گھٹیا افسانہ نمبر 16۔۔۔۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

“رات کے یا شاید دن کے پونے چار بج رہے ہیں، میں تمہیں یاد کر رہا ہوں”. میں فرخندہ کو آخری میسج کر کے سونے آ گیا ہوں.
“صبح بخیر”. صبح اٹھ کر دیکھا تو فرخندہ کا میسج آیا ہوا ہے. میں نے اظہارِ محبت کر کے صبح بخیر کہا ہے. ناشتہ اور تیاری وغیرہ کرکے دفتر آ گیا ہوں. اسماعیل صاحب کو آن لائن کروا کر باس کو ای میل کر دی ہے. تازہ تصویر مسکرا بھیجی تو فرخندہ نے میسج کیا ہے کہ یہ ڈریسنگ تمہیں سُوٹ کرتی ہے. میں نے چُمی والی سمائلی بھیج دی ہے. دفتر کے باقی کام نپٹا کر چاچی کنیز کو کمیٹی کے چھ ہزار موبائل سے ٹرانسفر کرکے فارغ ہوا ہوں. باس نے کال کرکے نجیب مِلز کا لیجر واٹس ایپ پہ منگوایا ہے. میں نے لیجر واٹس ایپ کرنے کے دوران فرخندہ کی طرف سے ملنے والی ویڈیو کا نوٹیفکیشن دیکھ لیا تھا. “آج صبح” والے کیپشن کا کلپ ڈاؤنلوڈ کرنے کے دوران یہی سوچا کہ پورے ملک میں برستے مون سون کی کوئی دلربا ویڈیو ہو گی. مگر وہ کسی نوجوان کے ساتھ کار میں کہیں سفر کر رہی تھی. لڑکا مسکرا رہا تھا. فرخندہ کی پتلی پتلی ٹانگوں پہ اُس کی پسندیدہ نیلی جینز میرا منہ چِڑھا رہی تھی. میں خاموش ہو گیا ہوں.
“واؤ… گوڈ اینڈ گریٹ”. میں نے میسج بھیج دیا ہے. دماغ ماؤف ہو گیا ہے. میرا سانس رک رہا ہے. میں باہر برآمدے میں آ گیا ہوں. میرا حلق جل رہا ہے. میں نے اِدھر اُدھر پانی دیکھنا شروع کر دیا ہے. میں نے ایک گھونٹ میں پورا گلاس پی لیا ہے. میں نے زرا سانس لیا تو مجھے متلی آنے لگ گئی ہے جیسے پانی کی جگہ پیشاب پی لیا ہو. عابد کا مون سون بارے ایک میسج آیا ہے. کاپی کرکے فرخندہ کو بھیجا تو اُس نے بتایا ہے کہ یہاں بھی بارش ہو رہی ہے.
“تم اب تک جتنوں لڑکوں سے ملی ہو یہ اُن میں سے بہتر لگ رہا ہے”. میں نے میسج کیا ہے.
“نہیں. وہ ایوریج تھا بس. مگر میں اُس کی طرف مائل ہو رہی ہوں”
“میں اپنی بات پہ قائم ہوں”
“تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو”
“میں نہیں سمجھا پاؤں گا”
“اوکے”. فرخندہ نے میسج کیا ہے. مگر ابھی دوسرا بھی آ گیا ہے کہ”ہاں ایسا بھی نہیں کہ اُس میں خوبیاں ہی نہیں. ہاں لیکن وہ بستر میں ایوریج تھا، وہ پہلی مرتبہ کر رہا تھا”
“تم نے اُس کے ساتھ سیکس کیا ہے؟”. یہ میسج لکھ کر ڈیلیٹ کر کے یہ میسج بھیج دیا ہے کہ” کچھ عرصہ تک بہتر ہو جائے گا”.
“ہا‌ں مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے”. اُس نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ہے. میں یکسر اُڑ چکا ہوں. تباہی کے گڑھے کے نردیک… مکمل خاموشی کے تقریباً پندرہ منٹ بعد میں نے میسج کیا تو کہہ رہی ہے کہ وہ مارکیٹ میں شاپنگ کر رہی ہے. یہ آج صبح اِس لڑکے کے پاس گئی ہو گی یا شاید رات رہی ہو ساری….. مجھے اکرام نے پوچھا تو میں بتا رہا ہوں کہ مجھے بھوک نہیں وہ لنچ کر لے. ارے لنچ بریک بھی ہو گئی. مجھے معلوم ہی نہیں ہو سکا. وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے. واٹس ایپ کی گھنٹی بجنے پہ موبائل کی طرف ہاتھ یوں لے کر گیا کہ جیسے قیدی کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا جاتا ہے. نصیر پالشی نے پیسوں کا تقاضا کیا ہے. اور وہ کر بھی کیا سکتا ہے. سماج میں انسانیت نظر نہیں آتی. کون دو دو ماہ آٹھ دس ہزار کے لیے بےعزت ہوتا ہے. بھائی پیسے نہیں ہیں. اِس لیے فون نہیں سن رہا. پیسے ہوتے تو آنجناب کو کال کرنے کی مہلت ہی نہ دیتا.
“میں واپس آ گئی”. اُس کا میسج آیا ہے
“سال گزر گیا ہے. میں نے سَر کے بال لگوائے تھے، وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چَل رہا”
“تمہیں اچانک اپنے بال کیسے یاد آ گئے”
“ڈاکٹر کی کال آئی تھی ابھی”
“بڑی بات ہے، یہ دنیا بدل رہی ہے، دنیا اب کسٹمر سروس پہ کام کر رہی ہے. تم نہیں بدل رہے ہو. شوق پیدا کرو. تڑپ پیدا کرو”
“او بی بی وہ بقایا فیس کیلئے کال کر رہا تھا اُسی نے بتایا کہ سال گزر گیا ہے”
” تم نے فیس کی قسطیں کروائی تھیں؟”
“ہاں تو اور کیا کرتا. اچھا چھوڑو دن کیسا گزرا”. وہ شاپنگ بارے بتانے لگ گئی ہے. کیا کیا خریدا. میں نے پورے ملک میں برستی بارش بارے بتایا ہے. پھر میں نے میسج کیا ہے کہ”یہ خوش نصیب کون تھا. جھلک ہی نہیں پڑنے دی، پتہ ہی نہیں لگنے دیا”
“بتایا تو تھا تمہیں. یاد نہیں رکھتے چیزوں کو. انیلہ کا چھوٹا بھائی تھا جس کے ساتھ ایک مرتبہ کھانے پہ گئی تھی”
“اوہ اچھا میں سمجھا کوئی نیا ہے”
“نہیں مجھے اب اندھی ملاقاتوں پہ اعتبار نہیں رہا”
“چھا گیا پھر تو پپو”
“ہاں تین ماہ گفتگو کے بعد ملی ہوں، بتایا تو تھا کہ پچھلے ہفتے بھی ملنے کا کہہ رہا تھا جب تم کہہ رہے تھے”
“خوش نصیب ہے وہ”
“دو مرتبہ سوچا کہ تمہیں نہ بتاؤں”
“کیوں”
“کہ تم ہرٹ ہو گے”
“تو اب کیوں بتایا”
“یہ سوچا کہ تمہاری بھی تو بیوی ہے”
“درست سوچا”
“اگر مجھے کوئی چیز مل رہی ہے اور اچھی چیز مل رہی ہے تو کیسی مزاحمت”
“آج نہیں تو کل”
“اور میں بہت زیادہ فرسٹریشین میں رہی ہوں اس ہفتے. کچھ پڑھ نہیں سکی”
“اچھا کیا”
“یہی سوچا کہ خود کو آزاد چھوڑوں. جدھر کو دل جاتا ہے ادھر جاوں”
“یہ اچھا فیصلہ کیا”. میں نے دل پہ پتھر رکھ کر میسج کیا ہے.
” ہاں”. اُس نے جواب دیا ہے. میں خاموش ہو گیا ہوں. مجھے فرخندہ کو بلاک کر دینا چاہیے. فیس بک پہ. واٹس ایپ پہ. فون نمبر پہ بھی.
“میں ردعمل دینا چاہتا ہوں”. میں نے میسج کیا ہے.
“ہاں. تم کرو”
“کیا مجھے خوفزدہ ہونا چاہیے”
“نہیں”
“دوبارہ سوچو، کیا میں محفوظ ہوں”
“تم کیسی باتیں کر رہے ہو”
“ہاں تم محفوظ ہو”
“دوبارہ سوچو”
“میں اپنے کنٹرول میں ہو‌ں” اُس نے قہقہے والی سمائلی بھیجی ہے.
“میں تمہارے ساتھ مزید نہیں رہنا چاہتا. میں تمہیں بلاک نہیں کر رہا”
“اوکے. کوئی مسئلہ نہیں”
“نہ ہی تمہیں اپنی زندگی سے نکال رہا ہوں”
“پھر کیا کر رہے ہو؟”
“اپنا دل واپس مانگ رہا ہوں”. ساتھ میں نے آنکھ مارنے والی سمائلی بھی بھیجی ہے. میرے دل پہ آرے چَل رہے ہیں. مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے چودھریوں کے بیٹے رات میرے گھر میں گھس کر میرے ساتھ زبردستی بدفعلی والا زنا کر گئے ہیں.
“کیا میں وجہ پوچھ سکتی ہوں”
“بہت آسان ہے فرخندہ. تم نے کسی کے ساتھ سیکس کیا ہے. میں تمہارے ساتھ مزید نہیں رہ سکتا”. اِسی اثنا میں نصیر پالشی کی کال پہ کال شروع ہو گئی. میں نے موبائل کی گھنٹی بند کر کے اُسے دور رکھ دیا ہے. انعام نے مجھے چوتھا گلاس بھرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگا ہے کہ “ملک صاحب بس کرو، مرنا ہے کیا؟”
بھونک مت سور کے بچے”
“بندہ بات نہ کرے ملک صاحب آپ سے کوئی، کتوں والا رویہ اختیار کر لیتے ہیں. خود کو سنبھالیں. بلکہ اپنا علاج کروائیں کسی اچھے حکیم سے”. انعام آنکھ مار کر مجھے جواب دے رہا ہے. میں نے دھی کا چمچ منہ سے نکال کر پلیٹ میں رکھ دیا ہے، ساتھ پڑے موبائل پہ نظر پڑی تو اٹھا لیا ہے. واٹس ایپ اور میسج دیکھے ہیں. نصیر مستری کا میسج آیا ہوا ہے. پندرہ بیس کال بھی آئی ہوئی ہیں. فرخندہ کہیں مصروف ہو گی. شاید بھائی کے گھر ہو گی کیونکہ اُس کی بھابھی بیمار تھی. لیکن وہ رات سے اُس کے ساتھ تھی یا آج صبح اُس کے ساتھ جانے کی ویڈیو بھیجی ہے. فرخندہ کو میسج آیا ہے کہ
“اوہ اچھا. اوکے”
“ہاں ہمارا بریک مگر وہ والا نہیں بچوں والا”
“ہاں میں سمجھ رہی ہوں یعنی ہم. رابطے میں رہیں گے مگر بوائے فرینڈ گرل فرینڈ نہیں” فرخندہ کا میسج آیا ہے. میں نے بوتل اٹھا کر گلاس بھرنا چاہا تو فرخندہ کی کال آ گئی ہے. میں نے گلاس بھرنے کی بجائے بوتل اٹھا کر اُس میں ہی ٹوٹی سے پانی بھرنا شروع کر دیا ہے. انعام مجھے نفرت انگیز نگاہوں سے دیکھ رہا ہے. میں نے کھانے کا اشارہ کیا ہے. فرخندہ کو کال کرنے کا میسج کرکے باہر آ گیا ہوں. برآمدے آ کر چارپائی پہ بیٹھا تو دیکھا ابھی تک بارش ہو رہی ہے. میں بات کر رہا ہوں وہ سن رہی ہے. فرخندہ بول رہی ہے میں سن رہا ہوں. فراز کا شعر سنایا ہے. وہ سن رہی ہے. وہ بول رہی ہے. میں سن رہا ہوں. میں واپس کمرے میں آیا تو کباب اور پکوڑے آ گئے ہیں. میں نے ڈھیر سارا کھایا ہے. موبائل چارجنگ پہ ہے. میں نے کباب اٹھا کر پیپسی کے گلاس میں ڈبو کر کھانے لگا تو انعام بولا کہ “جناب ملک صاحب یہ رائتا نہیں ہے”.
“اچھا مجھے لگا یہ رائتا ہے، میرا دماغ کہیں دوسری جگہ ہے”
“آپ شراب پی پی کر دھت ہیں ملک صاحب. آپ کی بہن نکل جائے تو آپ کی کیسی حالت ہو گی. ویسی ہی حالت ہے اِس وقت آپ کی”
“افروز کو فون کرو کہ کل مجھے لازمی ٹائر تبدیل کر دے، مجھے شاید کندھ کوٹ جانا پڑے”
“کراچی جانا ہو گا تجھے”
“او نہیں یار واقعی کندھ کوٹ جانا ہے. باجی کے سسرال کوئی شادی ہے. اب بہنوں کے وزن بھی تو اٹھانے ہوتے ہیں”
“ابھی تو تو نے اپنی بڑی باجی کو ستر ہزار بھیجے ہیں”
“او کتی کے بچے اگر وہ سمجھتی ہے کہ اُس کا بھائی سکھر میں بڑا افسر ہے تو کیا اُس کا مان توڑ دوں”
“جناب کچھ عرصے تک جیل میں ہوں گے”
“کسی کے باپ کی جرات نہیں ہے اتنی. انعام میں جیل نہیں جاؤں گا. دیکھنا ایک دن سیاہ دن گزر جائیں گے. ہمارے دن بدل جائیں گے. اگر دن وہ نہیں رہے جب میرے پاس شہر کی بہترین کاروں میں سے ایک تھی. تو دن یہ بھی نہیں رہیں گے کہ ایک کلٹس پہ پھر رہا ہوں”
“جناب ملک صاحب. آپ کے پاس کیا رہ گیا ہے. تینوں پلاٹ آپ بیچ چکے ہیں. دونوں کاروبار ٹھپ ہو چکے ہیں. آپ کہیں نوکری کر رہے ہیں. مجھے لگتا ہے کچھ ہفتوں بعد موٹر-سائیکل پہ ہوں گے”
“مجھے سموسے کی ریڑھی بھی لگانی پڑے مجھے فرق نہیں پڑتا”
“یار انعام پوری مارکیٹ میں چھ سال سے مندی ہے. میں مسلسل نقصان اور خسارے میں جا رہا ہوں. میرے پاس سرمایہ ہی کتنا تھا کاروبار کے لیے. یہی تین چار کروڑ، یہاں اربوں کھربوں والے کاروباری بیٹھے ہیں. جتنا ہمارے پاس سرمایہ ہے وہ اُس سے زیادہ ہم چھوٹے سرمایہ داروں کے چھوٹے چھوٹے کاروبار برباد کرنے پہ لگا دیتے ہیں”
“تو تم کیوں اُن کو مقابل ٹھہراتے ہو”
“بس پہلے یہی غلطی کی، اب نہیں کروں گا”
“ملک صاحب آپ کراچی جانا اور تعلقات کی بجائے عشق پالنا چھوڑ دیں، آپ انتہائی سیانے آدمی ہیں. شراب کم کر دیں. یہ کام کر لیں. آپ کے دکھ ختم. مسائل ختم”. میں ایسے اداکاری کر رہا ہوں جیسے انعام کی بات غور سے سن رہا ہوں. فرخندہ کو میسج کیا ہے کہ “تم گھر میں خود کو جنسی آسودگی کا سامان کرتی رہتی ہو، مجھے کچھ برا نہیں لگتا، تم نے اُس لڑکے کے ساتھ سیکس کیا ہے، مجھے برا لگ رہا ہے”
“یہ میری ضرورت تھی، خاص طور پر آج کل تو بہت تھی. اس بات کو سمجھو. میں اپنی پوری نیت کے ساتھ تمھارے پاس ضرورت پوری کرنے آئی تھی، مگر نہیں ہو سکی. بلکہ چیزیں اور بگڑ گئی. اب بتاؤ میں کیا کرتی. پہلے تمہیں یہاں بلانے کے لیے پیسے دیتی پھر تم مجھ سے سیکس کرنے یہاں کراچی آتے”
“مجھے اِن ساری باتوں کا علم ہے، مکمل علم ہے، مگر پھر بھی اداس ہوں. پھر بھی دکھی ہوں”
“مجھے علم ہے، ایسا ہوتا ہے پیار میں. جب مجھے ٹونی نے تمہارے بارے بتایا تھا مجھے بھی ایسے ہی برا لگا تھا”
“میں نے کسی کے ساتھ سیکس نہیں کیا”
“لیکن تمہاری بیوی تو ہے. لیکن میں تمہاری قدر کرتی ہوں”
“نہیں کرتی ہو قدر”
“یہ ہمارے تعلق کے برے دن چل رہے ہیں. ہمیں بہتری کی کوشش کرنی ہے. تم یہ بھی تو دیکھو کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ سیکس کر رہے ہو”
“کیا میں نے تمہاری جنسی ضرورت سے انکار کیا ہے؟ لیکن تم نے جلدی کی ہے. بہت جلدی کہ ہے. لیکن میں تمہاری حالت سمجھتا ہوں. ایسا ہونا ممکن ہے. ایسا ہوتا ہے. یہ انسانی ہے، غیرانسانی مہین ہے. لیکن مجھے ابھی تک برا محسوس ہو رہا ہے. میں نے کبھی ڈیمانڈ بھی نہیں کی. کبھی وعدہ وچن بھی نہیں لیا. پھر بھی برا لگا. شاید وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نارمل ہو جاؤں. مجھے شراب پینی چاہیے”
“نہیں میں نے جلدی نہیں کی. آج کے میڈیائی دور میں تین چار ماہ برداشت کرنا بڑا انتظار ہے. جب تم مکمل میسر تھے میں نے کہیں منہ نہیں مارا”. فرخندہ نے بجا طور پہ میسج کا جواب دیا ہے. ساتھ ہی دوسرا میسج بھیج دیا ہے کہ “پھر اُن نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اِس لڑکے کو ڈیٹ کرو”
“یہ تو تم بکواس کر رہی ہو”
“تم نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ فرخندہ میری بن جاؤ”
“ابے چَل”
“تم تو یہ تاثر دیتے ہو کہ تمہیں نہیں پروا کہ میں کہاں جاتی ہوں”
“چوتیا سالی”
“تم نے ہی تو کہا تھا کہ جاؤ جا کر بچے پیدا کرو”
“ابے چل بکواس پہ بکواس کیے جا رہی ہو. فضول بہانے مت تراشو. سیکس تمہاری ضرورت تھی، تم نے پوری کی، لیکن فضول بکواس بہانے مت بناؤ”
“تم میرے ساتھ محبت کا کھیل کھیل رہے ہو. نہ اپنا بنانے کا کہتے ہو اور نہ ہی کسی دوسرے کو ہونے دیتے ہو”
“پہلے برا محسوس ہوا تھا، اب نہیں ہو رہا. لیکن چولیاں مت مارو”
“میں نے تمہیں خود کو سپرد کر دیا تھا. لیکن تم سنبھال نہیں پائے”
“تمہارا کیا خیال ہے مجھے سنبھالنا نہیں آتا یا سنبھالنا نہیں چاہتا. کون بیوقوف تم جیسی کو ہاتھ سے جانے دے سکتا ہے؟” میرا دماغ ہل رہا ہے. شراب کی دوسری بوتل بغیر پانی کے پی چکا ہوں. میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا ہے. درد سینے کے باہر محسوس ہو رہا ہے. بارش ہو رہی ہے. مسلسل ہو رہی ہے. مجھے اُس کے ساتھ گزارے گئے ایک ایک دن کا ایک ایک لمحہ یاد آ رہا ہے.
“مجھے بستر میں جانے سے قبل ہی علم تھا کہ وہ کچھ نہیں کر پائے گا. لیکن میں اُس کو مل کر خوشی محسوس کر رہی ہوں”. مجھے ایسے لگ رہا جیسے کوئی میرے نالا کھول رہا ہوں. جیسے میری شلوار پاؤں میں گری پڑی ہے.
“بہت عیاش عورت ہو تم. گھٹیا. کتیا. بےغیرت. حرامزادی. لاکھ لعنت. مر جاؤ. میری محبت میں میرا انتظار کرنا چاہیے تھا”
“تمہیں بھی محبت میں میرے لیے بہت کچھ کرنا تھا، اُس کے بارے میں سوچا ہے”
“غور کیا ہے. اسی لیے تو چپ ورنہ گولی نہ مار دیتا” بےبسی کی وجہ سے میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ہیں. میرے ہونٹ خشکی سے کھرانڈ بن رہے ہیں. میرے ہونٹوں پہ ذہریلی مسکراہٹ کھیل رہی ہے.
“میں عیاش نہیں ہوں میں صرف اپنے دل کی مان رہی ہوں”. وہ درست کہہ رہی ہے. انسان کتنے دن برداشت کر سکتا ہے. ایک ایسی عورت جو زندگی کے اتار چڑھاؤ دیکھ چکی ہے کے لیے تین ماہ سیکس کے بغیر گزارنا ناممکن ہے.
“مجھے تم سے محبت ہے فرخندہ”
“میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں. مجھے سچ بتانے کی سزا مت دو ورنہ تم سے چھپا بھی سکتی تھی”
“حقیقت یہ ہے کہ میں ہرٹ نہیں ہوا، سوائے اولین پندرہ بیس سیکنڈوں کے”. میں نے جھوٹ بولا اور خود تسلی دی ہے کہ اُس کو بھی تسلی ہو گئی ہو گی. اپنی محبوبہ کو کسی دوسرے کے سپرد کرنا انتہائی دردناک ہوتا ہے. اِس کا دکھ بیان نہیں کیا جا سکتا. اب چودھریوں کے لڑکے اگر میرے گھر گھس آئیں اور میرا نالا کھول کر میری شلوار ساتھ لے جائیں، اور اُس کے بعد مجھے کوئی کہے کہ درد کو بیان کرو تو کون سے ایسے لفظ اور فقرے تلاش کروں گا جو میرے درد کو بیان کر سکیں. میرے رقبے بک گئے. میری مل بینک نے ضبط کر لی. میں بڑی مشکل سے تینوں بچوں کو اُسی سکول میں پڑھائے جا رہا ہوں جہاں وہ پڑھتے تھے. کبھی کبھار میرے پاس پیسے نہیں بچتے تو جبران سے مانگنے پڑ جاتے ہیں. اب سالار قاسم کی فیکٹری میں کام مل گیا ہے. کلٹس کار اور اپنے ہی مکان کا کرایہ پورا ہو رہا ہے. میں ضبط میں ہوں. میری عزیز از جاں محبوبہ کو کوئی دوسرا ساری رات اپنے پاس رکھتا ہے. میں کٹ کٹ کر گر رہا ہوں. میرے خون کے چھینٹے اندھیرے میں گم ہو رہے ہیں. انعام بولا ہے کہ “ملک صاحب جاؤ جاکر سو جاؤ رات کے تین بجنے والے ہیں. گھر بار بھی ہے کہ بیچ دیا”. ساتھ ہی فرخندہ کا میسج آیا ہے کہ “تم خود کو اُس لڑکے کے ساتھ کمپئر مت کرو. وہ بچہ ہے. آج ہے. کل نہیں ہو گا. وہ سیکس کر رہا تھا. مجھے ہنسی آ رہی تھی. لیکن اُس کو یہی باور کروا رہی تھی کہ واہ مزہ آ رہا ہے”. اُس کے وائس میسج کے لفظ میرے کانوں میں ایسے اتر رہے تھے جیسے کوئی پیپ میرے منہ میں انڈیل رہا ہو. کتا آئے میرے منہ سے روٹی کا ٹکرا چھین کر لے جائے. دوسرا کتا آئے میرے ہاتھ سے تھیلا چھین کر لے جائے. تیسرا کتا آئے میرے اوپر بھونکتا رہے. میں خاموش رہوں. میری حالت ایسی ہی ہے. میں نے سوالاً میسج کیا ہے کہ “رات گزاری تھی”
“ہاں”
“کہاں”
“ملیر ریور کے ساتھ کہیں”. مجھے لگا میری قبر کھودنے کی بات کر رہی ہے
“اچھا اُس کے پَلے کچھ نہیں تھا. ایک دو ہاتھ قدم کا سفر نہ شغل کروا سکا نہ لطف دے سکا”
“تمہیں یاد ہے ایک بار آواری ہوٹل کی بالکونی میں بیٹھے میں نے تمہیں فلسفہ بتایا تھا. دنیا میں المیہ خیر اور شر کے مابین جنگ کا نتیجہ نہیں ہے. بلکہ المیہ دو خیر کے مابین جدل کا نتیجہ ہے. تم اپنی جاہ درست ہو. میں اپنی جگہ درست ہوں. پھر بھی ہم ساتھ ہیں. ہمارا تعلق ارتقاء پزیر ہے. ہم سیکھ رہے ہیں”. میں کسی دوسرے کو اپنی حالت سمجھانے جاؤں تو دنیا میں کس کو سمجھا سکتا ہوں. فرخندہ کے علاوہ مجھے کوئی نظر نہیں آ رہا. بارش ہو رہی ہے. میں نے کار کے وائپر بند کرکے بوتل کے آخری گھونٹ حلق میں اتارے ہیں. فرخندہ کے علاوہ کسی دوسرے کو یہ بتانے کے قابل نہیں کہ میں ایسا سب کچھ کیوں کر رہا ہوں. فرخندہ کا میسج آیا ہے کہ “اگر خوراک لباس رہائش ریاست کے ذمہ ہوتی تو ہم مَن چاہی عیاشی کرتے جس کے بعد اپنے ہی کیے عمل کی وضاحتیں نہ دینی پڑتیں

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply