اپنے “شہید” لے لو ہمیں”جمہوریت” دے دو ۔زاہد محمود زاہد

سیاستدان: آج کی سیاست میں مذہب کشت و خون کا باعث ہے، قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ مذہب کے سیاسی استعمال کی بیخ کنی کی جائے.
ملا: سیاسی لوگ نظریات سے بیگانہ ہوتے ہیں، اپنے سیاسی قد کاٹھ اور مسافت کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کے اذہان و ارواح پہ حکومتوں کے لیے ‘امیرالمومنین’ اور ‘شہید’ جیسے سابقے اور لاحقے استعمال کرتے ہیں.
سیاستدان: کیا بات کرتے ہو صاحب ؟ ہم نے جو “جمہوریت”،”حکومت”، اور”سرمایہ دارانہ معیشت” کی بساط واپس مانگی تو مسجد و گرجے سے باہر نہ آ پاؤ گے.

سماجی سائنس کی تحقیق میں تنوع کو سمجھنے کے لیے چونکہ کوئی حقیقی آزاد متغیر (independent variable) تو دستیاب ہی نہیں ہے جو علت و معلول (cause & effect) کے تعلق کو دیکھ سکے، اس لیے ارتباط (correlation) کی ضرورت پڑتی ہے جو اسے بہتر طور پر سمجھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے. لیکن ایسے معاشروں میں، جہاں ناخواندگی، نسلی امتیازات، مسلکی تفاوت، معاشرتی ناہمواریاں، سول سوسائٹی، سیاسی عدم استحکام، اور غربت کا ننگا ناچ ہو وہاں یہی ارتباطی خوبصورتی ایک بدصورت لعنت کی شکل میں آشکار ہوتی ہے کیونکہ ہر پہلو دوسرے پہلو کے ساتھ گنجلک نظر آتا ہے نتیجتاً پیچیدگیوں کی گتھی سلجھائے نہیں سلجھتی اور معاشرہ “پاکستان” نظر آتا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

وطن عزیز کے گوں نا گوں مسائل اگر ہمیں سمجھنے اور سلجھانے ہیں تو ہمیں تمام پہلوؤں اور تمام اداروں کے دائرہ کار کا میکانکی تعین کرنا ہو گا اور ان کو صرف اپنی اپنی vocabulary کے استعمال کی حد تک روکنا ہو گا، تب کہیں جا کر ہم مسائل کی تفہیم و تصحیح کرنے کے قابل ہو پائیں گے. مثال کے طور پر سیاسیوں کو بتانا ہو گا کہ قومی مفاد کی تعریف کیا ہو گی اور شخصی مفاد کس زمرے میں آئے گا؟ مذہبی مذہب کی بحث میں ہی مصروف نظر آئے گا اور وہ مغرب، ڈیمو کریسی، اور کیپٹلزم جیسی تشبیہات اور استعارے استعمال نہیں کر پائے گا. ریاستیں قومی ریاست کی جغرافیائی بنیادوں پہ سمجھی جائیں گی نہ کہ داعشی سوچ پر مبنی ہوں گی. سیاست سماجی مسائل کے بہتر حل کے مسابقتی بیانئے کی بنیاد پر ہو نہ کہ مذہبی یا مسلکی وابستگی پر. جو ادارہ ٹھوس اندرونی و بیرونی جغرافیائی استحکام و تحفظ کا ذمہ دار ہے وہ اپنا کام کرے. اور آخر میں صحافتی برادری رپورٹنگ کرے اور حقائق سامنے لائے نہ کہ سیاسی ایجنڈے کے تحت حکومتیں گرانے اور بچانے کا ذریعہ بنے.

Facebook Comments

زاہد محمود زاہد
مصنف نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں بین الاقوامی تعلقات کے طالبعلم ہیں. پاک افغان تعلقات، مذهبی انتہا پسندی، پولیٹیکل اسلام، فرقه واریت،اور امریکه،چین، روس، اور پاکستان کی خارجہ پالیسی ان کی تحقیق کے محور ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply