متحدہ پختون صوبہ بنائیں۔ صدیق بلوچ

صوبائی وزیر منصوبہ بندی اور ترقیات ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے متحدہ پختون صوبے کا مطالبہ کیا ہے۔ چمن میں گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پختون چار صوبوں میں تقسیم ہیں، اس لیے ان کا ایک متحدہ صوبہ بنانا چاہیے۔ہم نے اس مطالبے کی ہمیشہ حمایت کی ہے، پختونوں کی وفاق پاکستان میں نمائندگی اس وقت بھر پور ہوگی جب ایک متحدہ پختون صوبہ وجود میں آئے گا۔ چنانچہ سنجیدہ سیاست دانوں نے یہ تجویز پیش کی تھی بلکہ اس کا بھر پور مطالبہ کیا تھا کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیا جائے۔حکومت نے فاٹا سے متعلق اصلاحات کے لیے کمیشن بنایا تھا، اس نے بھی یہ تجویز دی تھی کہ فاٹا کو کے پی کے میں شامل کیا جائے۔ پورے ملک میں ان اصلاحات کی مخالفت محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان نے کی تھی۔ شاید محمود خان اچکزئی پر یہ خوف طاری ہے کہ چھوٹے صوبے بلوچستان کی وجہ سے وہ سیاسی طور پر بہتر پوزیشن میں ہیں۔ فاٹا کی، کے پی کے میں شمولیت کے بعد یہ مطالبہ زیادہ زور پکڑ ے گا کہ افغانستان کے تمام مفتوحہ علاقوں کو بھی کے پی کے میں شامل کیا جائے۔

اس سے ان کے سیاسی قد پر منفی اثرات پڑنے کا اندیشہ ہے۔ شاید اسی وجہ سے انہوں نے فاٹا میں اصلاحات کی مخالفت کی۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمان کی پارٹی کے پی کے چند جنوبی اضلاع میں موجود ہے۔ موجودہ اسمبلی میں ان کی قابلِ ذکر نمائندگی موجود ہے۔ فاٹا کے کے پی کے میں ضم ہونے کے بعد ان کی پارٹی سکڑ جائے گی اور اس کی نمائندگی کم سے کم تر ہوجائے گی کیوں کہ جہاد کے حوالے سے مذہبی درس گاہوں کی وجہ سے ان کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہے۔مگر ان کا فاٹا میں کوئی ووٹ بنک نہیں ہے اور نہ ہی اس کی امید ہے کہ ان کے ووٹ بنک میں اضافہ ہوگا۔ نیز مولانا فضل الرحمان اور ان کی پارٹی کی اہمیت مزید کم ہونے کے امکانات ہیں۔ شاید اس لیے انہوں نے فاٹا کو کے پی کے میں شامل کرنے کی مخالفت کی۔ ورنہ دوسری صورت میں مولانا فضل الرحمان کو ہر سال امام کعبہ کو کے پی کے میں آنے کی دعوت دینی پڑتی تاکہ ان کا ووٹ بنک محفوظ رہے۔

دوسری طرف ملک بھر کی جمہوری قوتوں نے اس کی حمایت کی کہ فاٹا میں اصلاحات کی جائیں، اوروہاں پر عوام کے آئینی حقوق بحال کیے جائیں تاکہ ایک ملک کے اندر دو قانون نہ ہوں۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہماری مقتدرہ نے بھی اس کی مخالفت کی۔اس کا اعلان وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے فاٹا کے نمائندوں کی موجودگی میں کیا کہ مقتدرہ اس کی مخالف ہے۔ اس کے بعد محمودخان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان کے بیانات کی وضاحت ہوگئی کہ کیوں فاٹا کو کے پی کے میں شامل کرنے کی مخالفت کی جا رہی ہے، خصوصاً وہاں اصلاحات کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

بلوچستان اور ملک بھر کے جمہوریت پسند اور سیاسی عناصر اس بات کے حق میں ہیں کہ پختونوں کا ایک متحدہ صوبہ ہونا چاہیے اور دوسرے تمام صوبوں سے ان کی نمائندگی ختم ہونی چاہیے، خصوصاً بلوچستان سے نمائندگی نہیں ہونی چاہیے۔بلوچ قوم پرست جماعتوں اور بلوچ رہنماؤں نے کبھی بھی انتخابات کے دوران افغان مفتوحہ علاقوں کا رخ نہیں کیا اور نہ ہی اس کو بلوچ قومی سرزمین کا حصہ تصور کیا۔بلوچوں نے ان علاقوں کو بلوچستان میں شامل کرنے کی مخالفت کی تھی۔ ایک انگریز نو آبادیاتی دور میں اور دوسری بار جب جنرل یحییٰ خان صوبے بحال کر رہے تھے تو اس کی سخت مخالفت کی گئی کہ ان علاقوں کو بلوچ سرزمین کے ساتھ شامل نہ کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر کوئی دوسرا حل نہیں تو ان علاقوں پر فاٹا کی ایک نئی ایجنسی بنائی جائے اور اس کو فاٹا کا حصہ بنایا جائے۔ بہرحال ان علاقوں کا بلوچ سرزمین سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے یہاں کے لوگ وفاق پاکستان میں بلوچ یونٹ کی نمائندگی نہ کریں اور فوری طورپر استعفیٰ دیں۔ان کے بجائے نئے نمائندے بلوچ قومی سرزمین سے چنے جائیں، وہ اپنے علاقوں میں کتنے انتظامی اضلاع بناتے ہیں، ان کی مرضی پر منحصر ہے۔ بہرحال سیاسی طور پر چھ سب تحصیلوں کو ضلع کا درجہ دینے کا مطلب صرف یہ ہے کہ بلوچستان کے انتظامی اخراجات میں مزید غیر ضروری اضافہ کیا جائے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply