میں تم سے محبت نہیں کرسکتا۔ہمایوں احتشام

تم ہمیشہ سے مجھ سے شکوہ کناں رہیں کہ میں نے کبھی تم سے محبت و الفت کے چار لفظ بھی نہیں بولے، میں نے تمہاری ناگن سی گھنی زلفوں کو لاڈ میں آکر کبھی نہیں سنوارا، تمہاری غزال سی نشیلی آنکھوں سے چھلکتے آنسوؤں کی ندیا سے کبھی اپنے لبوں کو سیراب نہیں کیا، تمہاری سمندر سی گہری آنکھوں میں کبھی غوطہ زن نہیں ہوا، راتوں میں جب سارا جہان سوتا ہے اور دل والے ایک دوسرے سے راز و نیاز کی باتیں کرتے ہیں، میں نے کبھی طولالت کے ساتھ تم سے باتیں نہیں کیں۔ میں تمہارے نزدیک رہ کر بھی کوسوں تم سے دور رہتا ہوں، شاید جیسے میں کسی اور جہان کا ہوں۔ جب بھی تم نے قریب آنا چاہا تو میں ہٹ کر دو قدم مزید دور ہوگیا۔

تمہیں مجھ سے شکوہ ہے کہ میں تمہیں اپنے اندر اپنے باطن میں جھانکنے نہیں دیتا۔ تم مجھے عجیب و غریب سمجھتی ہو، اور شاید سمجھنا تمہارا حق بھی ہے، کیونکہ بھائی کی لاش پہ کھانا کھانے والی دنیا میں مابدولت ایک عجوبہ ہی ہے۔ تم کہتی ہو کہ میں کبھی کبھی تم سے اجنبی ہوجاتا ہوں، جیسے ایک لمحے کی بھی شناسائی نہ ہو، اور کبھی ایسا کہ یک جان دو قالب۔ اس کی سریلی زبان کے الفاظ ہوتے ہیں کہ میں تمہیں بالکل نہیں سمجھ پاتی۔

کیا تم جانتی ہو کہ تم مجھ سے روزانہ ڈھیروں باتیں کرتی ہو، کبھی روتی ہو تو کبھی قہقہ مار کے ہنستی ہو۔ میں خود سے پشیمان ہو جاتا ہوں جب میں تمہارے قہقہے پہ ہنس نہیں پاتا، میں تمہارے درد پہ رو نہیں پاتا۔ اس کی وجہ نا جانے کیا ہے، خود سے بیزار میں اس کی وجہ دریافت نہ کرسکا۔ تمہارے قصے سنتا ہوں اور تمہارے خاندان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات بھی، مگر میں کبھی متاثر نہ ہوسکا۔ شاید ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا۔ میں تمہاری بہن کی تمہارے بقول علمی قابلیت کا معترف تھا مگر جب اس سے بات کی تو “ایک قابل انسان” کی سوچ پہ مبنی سارا محل دھڑام سے زمین بوس ہوگیا، اور میں اکتا کر اٹھ آیا۔ میں سچ میں ان سے بہت کچھ سیکھنا چاہتا تھا۔

مگر سنو! اس سب کے باوجود میں نے تمہیں ہمیشہ باور کرایا کہ میں تم سے یکسر الگ ہوں۔ میں تمہیں اپنے ساتھ زندگی بتانے کے  جھوٹے سپنوں بھری داستان نہیں سناتا اور نہ میں کبھی شہزادی کی مانند تمہیں اپنی ہمسفر بنانے کی تسلیاں دیتا ہوں۔

میں فقط یا شاید اس دریچے میں جھانکنے یا در پہ دستک دینے کا خواستگار ہوں جس میں تم پہلے سے ہی میری منتظر بیٹھی تھیں۔ شاید!! مجھ سے یہی خطا سرزد ہوئی۔ شاید!!
تمہیں میری اپنے دوستوں کے ساتھ سیاسی موضوعات پہ گفتگو بالکل پسند نہیں ہے، شاید کسی اور خاتون کو بھی نہ ہوتی۔ میں سچائی کو کھلے دل سے سےقبول کرتا ہوں۔ دوستوں کے ساتھ رونما ہونے والے مسائل میں ان کا ہم نوا اور مددگار بن جانا بھی تمہیں بالکل نہ بھاتا تھا، شاید کسی اور کو بھی نہ من بھاتا۔ مگر میں ایسا ہی تھا اور ہمیشہ رہا ہوں۔ پسماندہ علاقوں کے باسی اجتماعیت پہ یقین رکھتے ہیں ان کے لیے انسان چیزوں  سے کہیں زیادہ اہم اور معتبر ہوتے ہیں۔ اور میں ٹھہرا پسماندہ وطن سندھ کے گوٹھوں کا باسی۔ جو بنجاروں اور آوارہ گردوں کی مانند سفر پہ یقین رکھتا چلتا جاتا ہے، اس کو نئے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے جو اس کے دل میں گھر کرتے ہیں، لیکن اس کو سفر زیادہ عزیز ہے۔ “اب بھلا ایک بنجارے سے کوئی شہزادی پیار کرلے تو وہ اس کے پاؤں باندھ سکتی ہے ؟”

چلو تمہارے شکوہ جات کے لگے انبار پہ کچھ باتیں کہتا جاؤں، اب بھلا ایسے میں جب مزدور روٹی کو ترستے ہیں، فاقوں سے خودکشیاں کرلیتے ہیں، بچے کیڑوں  مکوڑوں  کی طرح مرجاتے ہیں، کسان قحط سالی کا شکار ہیں، ہزاروں لوگ کراچی سے غائب ہوجاتے ہیں، کسی کو کچھ پتا نہیں کہاں گئے، تیرہ ہزار بلوچستان کی تعفن زدہ لاشیں، جانتی ہو تیرہ ہزار افراد کی لاشیں، تیرہ ہزار خاندانوں کی موت کی نوید ہے، سندھ سے غائب ہونے والے میرے بھائیوں اور عزیزوں کے گولیوں سے چھلنی اجسام، وہ ایک لاکھ شہدا جو مذہب کے نام پہ مار دیے گئے، بلدیہ ٹاؤن کے دو سو ساٹھ جھلسے ہوئے لاشے جن کی شناخت تک ممکن نہیں، وہ گڈانی میں جلے مزدور، انصاف کے لیے ایڑیاں رگڑتے انسان جو روح سے عاری لگتے ہیں، جو دنیا میں جینے کی بس خانہ پوری ہی   کررہے ہیں۔ کیا ایسے ظلم و جبر، ناانصافی، شدید معاشی عدم توازن، بھوک و افلاس اور بےروزگاری کے سیلاب میں محبت ممکن ہے ؟؟؟

تم کسی بے حس کے ساتھ فضا میں خوشیوں کے گلنار کھلا سکتی ہو، تم کسی بے دل انسان کے ساتھ محبت کا چمن زار بسا سکتی ہو، تم کسی انجان کے ساتھ دل کے شبستاں میں ہریالی سجا سکتی ہو، لیکن میں ایسا نہیں کرسکتا۔ شاید مجھ سے ایسا ممکن ہی نہ ہو۔ کیا تم نے کسی کو اپنے مردہ بھائی کی ادھ جلی لاش پہ ناچتے، آتش بازی کرتے، رومانس کے گلچھڑے اڑاتے،ٹھٹھے لگاتے دیکھا ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors

اگر کوئی ایسا ہے تو وہ بدترین بے حس انسان ہے۔ میں ایسا نہیں کرسکتا۔
خدارا!! صرف احساس زندہ ہے، ورنہ اس سرمایہ داری کے عہد میں بھائی بھائی کا قاتل بنا ہوا ہے۔ دولت کے لیے باپ اپنی اولاد کو قتل کردیتا ہے، بیٹی اور بہن کی شادی قرآن سے کروا دیتا ہے۔ خونِ انسان کی قیمت نہایت ارزاں ہے۔ خدارا مجھ سے میرا احساس مت چھینو۔ اگر یہ احساس بھی مٹ گیا تو من حیث الشخص میری موت ہوجائے گی۔ اور میں ایسا لاشہ بن جاؤں گا جس میں روح انسانی کا شائبہ تک نہ ہوگا۔
آہ !!! میری جان من، نہایت غم کے ساتھ کہتا ہوں
“میں تم سے محبت نہیں کرسکتا “۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میں تم سے محبت نہیں کرسکتا۔ہمایوں احتشام

Leave a Reply