طرف اشارہ ہے۔ یہاں محبت اور خواب قید میں ہیں۔ آزاد آوازوں اور خبروں پر قدغنیں لگائی جارہی ہیں۔
در حقیقت، سچی شاعری اپنے ماحول اور وقت کی داستان ہوتی ہے۔ وقت اور معاشرے سے کٹ جانے کے بعد کوئی بھی شاعری بڑی نہیں ہوسکتی ہے، چاہے وہ مقبول ہی کیوں نہ ہوجائے۔ ‘سکوت’ میں خوف و ہراس کی فضا دیکھیں۔

دیے نے روشنی دینے سے معذرت کر لی
دیے کو جب مرے ماحول سے گزارا گیا

کسی طرح میں یہاں جی گیا مگر دنیا
جو سچ کہوں کسی پہلو سے خوشنما نہیں ہے

رات کو دن جو سمجھتے ہیں یہ دور اُن کا ہے
رات کو رات سمجھتے ہیں سو چپ رہتے ہیں

مکین خواب سے جاگے ہی تھے کہ سہم گئے
ہر اک مکان کی چوکھٹ پہ ڈر لکھا ہوا تھا

ماحول میں دہشت کی مختلف اقسام کو ‘سکوت’ میں بیان کیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں علم و سائنس کی ترقی کے ساتھ ہی مذہبی رجحانات میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔ ہر ایک اپنے مذہب کو خطرے میں دیکھ رہا ہے۔ خطرہ بھی کس سے؟ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے۔ اپنے پڑوسیوں سے جو خوشی اور غم میں آپ کے ساتھی رہے ہیں۔ روز بروز عدم رواداری بڑھتی جارہی ہے۔ یہ شعر ضرور دیکھیں
‘وہ جس کو لے کے میری بستیوں پہ ٹوٹ پڑے
کسی کتاب سے کچھ ڈھونڈ کر لکھا ہوا تھا

مظہر صاحب واضح طور پر مانتے ہیں کہ۔
ہم کو تہذیب و تمدن میں کہاں ڈھونڈتے ہو
عہدِ وحشت ہے میاں جس کے قریں ہیں کچھ لوگ

اس کے باوجود مظہر صاحب امید کے شاعر ہیں۔ حساس شاعر کے لیے فطری بات ہے کہ وہ اپنے ماحول کی گھبراہٹ، بیہودگی اور بد عنوان سیاست سے مایوس ہوجائے۔ مایوسی کے ان لمحوں میں، شاعر کہتے ہیں۔

بدلنے کی نہیں ہے میری حالت
وہی ہے آج بھی جو کل رہی ہے

لیکن ایک اور جگہ کہتے ہیں۔
ٹھہرو ابھی امید کے پودے کو نہ کاٹو
ممکن ہے کسی شاخ سے پتا نکل آئے
چیزوں کو تبدیل ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن اس میں تبدیلی یقینی ہے۔ شاعر کہتا ہے۔
جہاں پہ ہم کو اندھیروں نے ڈس لیا مظہرؔ
ہماری نسل جلائے گی اب وہیں پہ چراغ

مظہر صاحب کو یقین ہے کہ ‘اس سرزمین سے روشنی کا شجر پھوٹے گا۔’ وہ اس پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ
نکلنے والا ہے دھرتی پہ اک نیا سورج
جو اس چمکتی سیاہی کو دھونے والا ہے

ہلکی تصویروں کا یہ سلسلہ اس حقیقت کی علامت ہے کہ شاعر مایوس ہے لیکن مکمل طورپر مایوس نہیں ہے۔ مظہر صاحب شاعری کا مرکزی خیال دنیا کی مجموعی ترقی کا خواب ہے۔ایک شاعر عالمی دنیا کا شہری ہوتا ہے۔ اسی لیے اسے پوری دنیا کی فکر ہوتی ہے۔ مظہر صاحب کی انسانی ہمدردی کا پھیلا ؤ دیکھیں
کہیں کہیں پہ اندھرا کہیں کہیں پہ چراغ
دعا کرو کہ جلیں ساری سرزمیں پہ چراغ

مظہر صاحب اظہارِ حق کے شاعر ہیں۔ وہ کہتے ہیں
‘کھل کے سچّائی کا اظہار نہیں کرسکتے’
ہم جو کرتے ہیں وہ اخبار نہیں کر سکتے
آج کل کے میڈیا پر اس سے بڑا تبصرہ کیا ہوسکتا ہے۔
‘خبر غلط ہے، میں یہ بات کہنے والا تھا
کہ اک ریوالوراخبار سے نکل آیا ‘
یہ میڈیا اور سیا ست کے مجرمانہ گٹھ جوڑ کا اشارہ ہے۔ یہ اشعار بھی کم معنی خیز نہیں ہیں۔
سوچتا بولتا اک نیا آدمی
ہو گیا آخرش لاپتہ آدمی
پا گیا تھا یقیناََ تو سچائی کو
یہ ترا جرم ہے گمشدہ آدمی

مظہر صاحب کی شاعری میں اقتدار اور سیاست کے خلاف ناراضگی کا واضح احساس نظر آتا ہے۔ خوبصورتی اور محبت کو بیان کرتے ہوئے بھی ان کی توجہ سماج کے حقیقی کرداروں کو ظاہر کرنے پر مرکوز رہتی ہے۔
عشق میں قافلہ سالار نہیں چاہیے ہے
یہ تو دیوار ہے دیوار نہیں چاہیے ہے

وسیع معنوں میں یہ رہنما لوگوں کی ترقی میں سیا سی رکاوٹ کا ایک حصہ ہیں۔

مظہرصاحب ایک عوامی شاعر ہیں۔ اسی لیے بھوک، غربت، ناانصافی، مظالم، استحصال اور عوامی تشویش وغیرہ کی تفصیل ان کی شاعری میں بے ساختہ پائی جاتی ہے۔ اگر ایسے شعر اکٹھے کیے جائیں تو ان کی تعداد اچھی خاصی ہوگی۔
1۔کسی طرح بھی نہ آسیبِ مفلسی اُترا
دُعا بھی کی گئی تعویز بھی پلایا گیا

2۔ تمہارے حرفِ تسلی سے حل نہیں ہو گا
بتاؤں کیا کہ محبت کا مسئلہ نہیں ہے

3۔ عجیب لوگ تھے ُمردوں سے بات کرتے تھے
جو مر رہے تھے اُنھیں کوئی پوچھتا نہیں تھا

4۔ یہ لوگ عہدِ غلامی میں جی رہے ہیں ابھی
انھیں تو یہ بھی بتانا ہے زندگی کیا ہے؟

مظہر صاحب عوامی حب الوطنی اور محبت کے اشعار میں کس طرح فرق کرتے ہیں، یہ اس شعر سے واضح ہوتا ہے
تمہارے حرفِ تسلی سے حل نہیں ہو گا
بتاؤں کیا کہ محبت کا مسئلہ نہیں ہے
یعنی، محبت میں تسلی کے الفاظ کام کر سکتے ہیں، لیکن عوام کی ضروریات محض ‘حرفِ تسلی’ سے پوری نہیں ہوں گی۔ اس سے مظہر صاحب کا تخلیقی ویژن ظاہر ہوتا ہے۔ ‘سکوت’ میں پرولتاریہ کی حالت اور استحصال کو نہ صرف بڑی جرات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے بلکہ مظہر صاحب سرمایہ دارانہ طاقت کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے بے نقاب بھی کرتے ہیں۔ پرولتاریہ سے اس طرح کی ہمدردی اور درست ترین وضاحت شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔
مری محنت سے دنیا چل رہی ہے
مرے آنگن میں غربت پل رہی ہے

میں نے کھیتو ں میں ہل چلایا تھا
جو اُگایا تھا سب پرایا تھا

مظہر حسین سید نے پرولتاریہ کی اصل حالت کی تصویر کچھ اس طرح کھینچی ہے۔
ایک بے نام جزیرے کے مکیں ہیں ہم لوگ
ایسے موجود ہیں جیسے کہ نہیں ہیں ہم لوگ

پورا معاشرہ معاشی طور پر دو طبقوں میں منقسم ہے۔ ایک امیر اور دوسرا غریب۔ بڑے ترقیا تی دعوے، مال اور سہولیات صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جن کے پاس پیسہ ہے۔ باقی حصے دو وقت کی روٹی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اس شعر کی لاچارگی ناقابل بیان ہے۔
عجب نہیں ہے کہ بازار کو بہا لے جائے
جو اشک چشمِ خریدار سے نکل آیا

مظہر صاحب غریبوں کی طرف کھڑے ہیں۔ لیکن حق کے بارے میں بات کرنا بھی امیروں کے مطابق غریب کا قصور ہے۔
امیرِشہر سے سچ بات برملا کی ہے
غریب ِشہر نے کتنی بڑی خطا کی ہے
لیکن مظہر صاحب کہتے ہیں۔
پر یہ ترتیب ذرا ردّوبدل چاہتی ہے
آسماں تم ہو ابھی اور زمیں ہیں ہم لوگ
کہیں وہ سوال پوچھتے ہیں
میں ان دانشوروں سے پوچھتا ہوں
یہ کالی رات کب تک ڈھل رہی ہے

مظہر صاحب کی زندگی میں اپنی جدوجہد بھی کم نہیں ہے۔ لیکن وہ کبھی بھی ذاتی مسائل کو بیان کرتے ہوئے شاعرانہ جمالیات سے انحراف نہیں کرتے ہیں۔ انفرادی غم معاشرتی بدحالی کے ساتھ مل جاتا ہے۔
ہر ایک خود کو سب سے زیادہ ناخوش سمجھتا ہے۔ لیکن صرف ایک عظیم شاعر ہی یہ کہہ سکتا ہے۔
تمام لوگ اذیّت میں کاٹتے رہے دن
میں اس گماں میں رہا امتحان میرا ہے

انفرادی رنج لوگوں کے غم میں مل کر ایک ہوجاتا ہے اور اس کی اثرپذیری اور وسعت میں اضافہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ شاعر کی شاعرانہ ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔

مظہر صاحب ایک ایسے شاعر ہیں جو شاعری کی ساکھ کو بڑھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بہت سے شعر ہیں، جن میں شاعری سے متعلق بنیا دی تحفظات سامنے آتے ہیں۔
وہ کم سطح کے اشعار پر بے چین نظر آتے ہیں۔ بہت سارے شعرا عوامی مسائل اور ضروریات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے عزت، شہرت اور دولت کی خاطر شاعری کرتے ہیں۔ مظہر صاحب یہ دیکھ کر ناراض ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں

سبھی کو عزت و شہرت کی بھوک لے ڈوبی
سخن میں خوف تھا لہجے میں دبدبہ نہیں تھا
ایسے شاعروں کی حقیقت یہ ہے۔
لفظوں کا انبار لگایا
لیکن بات نہیں کہہ پایا

بہت سارے شاعر ہیں جو
مشاعرہ تھا غزل سی بنا کے لے آئے
جولفظ بحر میں بیٹھا بٹھا کے لے آئے

یہاں مجھے ہندی کے لوک شاعر ٹھاکر یاد آ رہے ہیں۔
ڈیل سو بنائے میلت سبھا کے بیچ
لوگان کبت کبو کھیل کری جانو ہے
(کنکروں کی طرح بنا کر بزم میں پھینک دیتے ہیں، لوگ شاعری کو بھی ایک کھیل سمجھ رہے ہیں)

مظہر صاحب یقین رکھتے ہیں۔
سخن سرائی فقط شغلِ واہ واہ نہیں
ہمیں تو ٹوٹ کے خود کو بنانا پڑتا ہے

یہ ایک ذمہ دار شاعر کی ذمہ داری ہے۔
پھنسا ہوا تھاادب مسخروں کے چنگل میں
یہی ہنر تھا ہم اس کو چھڑا کے لے آئے

مظہر حسین سیّد ایک ایسے شاعر ہیں جو اقتدار کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ ہر طاقت خوشامد چاہتی ہے۔ مظہر صاحب کہتے ہیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ مظہرؔ بھی شہنشہ کے حضور
سنہری طشتِ خوشامد سجا کے لے آئے

اگرچہ انہوں نے شاعری سے دنیاوی کامیابی حاصل نہیں کی لیکن مظہر صاحب اس حقیقت سے مطمئن ہیں۔
سلگتی ریت کو دریا نہیں کہا میں نے
غزل کہی ہے قصیدہ نہیں کہا میں نے

وہ فخر سے کہتے ہیں۔
بس یہی سوچ کے میں ہار گیا تھا مظہرؔ
جیت جانے سے مراقد بھی تو گھٹ سکتا ہے

یہ ایک عوامی شاعر کا اعتماد ہے۔
میں مر گیا تو مرے لفظ جگمگائیں گے
کہ لفظ لفظ کو اک روشنی عطا کی ہے

ایک سچے شاعر کو بہت سے تنازعات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر کی جیلیں ادیبوں سے آباد ہیں۔ مظہر صاحب کہتے ہیں۔
ہمارا جرم تھا نغمہ سرائی
ہمیں ہر موڑ پر گالی پڑی ہے

ایک بار گفتگو کے دوران، مظہر صاحب نے بتایا کہ ان کے شعر
نجانے پچھلے جنم کون سی خطا ہوئی تھی
کہ اس جنم میں مجھے آدمی بنایا گیا

پر پاکستان میں بہت سے بنیاد پرستوں نے یہ کہتے ہوئے اعتراض کیا کہ یہ اسلام مخالف شعر ہے کیونکہ اسلام میں دوبارہ جنم لینے کا تصور نہیں ہے۔ لہذا مذہبی جنونیت میں اضافے کے ایسے ماحول میں شاعری کرنا واقعی چیلنچ ہے۔ لیکن مظہر صاحب کی ہمت ہے کہ وہ مذہبی داستانوں اور علامتوں کا استعمال کرکے تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہی تبدیلی کی تڑپ اٹھنا انھیں ایک عظیم شاعر بنا دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں
کفر تو فرض ہے ایسے ماحول میں
ہو جہاں آدمی کا خدا آدمی

صرف یہی نہیں ، متعدد جگہوں پر مظہر صاحب کو کبیر کی روایت کے علمبردار کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ہندو مذہبی عقائد کی بنیاد پر، وہ اپنی شاعری میں عام آدمی کے دکھ اور درد کو بھی بیان کرتے ہیں۔
پتھروں سے لپٹتے ہوئے رو پڑا
آدمی کا ستایا ہوا آدمی

یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہاں پتھر سے مراد بت ہیں۔ ایک اور جگہ کہتے ہیں
تُو زمیں پر تو مر گیا ہوتا
شکر کر تُو ہے آسمانوں میں
ایک ایسے ملک میں رہنا جہاں مذہب کے بارے میں بات کرنے پر کڑی سزا دی جاتی ہو، صرف ایک جرات مند شاعر ہی یہ کہہ سکتا ہے۔
مسجدیں ہو رہی ہیں خون میں تر
جانے کیا بھید ہے اذانوں میں
معاشرے میں تشدد اور خوف و ہراس کے خلاف یہ ایک شاعر کی مزاحمت ہے۔

مظہر صاحب محبت کے شاعر بھی ہیں۔ محبت کے دونوں رخ یعنی وصال اور ہجر کو پوری شدّت کے ساتھ پیش کیاگیاہے۔ یہ خصوصیت مظہر صاحب کی شاعری کو یکسانیت سے بچاتی ہے۔ ورنہ وہ محض ایک سیاسی شاعر کی حیثیت اختیار کر جاتے۔ مظہر صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے سیاست، حقیقت اور محبت کو یکساں طور پر برتا ہے۔
ایسا کرنا ایک تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف ہے۔ اور مظہر صاحب نے اس پر چل کر دکھایا ہے۔ محبت میں انسان عقل و خرد گنوا دیتا ہے۔
یقیں جنّات پر آتا نہیں تھا
نہ جانے کیوں پری پر آ گیا تھا

اُن کے ہاں محبت کے ایسے اشعار موجود ہیں کہ اُنھیں آسانی سے محبت کا شاعر کہا جا سکتا ہے
کچھ اشعار دیکھیے
تمھارے پیار کے رستے پہ چل کر
میں سیدھا شاعری پر آ گیا تھا

وفا کی راہ میں نقشِ قدم نہیں ملتے
محبتوں میں کوئی رہنما نہیں ہوتا

مال و زر میرے لیے باعثِ تسکین نہ تھے ‘
میں تو خوش حال محبت کے خزانے سے ہوا

بہت ہی باوفا مشہور تھا میں
تمہارے بے وفا ہونے سے پہلے

محبت کی شاعری کے باوجود مظہر صاحب کا خیال ہے کہ
جب ہم نے شبِ ہجر میں کی زخم شماری
کچھ زخم محبت کے علاوہ نکل آئے

یہاں مجھے فیض یاد آتے ہیں۔
‘اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا’

مظہر صاحب نے محبت کی بڑی سطح کو بھی یہاں پینٹ کیا ہے۔ یہ محبت دنیاسے اور انسانیت سے محبت ہے، جو انسانوں کے درمیان کھنچی کڑی لکیروں پر یقین نہیں رکھتی۔ اس لحاظ سے مظہر صاحب آفاقی شعور کے شاعر ہیں اور عالمی شہری ہیں۔ مظہر صاحب کہتے ہیں۔
میں مانتا نہیں خود ساختہ لکیروں کو
زمین میری ہے، سارا جہان میرا ہے

یہی چیز یں ایک شاعر کو عظیم بناتی ہیں۔ تنگ نظری اور تعصب کی وجہ سے آج تک کوئی بڑا نہیں ہوا ہے۔ نہ ہی زندگی میں اور نہ ہی اپنے رویّوں میں۔
مظہر صاحب دھوکہ دہی سے بھری دنیا میں انسانیت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مظہر صاحب فرد کی خود غرضی سے نالاں ہیں
یہاں افتاد یہ کیسی پڑی ہے
جسے دیکھو اُسے اپنی پڑی ہے

مظہرصاحب میں انسانیت سے مایوسی کے بجائے اس کے مسائل کے تدارک کا جذبہ ملتا ہے۔
کتنی خوں خوار سی ہے یہ مخلوق
جس نے انساں کا روپ دھارا ہے

اسی پر مطمئن بیٹھے ہوئے ہیں
کہ اب انسان چوپایہ نہیں ہے
یہ انسانیت کو بچانے کی ایک کوشش ہے۔
ہے اک شریر سا بچہ جو مجھ میں رہتا ہے
خدا کا شکر ہے لیکن بڑا نہیں ہوتا

بالکل عام زبان کا استعمال بھی ‘سکوت’ کی خصوصیت ہے۔ کہیں بھی بوجھل اصطلاحات نہیں ہیں۔ کہیں بھی مصنوعی پن نہیں ہے۔ بلکہ الفاظ کا جادو نظر آتا ہے۔
میرا احساس ہوا اس کو بڑی دیر کے بعد
اور یہ احساس بھی احساس دلانے سے ہوا

میں ہی کہتا تھا زمانے کا چلن ٹھیک نہیں
ہاں مگر وہ تو زمانے میں نہیں آتا تھا

پھر یوں ہوا کہ ہم نے اسے جان کہہ دیا
پھر یوں ہوا کہ جان سے جانا پڑا ہمیں

الفاظ و احساس کا جادو اور زندگی کو پیش کرنے کا انداز انتہائی دلکش ہے۔
‘سکوت’ کا ایک شعر ہے

میں اکیلا ہی وہاں چیخ رہا تھا مظہرؔ
جانے کس ڈر سے دہائی نہیں دیتا تھا جہاں

مظہر صاحب کہتے ہیں۔
یہ لوگ عہدِ غلامی میں جی رہے ہیں ابھی
انھیں تو یہ بھی بتانا ہے زندگی کیا ہے
یہ جمود کے خلاف شاعر کی کوشش ہے۔ وہ اس ‘سکوت’ کو توڑنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ لوگ زندگی سے آگاہ ہوں۔ غلامی کا دور ختم ہوگیا ہے۔ اب ملک آزاد ہے۔ اب لوگوں کو غلط چیزوں پر احتجاج کرنا چاہیے ۔ لوگوں کے مزاج کو تبدیل کرنا اور اُنھیں بیدار کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ لیکن شاعر یقینی طور پر اس میں کسی حد تک کامیاب ہوا ہے۔
لوگ تو خوئے بغاوت کو بُرا جانتے تھے
ہم نے اس شہر میں ایک رسم نئی جاری کی
اور
خود اپنے آپ سے اک دن سوال کر مظہرؔ
تُو کس لیے ہے یہاں اور کیا بنا ہوا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

یعنی ‘سکوت’ میں جا بجا عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح، مظہر صاحب، ‘سکوت’ کے شاعر ہونے کے باوجود، ‘سکوت’ کے شاعر نہیں ہیں بلکہ چیخ کے شاعر ہیں۔
میں نے مظہر حسین سیّد صاحب کی شاعری پڑھی تھی۔ ان کے ساتھ تبادلہء خیال کیا اور اُنھوں نے ‘سکوت’ کا پی ڈی ایف مہیّا کیا کیونکہ کتابیں بھی حکومت کے زیر نگرانی ہیں۔ یہ بہت مایوس کن بات ہے۔ مظہر صاحب کا بہت شکریہ۔ میں اردو میں صرف واجبی پڑھا لکھا ہوں۔ پھر بھی، ‘سکوت’ کی ہندی میں نقل حرفی کا بیڑہ اُٹھایا ۔ عادل رضا منصوری صاحب نے نقل حرفی درست کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ ان کا شکریہ میں اردو کے نامور اسکالر اور نقاد پروفیسر علی جاوید صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کے کردار اور اہمیت کو اپنی تحریر سے بلند کیا۔ ڈ اکٹر سنجے شریواستو ترقی پسندی اورسماجی اتحاد کے حوالے سے مستقل سرگرم ہیں۔ ان کی اس کتاب کے لیے دلچسپی انمول رہی۔ اُردو میں دلچسپی پروفیسرکمار پنکج کی وجہ سے بڑھی۔ کچھ نیا کرتے رہنے کے لیے، پروفیسر راج کمار نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ ملک بلال کا بھی شکریہ جنہوں نے سرحد پار پہنچنا آسان بنایا۔ اُردو کی اس اہم کتاب کو ہندی میں شائع کرنے والے رودرادتیہ پرکاشن کے ڈائریکٹر ابھیشک اوجھا بھی شکریے کے مستحق ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply