صنفِ لطیف۔۔۔۔محمد خان قلندر

شازی عجیب طرح دار عورت ہے، اپنے گھر میں پیشہ کرتی ہے،شام کو چار پانچ بندوں کو ون بائی  ون ٹائم دیتی ہے،اس کا ملازم دس ہزار ایڈوانس وصول کر کے بندے کو اس کے کمرے میں چھوڑ جاتا ہے،وہ اسے چائے  پلاتی ہی گپ شپ کرتی ہے، پسند نہ آئے  تو معذرت کر لیتی ہے،اور ملازم ایک ہزار کاٹ کے نو ہزار بندے کو واپس دے کر رخصت کر دیتا ہے۔
اگر کوئی  بھی اسے پسند نہ آئے  تو سب کو واپس کرنے میں اسے کوئی  ملال نہیں  ہوتا۔۔۔۔اگر پہلا بندہ ہی پسند آ جائے  تو باقیوں کو اگلے دن کا ٹائم دے دیا جاتا ہے،
دو مرتبہ خالی ہاتھ واپس آنے کے بعد،تیسری دفعہ ملازم کو اعتماد میں لے کے پوچھ لیا کہ  شازی کا کسی مرد کو پسند کرنے کا معیار کیا ہے۔۔؟
تو ہنس کے بولا، چائے  پینے کا سٹائل،
ذہن پہ  زور دے کے پچھلی ملاقات یاد کی تو چائے  کو ہم نے سُڑک لیا تھا،شازی کو تو یاد ہی نہیں  تھا کہ پہلے بھی حاضری ہو چکی ہے۔۔۔۔اس مرتبہ ہمارا نمبر پانچواں تھا۔
،پہلے والے چاروں واپس ہو چکے تھے۔۔نوکر کی  دی ہوئی  ٹپس کے مطابق ہم نے پرفارمنس بھی اچھی دی ،اور ہمیں حریم ناز میں جانے کی رسائی  مل گئی  ،جہاں کا ماحول بھی دلکش تھا۔
شازی بھی صدقے واری جانے کے موڈ میں ہو گئی  ،مدھم روشنی کے ساتھ ہلکی آواز میں میوزک بہت فرحت آمیز تھا،قربت کی ابتدائی  منزلیں طے کرتے ہوئے  ،ہم نے بہت محبت بھرے انداز میں یہ سوال پوچھ لیا  کہ وہ ہم بستری کے لیے   مرد کیسے اور کیوں چنتی ہے؟۔۔۔۔۔
وہ حیران سی ہوئی  ، اور جام نئے  سرے سے بناتے ہوۓ بولی ،
پہلے کیوں کا جواب یہ کہ۔۔۔
عین اسی طرح جیسے آپ میرے پاس مجھے پسند کرنے کے بعد آئے ہیں۔
اسی طرح یہ میرا حق ہے ۔
جس مرد کے ساتھ میں سونے جا رہی ہوں وہ اس قابل ہے کہ میری خواہش کے مطابق میری ضرورت پوری کر سکے، اب میں بھی انسان ہوں کوئی  اگال دان تو نہیں  کہ کوئی  اپنی پیک اس میں انڈیل کے چلتا بنے،
اور کیسے کا جواب یہ کہ مرد کی خصلت  چائے  پینےکے انداز سےپہچانی جاتی ہے،گرم گرم پینے والا جلد باز،ساسر میں ڈال کے پینے والا اجڈ،اور شر شر کر کے چائے  پینے والا ہمیشہ کمزور مرد ہوتا ہے،
جو چائے  کا کپ منٹ میں خالی کر دیتا ہے وہ میرے ساتھ کیا کر پائے  گا،

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں یوں لگا کہ کوئی  ڈاکٹر مریض کی ٹیسٹ رپورٹ دیکھ کر  اسے اس کی بیماری کی علامات سمجھا رہا ہو، اور مریض اس ہر علامت کو محسوس کر رہا ہو،ہم کافی دیر مبہوت اس کی شکل دیکھتے رہے،
تو اس نے اٹھ کے ایک اور ڈرنک بنا کے پکڑاتے ہوئے کہا۔۔۔آپ دلچسپ انسان ہو، مجھے بھی انسانوں کو سمجھنے اور پرکھنے میں مزہ آتا ہے۔
وہ بیڈ سے اٹھ کے صوفے پر جا بیٹھی، پردے کھینچ کر کھول دیئے،
ہم پریشان سے ہو کے بیڈ پر ہی تکیہ گود میں رکھ کے پاؤں لٹکا کے بیٹھ گئے۔۔۔
کمرے میں اتھاہ خاموشی اور سکوت طاری ہو گیا، ہمت کر کے ہم نے یہ پوچھا۔۔۔۔کیا آپ کو کوئی  ایسا مرد ابھی تک نہیں  ملا ، جس سے نتھی ہو کے اس مشقت سے جان چھڑا لیتی۔
وہ تڑپ کے کھڑی ہو گئی، گلاس میں نیٹ ڈرنک اور ڈال کے دو تین لمبے گھونٹ لئے،
ہم ششدر رہ گئے کہ اسے نہ ہچکی آئی  نہ اس نے ڈکار لی، ورنہ اتنی ڈرنک غٹغنے سے بندہ ہل جاتا ہے۔
شازی میرے ساتھ چپک کے بیٹھ گئی، ایک ہاتھ میں جام تھا دوسرا ہاتھ میری کمر میں ڈال کے بولی ۔۔۔۔۔پہلے تو کسی کے ساتھ نہ ایسے بات ہوئی  اور نہ کوئی  اتنا پسند آیا کہ جس کو اپنی زندگی سونپ دیتی،
لیکن ۔۔۔ آج اور ابھی ابھی شدید خواہش امنڈ آئی  ہے کہ تم مجھے اپنا سکو تو میں تمہاری ہوں ۔۔
مجھے چار سو چالیس وولٹ کا کرنٹ لگا،اچھل کے بیڈ سے اتر کے کھڑکی کی طرف منہ کر کے چند لمبی سانسیں لیں،مُڑ کے دیکھا تو وہ نیم برہنہ سی بیڈ پے لیٹ گئی تھی،اڑے حواس کو مجتمع کرتے میں نے اسکا اور اپنا ایک جام اور بنایا، لیکن کوئی  جواب نہیں  بن پا رہا تھا۔۔۔
اس نے گلاس پکڑ کے ، کہنی کے بل لیٹے لیٹے مجھے بہت غور سے دیکھا۔۔۔
میں نے بڑبڑاتے ہوئے بولنے کی کوشش کی، اس نے اشارے سے چُپ کرا دیا،
تھوڑی دیر کے بعد وہ بیڈ سے اٹھ کے واش روم گئی،واپسی پے تولیہ سے منہ ہاتھ خشک کرتے مسکرا کے کہنے لگی،سر ! آپ شریف انسان ہیں، نیک دل ہیں ہمدرد ہیں لیکن مرد نہیں  !
ملازم سے اپنے پیسے واپس لے لیجئے گا، آپ جا سکتے ہیں۔۔۔
سر جھکائے ہم کمرے کا دروازہ کھول رہے تھے، تو اس نے کہا،
سر آپ اگر میری ذمہ داری لینے پر تیار ہو جائیں تو ضرور واپس آئیے گا
میں انتظار کروں گی ۔۔۔۔
اس گفتار کا جواب نہ تب ہمارے پاس تھا نہ اب ہے !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply