مکالمہ کانفرنس، ذکر ہماری مایوسیوں کا

ذاتی طور پر مجھے ڈاکٹر طفیل ہاشمی، مولانا زاہد صاحب، حافظ صفوان چوہان،انعام رانا، رانا اظہر حسین (ژاں سارترے) حسنین جمال، عامر ہاشم خاکوانی اور نامور شاعرہ محترمہ فرح رضوی صاحبہ کے ساتھ زیادہ گفتگو نہ کر پانے کا افسوس ہے اور رہے گابلکہ فرح رضوی صاحبہ کے ساتھ تو سرے سے ملنا بھی نصیب نہ ہوا،لیکن امید ہے کہ جلد ہی کسی موقع پر میری یہ خواہش پوری ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ۔لیکن میں جن مایوسیوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ ذرا”وکھری ٹائپ” کی ہیں۔ میں مکالمہ کانفرنس سے پہلے تک انعام رانا کو اچھا خاصا “لبرل”سمجھتا تھا۔ لیکن وہ بھی “پکےپاکستانی اوراسلام پسند” نکلے۔ لندن پلٹ وکیل بابوکے زیر انتظام منعقدہ مکالمہ کانفرنس کے بارے میں امید تھی کہ رنگ و نور سے مزین ہوگی۔ طرب و موسیقی کی لے ہو گی۔ سٹیج پر تھرکتے جسم ہوں گے۔ مقررین ہمیں انٹرٹین کرنے کے لیے شرق و غرب کے فلسفے بھگاریں گے اور حاضرین مجلس اسلام، مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستان کے بارے میں مزید “کنفیوز” ہو کر واپس جائیں گے۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
کانفرنس روایتی طریقے کے مطابق تلاوت کلام پاک سے شروع ہوئی۔ ہمارے عزیز دوست ذیشان بھائی المعروف بہ فصیح امام نے قرآن کی چند آیتیں تلاوت کیں اور پھر انتہا کر دی کہ ان کا ترجمہ بھی بیان کر دیا۔ خواہ مخواہ ہی لوگوں کو قرآن فہمی کی دعوت دے ڈالی۔ بھلا ایک “لبرل سیکولر مکالمہ کانفرنس” میں ایسی حرکیات کی کیا ضرورت۔ لیکن اگر اسی پر بس کیا جاتا تو بھی بات تھی۔ انتظامیہ نے مقررین میں سے ڈاکٹر شہباز منج صاحب کو سب سے پہلے دعوت خطاب دے ڈالی، جنہوں نے آ کربرصغیر میں مسلک و مذہب پر اپنی تحقیق کا خلاصہ پیش کیا۔ ان کے بعد مولانا زاہد صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے مکالمہ کی ساخت، اس کی شرائط اور اس کے فوائد و ثمرات پر گفتگو کی اور اپنی ہر ہر بات پر قرآن و حدیث سے قرائن و شواہد پیش کیے۔ بھلا سوچیں تو”غیرملکی فنڈنگ پر منعقد ہونے والی کانفرنس” میں قرآن و حدیث کی بات کرنے کی کیا تک۔؟ یورپ میں سینکڑوں فلسفی ہو گزرے ہیں، انہی میں سے کسی کا حوالہ بھی تو دیا جا سکتا تھا.ابھی ہماری “مایوسیوں” کا سفر اختتام پذیر نہ ہوا تھا کہ بلال قطب صاحب سٹیج پرآ ئے اور احادیث نبویہ سے استدلال کرتے ہوئے عمدہ اخلاق اور شستہ زبان کے استعمال پر زور دے گئے۔ ایک آدھ مقرر کے بعد پہلے سیشن کا اختتام کرنے اور گفتگو کو سمیٹنے عامر ہاشم خاکوانی صاحب نے مائیک سنبھالا۔ ان سے تو لبرل ازم یا پاکستان مخالف کسی جملے کی ہمیں ویسے بھی امید نہیں تھی۔ سو ہماری امید کے عین مطابق انہوں نے اچھا مسلمان اور اچھا پاکستانی بن کر دلیل کے ساتھ مکالمہ کرنے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی تلقین کی، اور سٹیج سے اتر گئے۔ خدا خدا کر کے وقفہ ہوا تاکہ کھلی ہوا میں جا کر; کثیف دھواں ;پھیپھڑوں میں اتارا جائے اور”غیبت”کر کے من ہلکا کیا جائے۔ اب ایسی بھی کیا”اسلام پسندی”کہ ہال میں سگریٹ پینے کی بھی اجازت نہیں تھی۔
اگلا سیشن انٹرویوز کا تھا، سوچا شای; آزادی اظہار رائے; کا خیال رکھتے ہوئے چند ایسے جملے بھی سننے کو مل جائیں کہ ہمارے اندر کا; لبرل; سکون پائے مگر ہائے افسوس۔۔ ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب سے آغاز ہوا لیکن سوالات دینی مدارس کی بہتری، فرقہ واریت کے خاتمے اور مسلمانوں کی ذمہ داریوں جیسے موضوعات پر تھے۔ ایک بار پھر افسوس ہوا کہ; لبرل ازم کے فروغ کے لیے کوئی بات نہ ہو سکی۔ آخر کار عارف خٹک المعروف بہ “کڑیوں کے لالہ”سے کچھ امید تھی کہ دبنگ انسان ہیں زیادہ نہیں تو”خواتین کے حقوق “پر ہی کوئی بات کردیں گے لیکن وہ بھی”معصوم سے مولوی “نکلے۔ قبائلی علاقوں کے مسلمانوں اور ان کی مشکلات کے بارے میں ایسی باتیں سنانے بیٹھ گئے کہ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ارے بھیا میری آنکھوں میں نہیں بلکہ وہاں موجود دیگر لوگوں کی آنکھوں میں۔ میں تو ٹھہرا لنڈے کا لبرل، مجھے کیا پرواہ بھلا ۔
یہ سب اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھ کر میں نے من ہی من میں فیصلہ کر لیا تھا کہ جب میرا انٹرویو ہو گا تو ساری کسر نکال دوں گا۔ لبرل ازم، سیکولر ازم اور روشن خیالی کا سارا فلسفہ حاضرین کے گوش سے گزاروں گا تاکہ انعام رانا کی”سازش” کے تار و پود بکھر جائیں لیکن اذان ملک نے الٹا میری ہی ساری امیدوں پر پانی بکھیر دیا، یقینا ًوہ اور انعام رانا درون خانہ ملے ہوئے تھے۔ مکالمہ جیسی کانفرنس میں مجھ سےجمعیت علمائے اسلام جیسی اسلام پسند جماعت کے بارے میں سوال پوچھنے لگے۔ اور” شیان پٹی”; تو دیکھیں، نہ ہی ڈیزل کا ذکر کیا اور نہ ہی مولانا فضل الرحمان کے ہر حکومت میں شامل ہونے پر کوئی سوال کیا بلکہ ایسی باتیں پوچھتے رہے جن کے جواب میں مجھے جے یو آئی کی تعریف ہی کرنی پڑی۔ ستم بالائےستم یہ کہ انہوں نے پوچھا مدارس کے فضلاآنے والے وقت کے “کمپلیکیٹڈ چیلنجز” کا مقابلہ کر سکیں گے؟ میری بھی “مولویت والی رگ” پھڑک اٹھی اور کہا آپ مدارس کے فضلا کا کیا پوچھتے ہیں، میرے خیال میں تو یونیورسٹی گریجویٹس بھی ان چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا ایجوکیشن سسٹم فلاپ ہے۔ اب سوچتا ہوں کہ کاش میں ان لمحوں میں” مولوی”نہ بنتا اور مدارس والوں کی خوب برائیاں کرتا لیکن کیا کروں، کانفرنس کی فضا ایسی تھی کہ ڈر لگ رہا تھا کہ اگر کچھ کہا تو “سوٹ بوٹ میں ملبوس اسلام پسند” کہیں مجھے مارنے کو ہی نہ دوڑیں۔ وہاں تو کوئی بچانے والا بھی نہیں تھا۔ لے دے کے میرے دو ہی دوست محمد بلال اورعامر ہزاروی وہاں تھے جو بظاہر “لبرل”بنے پھرتے ہیں لیکن اندر سے “پکے مولوی”ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے یوں ہوا کہ جب سیکس اور سماج کے مصنف سعید ابراہیم گفتگو کر رہے تھے تو دونوں تلملا رہے تھے بلکہ محمد بلال نے تو ان پر سوال بھی جڑ دیا تھا۔
اب اور کیا سناؤں؟؟؟ پوری کی پوری کانفرنس ہی “اسلام پسندوں”کا اجتماع لگی۔ ذرا کسی نے”لبرل ازم یا سیکولرازم”کی بات نہیں کی۔ انعام رانا نے کانفرنس منعقد کی، ملک بھر کے دوستوں کو جمع کیا جیسا کہ بتایا جا رہا ہے، اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کے لیے باہر سے پیسہ اکٹھا کر کے لائے مگرباہر والوںکو خوش کرنے والی کوئی ایک بات بھی نہیں کہہ پائے۔ میں ان کی اس” نا اہلی “پر سخت احتجاج کرتا ہوں اور باہر والوں”سے مطالبہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسی کانفرنسز کے لیے انعام رانا کو ایک دھیلا بھی نہ دیں بلکہ مجھے دیں۔ میں بھی دیکھتا ہوں کہ آخر کب تک وہ تین تین چار چار لاکھ روپے اپنی جیب سے لگا کر ایسی” فیک لبرل کانفرنسز”کرواتے ہیں۔ یہ کالم لکھنے کا مقصد بھی صر ف اور صرف یہ ہے کہ “باہر والوں”تک حقیقت حالکی خبر پہنچ جائے اور انعام رانا کا حقہ پانی بند کیا جا سکے، شاید اس بہانے میرے نمبر بھی بڑھ جائیں اور زیادہ نہیں تو کوئی لفافہ ہی مل جائے۔۔
خیر یہ باتیں تو چلتی رہیں گی لیکن احمد رضوان صاحب، ثمینہ رشید صاحبہ، آمنہ احسن اور مکالمہ ٹیم کے دیگر غیر حاضر ممبرز کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔ کمی محسوس کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہ تھی کہ شاید انہی میں سے کوئی آتا اور کانفرنس کے ماحول کو تھوڑا “لبرل” بنا دیتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

انعام رانا توانوں میں چھڈاں گا نئیں۔۔ سوٹ بوٹ میں ملبوس "کلین شیو مولوی" کہیں کا۔۔۔

Facebook Comments

وقاص خان
آپ ہی کے جیسا ایک "بلڈی سویلین"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply