سفر ابھی باقی ہے/مومل قریشی

مری کی اس دھندلی شام میں سڑک کے کنارے بیٹھا سگار کی چسکیاں بھرتے نا جانے کونسے خیالوں میں ڈوبا ہوا تھا ۔ وہ زندگی کی تلخیوں کو بہت پریکٹیکلی ڈیل کرنے والا، ایسے ہی کبھی کبھار گھنٹوں اپنے ساتھ وقت گزارتا، کچھ یوں بھی زندگی سے لطف اندوز ہوتا تھا۔
“صاحب تم پچھلے چار گھنٹے سے ادھر بیٹھا آٹھ کپ چائے پی چکا ہے اور کتنی دیر ہے ؟ ٹھنڈ بہت  زیادہ ہے ہم کو دکان بند کرنا ہے۔” دکاندار نے اس سے پوچھا۔
“بس تھوڑی دیر اور ”
عشر اس کی طویل بات سن کر بس اتنا ہی کہہ سکا
وہ ایسا ہرگز نہیں تھا وہ تو زندگی کو بھر پور جینے کا ہنر جانتا تھا مگر کبھی کبھار ایسا بن جاتا تھا۔
“جانے کیا بے چینی ہے جو اتنی ٹھنڈ میں ادھر بیٹھا ہے۔” وہ سر ہلاتا واپس دکان کے اندر چلا گیا۔
عشر کی چمکتی آنکھیں سردی کی شدت سے بھیگ چکی تھیں ، سگار ختم ہوتے ہی وہ اٹھنے کا فیصلہ کر چکا تھا کہ اس کے موبائل کی گھنٹی بجھنے لگی اور وہ دم سادھے موبائل کی سکرین کو دیکھتا رہ گیا۔
پورے تین مہینے بعد اسکی کال آئی تھی‌۔۔ ۔
“نہیں اٹھائی  ؟”
اسے جیسے شاک لگا ہو۔ بنا کسی عہد کے نا جانے کونسا اعتماد تھا کہ وہ ایسے ہی منہ اٹھا کے اسے کال کر لیتی تھی ۔ وہ دل میں خود کو کوسنے لگی مگر کیا کرتی ایسے impulsive decisions لینے میں تو وہ ماہر تھی۔
وہ موبائل رکھنے ہی لگی تھی کہ گھنٹی بجنے لگی اس نے بغیر کچھ سوچے کال اٹھائی۔
” اسلام و علیکم”
وہ انتہائی گرمجوشی سے بولا تھا۔
”  و اااعلیکم اسلام” وہ کنفیوزڈ لگ رہی تھی۔
“کیسی ہو ؟ کیا مصروفیات ہیں؟ زندگی کیسی گزر رہی ہے؟”
وہ ایسے ہی تین چار سوال اس کے منہ پہ مار دیا کرتا تھا۔
” میں ٹھیک ہو۔ آپ بتائیے؟؟ ”
وہ اتنا ہی بول پائی تھی اور اس کے سامنے اکثر وہ اتنا ہی بول پاتی تھی۔
وہ ٹیبل پر پیسے رکھ کر سب بھول کر سردی میں سڑک کے کنارے واک کرنے لگا۔
نا جانے اس عام سی لڑکی میں کونسی کشش تھی کہ اسے سب بھلا دیتی تھی۔
اور پھر وہ بولتا چلا گیا وہ گھنٹوں اس کے ساتھ کسی بھی ٹوپک پہ بات کر سکتا تھا۔ وہ سنتی گئ۔
اس کی مردانہ آواز میں تاثیر ہی ایسی تھی کہ اس کے روح کے اندر تک رقص کرتی اور اس کا ادھورا پن مکمل ہو جاتا۔
3 گھنٹے مسلسل بات کرنے کے بعد وہ کال رکھ کر ہاسٹل لوٹا۔
زندگی اپنے معمول پر گزرنے لگی وہ صبح جاب کرتا شام کو گھومنے جاتا اور رات کو اس کی کال کا انتظار کرتے سو جاتا وہ اب اس کو خود سے میسج نہیں کرتا تھا انا پرست جو تھا ادھر ماہم دوسرے شہر میں اپنی زندگی میں مصروف کبھی کبھی اس کو مسج کرتی تو وہ یہی ذکر چھیڑتا کہ ملنے کب آرہی ہو اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے ٹال مٹول کر لیتی۔
ٹھیک بھی تھا وہ ۔ ماہم ایک چھوٹے شہر سے تعلق رکھتی تھی اس کے شہر میں جگہ ہی کونسی تھی جہاں وہ مل سکتے۔
ماہم کو اس سے محبت نہیں تھی مگر وہ شروعات میں اسکی توجہ اتنی حاصل کر چکا تھا کہ کوئی سحر تھا جو اسکی طرف بار بار کھینچتا تھا۔ وہ اس کی اثر پذیر بن چکی تھی وہ جس طرح زندگی کو ڈیل کرتا، ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والا کیسے اپنے پیروں پہ کھڑا ہو گیا اور اس کے محبت سے بھرے وہ emails ، یہ سب کچھ کافی تھا اس کے سحر میں کھو جانے کے لئے۔ یہی وجوہات تھی کہ وہ اسکے قریب رہنا چاہتی تھی وہ کسی بھی طرح اس fairy tale کو ختم نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔
بلآخر وہ مان ہی گئی اس کی بات کو اور “یونیورسٹی کی طرف سے کانفرنس ہے” یہ بہانا کر کے اس سے ملنے مری چلی گئی۔ وہ لوگ پہلی بار ایک کانفرنس میں ہی ملے تھے‌۔ جہاں عشر presentation دینے آیا تھا۔ ماہم ادھر ہی اسکی شخصیت سے متاثر ہو گئی تھی۔ چونکہ عشر کو یونیورسٹی کے طالبات کو ڈیل کرنے کی ذمہ داری بھی ملی تھی تو ان دونوں کا تعامل ہو چکا تھا اور ماہم کا اعتماد اور اسکی پرکشش شخصیت عشر کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے کافی تھی۔ کانفرنس کے کچھ مہینے بعد ماہم نے phd کے کسی سکالرشپ کی معلومات کی لیے اس کو مسج کیا تھا۔ وہی سے انکی بات چیت شروع ہوئی۔ ماہم اسکے ساتھ اپنے مسائل شئیر کرتی اور وہ اسکو پوری توجہ دیتا، سمجھاتا اور حالات سے لڑنا سکھاتا۔ اس طرح ماہم کو اسکی عادت ہونے لگی اور عشر کو محبت۔ ۔
دسمبر کا مہینہ تھا یہ کیفے پہاڑ کے درمیان واقع تھا باہر پہاڑوں پر برف جمی تھی اور اندر انکی ٹیبل پر گرم گرم چائے آچکی تھی۔
“ہاں تو تمہاری جاب کیسی جا رہی ہے؟”
عشر نے روبوٹک انداز میں پوچھا۔
“نارمل۔
یہاں کافی ٹھنڈ ہوتی ہے، رہائش کرنا تو کافی مشکل ہوگا۔” ماہم لونگ سلیو سویٹر سے نظر آتی فریز ہوتی انگلیوں کو دیکھتے ہوئے بولی۔
“ہاں ٹھنڈ زیادہ ہے تبھی تو شادی کا سوچ رہا ہوں۔”
اب موقع مل ہی چکا تھا تو وہ اپنے مطلب کی بات کیوں نا کرتا۔
ماہم اس کے اشارے کو سمجھ چکی تھی۔ وہ قریبا ایک سال پہلے ماہم کو شادی کے لئے پروپوز کر چکا تھا اور ماہم نے تب یہ بہانہ بنا کے ٹال دیا کے ابھی عشر کی جاب نہیں ھے تو اس کی فیملی نہیں مانے گی اور تب سے ان کے درمیان دوریاں آنے لگی تھی کیونکہ ماہم کو اپنا آپ انکار کی وجہ سے مجرم لگنے لگا تھا اور اب تو عشر کی جاب بھی لگ گئی تھی کافی اچھی پوسٹ پر اب تو اس کے پاس کوئی بہانہ نہیں بچا تھا کہ وہ شادی کئے بغیر عشر کے قریب رہ سکے۔
وہ سہم گئی تھی۔
“ہاں، اچھا خیال ہے۔ شادی کے بعد لڑائی جھگڑوں سے آس پاس کا ماحول گرم رہےگا۔”
ماہم نے بات کو بدلنا چاہا۔ سردی سے ماہم کے گال اور ہونٹ لال ہو چکے تھے وہ کوئی پلاسٹک کی گڑیا لگ رہی تھی۔
“نہیں جھگڑے کا ہونا تو ایک صحت مند شادی کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔”
وہ اب اسکو صرف شادی کے فوائد بتانے لگا۔ اور ماہم اس کی چمکتی آنکھوں کو دیکھتی رہ گئی
وہ اتنی دور یقیناً یہ سب سننے تو نہیں آئی تھی۔

“ہاں خواب ہی تھے جو اسکی آنکھوں میں چمکتے‌تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

Advertisements
julia rana solicitors

وہ گھنٹوں بیٹھے باتیں کرتے رہیں ۔ شاید ان کے درمیان اب سب نارمل ہو چکا تھا۔ ماہم وہاں سے لوٹ کر بہت خوش تھی جیسے مکمل ہو گئی ہو۔ وہ صبح جاب پر جاتی شام کو یونیورسٹی جاتی اسکی زندگی کافی مصروف گزر رہی تھی مگر اس تھکا دینے والے معمول کے باوجود بھی وہ رات کو اس سے بات کرنا قضا نہ کرتی۔ زندگی اپنے اسی معمول پر رواں دواں رہی کہ عشر نے ملنے کی بات پھر سے چھیڑ دی۔
“مجھے تم سے کچھ سنجیدہ باتیں کرنی ہیں چونکہ تم آ نہیں سکوگی تو میں آجاتا ہوں میرے خیال سے تمہاری یونیورسٹی ایک فارمل ملاقات کے لئے اچھی جگہ ثابت ہوگی۔”
ماہم مان گئی تھی اس کے پاس مان جانے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
جمعہ کا دن تھا انہوں نے ماہم کے ڈیپارٹمنٹ، جو کے پہاڑ پر واقع تھا، کے ییچھے hill point (کیفے) پر ملنا تھا۔
آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے ہلکی ہلکی ہوا بھی اپنے سریلے گیت سنا رہی تھی۔
نماز کے بعد ملنے کا وقت طے ہوا تھا وہ دونوں مقررہ وقت پر اپنی جگہ پہنچ چکے تھے۔
سلام دعا اور ہلکی پھلکی شرارت کے بعد ہی وہ اپنے مطلب کے مدعے پر آ چکا تھا۔
“اچھا ماہم سب سے پہلے تو مجھے یہ بتاؤ کہ تم میرے ساتھ سنجیدہ ہو کہ نہیں؟”
“Off course I am serious. What type of question is this?”
“میں شادی کی بات کر رہا ہوں۔”
ماہم کے چہرے سے سارے رنگ جیسے ہوا ایک ہی جھونکے سے اڑا کر لے گئی ہو۔
عشر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا!
“دیکھو ماہم، میں بہت پہلے ہی تمہیں اپنے ارادے بتا چکا ہوں۔ اب تو میری جاب بھی لگ گئی ہے تو میں چاہتا ہوں کہ اب شادی کر کے گھر بسا لیا جائے۔ آج میں تمہیں اپنی فیملی کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں میرے ابا باہر ہوتے ہیں ایسے میں اپنے گھر کا بڑا میں ہی ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنا ٹرانسفر گاؤں میں کروا لوں اور شادی کے بعد وہی سیٹل ہو جاؤں۔ میرا گاؤں تمہارے شہر سے اتنا دور بھی نہیں ہے تم آرام سے جاب کے لئے آنا جانا کر سکو گی۔ میں تمہاری رائے جاننا چاہتا ہوں کے تم گاؤں میں رہ سکوگی یا نہیں؟”
اس نے یقیناً وہی سب بولا جو ماہم جانتی تھی ۔
” عشر تم جانتے ہو میرے والدین بوڑھے ہو چکے ہیں اور میں انکی آخری اولاد ہوں میرے بغیر وہ لوگ بالکل اکیلے ہو جائینگے پہلے تو میں شادی کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتی اور اگر سوچ بھی لوں تو میرے لئے ان سے اتنا دور جانا ممکن نہیں ہے اور تو اور میرے لئے اتنی دور جاب سنبھالنا بہت مشکل ہو جائے گا اور ایک شہر کی لڑکی کا گاؤں میں رہنے کا جہاد الگ!”
“تو میں اسکو انکار سمجھوں؟ کیا یہ چیپٹر یہی پہ
ختم ہوتا ہے؟”
ماہم پر جیسے قیامت گزری ہو۔ وہ روح کو تسکین بخشتی ہوائیں اچانک اسکو ٹھنڈی لگنے لگی۔
“کیا اسکی زندگی کا محسن اسکو چھوڑ کے جانے کی بات کر رہا تھا؟”
وہ سہم کر رہ گئی تھی۔
“جواب دو!”
وہ چڑچڑا ہو رہا تھا۔
“میں نہیں چاہتی آپ جائے اور یہ سب ختم ہو۔ مگر۔۔۔۔۔”
“مگر کیا؟”
“مگر میں آپ سے شادی بھی نہیں کر سکتی۔”
“شادی نہیں کر سکتی تو اس رشتے کا کوئی مطلب نہیں بنتا۔”
وہ بہت سرد مہری سے بولا۔
“تو کیا۔۔۔۔۔”
“اللہ حافظ۔ خوش رہو!”
وہ اسکی بات ادھوری چھوڑ کر اٹھ کر جا چکا تھا
وہ حسین موسم اب روکھا، سرد لگنے لگا تھا۔ وہ اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ اسکی آنکھوں میں آنسو موتیوں کی طرح چمکنے لگے۔ اسکا محسن اسکو چھوڑ کر جا چکا تھا یہ اسکی fairy tale کا شاید اختتام تھا۔
سفر ہی شرط سفر ہے تو ختم کیا ہوگا
تمہارے گھر سے ادھر بھی یہ راستہ ہوگا
اختر سعید خان
اصل زندگی میں fairy tales ایسے ہی ختم ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔
ماہم گم سم وہاں بیٹھی یہی کچھ سوچتی رہ گئی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply