مہاجر لڑکا۔۔عنبر عابر

وہ لڑکا اپنا بیشتر وقت بلند اور سرسبز و شاداب پہاڑوں کے دامن میں گزارتا۔اس کی بھیڑیں، جن کی تعداد سو تھی ،اس کی بانسری کے ہر راگ سے واقف تھیں، وہ بھیڑیں بانسری کے  پُرسوز لے پر ناچتیں اور پگڈنڈیوں پر نامعلوم راحتوں کی تلاش میں پھرتی رہتیں۔

وہ لڑکا جب دور پہاڑ کی چوٹیوں پر بادلوں کے مرغولے دیکھتا ہوا بانسری منہ سے لگاتا تو فقط یہی ڈر اسے دامن   گیر ہوتا کہ کوئی اس کی بھیڑیں چھین نہ لے جائے۔اس کا ڈر بجا تھا کیونکہ وہ جس خطے کا باسی تھا اس خطے کی یہی رِیت تھی۔وہاں بھیڑیں چھین لی  جاتی تھیں۔

پھر ایک شام جب وہ فلک بوس پہاڑوں سے اُتر رہا تھا، عالمی طاقتوں کے ہرکارے آئے اور اس کی آدھی بھیڑیں چھین لے گئے، بقیہ آدھی بھیڑیں عالمی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے لے گئے، انہیں لڑنے کیلئے طاقت کی ضرورت تھی۔بانسری رونے لگی تھی اور لڑکا خاموش نگاہوں سے اپنی بھیڑوں کو بندوقوں کے نرغے میں جاتا دیکھ رہا تھا۔

اب اس کے پاس فقط ایک بھیڑ رہ گئی تھی۔ڈری، سہمی اور اکیلی رہ جانے والی بھیڑ۔اس رات بانسری کی پُرسوز لَے نے اس کے گاؤں کی شوخ لڑکیوں کے ہونٹوں سے بھی مسکراہٹ چھین لی تھی۔

اگلی صبح اس کی بانسری خاموش تھی اور اس سے کوئی آواز نہیں نکل رہی تھی۔لڑکے نے ایک سوزو گداز سے بھرپور راگ گانے کی کوشش کی ،لیکن بے سود۔

تب وہ لڑکا اپنی بھیڑ لے کر لکیر کے پار پہنچ گیا، جہاں اس جیسے ہی انسان رہتے تھے۔اگرچہ وہاں اس کے سِوا ہر ایک کے پاس ننانوے بھیڑیں تھیں لیکن ان کی نظریں اس کی واحد بھیڑ پر لگی ہوئی تھیں، یہی وجہ تھی کہ وہ کبھی اپنی بھیڑ کو اکیلا نہیں چھوڑتا تھا۔

ایک دن وہ اس عمارت میں گیا جہاں انسانوں پر ٹھپہ لگا کر انہیں شناخت عطا کی جاتی تھی۔اس لڑکے نے بھی اپنا ہاتھ بڑھایا لیکن اسے بڑی بے دردی سے جھٹک دیا گیا۔اسے شناخت نہ ملی، ہاں اس کی بھیڑ کو شناخت مل گئی کیونکہ اس کا گوشت کھانے کے قابل تھا۔

ایک عرصہ وہ اپنے پہاڑوں سے دور، جن کا ہر پتھر اسے جانتا تھا، لکیر کے اس پار بے شناخت پھرتا رہا۔آہستہ آہستہ وہ اپنا آپ بھولتا جا رہا تھا۔”میں اجنبی ہوں” وہ سوچتا
” میں کہیں نہیں ہوں” اس کا فیصلہ دو ٹوک ہوتا۔

تب ایک اداس شام وہ لڑکا اپنی بھیڑ کے پاس گیا، اس کے ہاتھ میں لمبی سی چُھری تھی۔

اس نے بھیڑ کی گردن میں بانہہ حمائل کی  اور مدھم لہجے میں بولا۔
“مجھے پتا ہے میری بانسری کیوں خاموش ہوگئی ہے”
وہ دھیرے دھیرے بھیڑ کی گردن ٹٹول رہا تھا۔اکیلی رہ جانے والی بھیڑ اسے خوفزدہ نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔شاید وہ بہت کچھ سمجھ رہی تھی۔لڑکے نے سلسلۂ کلام دوبارہ جوڑا۔
“بانسری کو اب میرے راگ اور سُر اجنبی لگتے ہیں کیونکہ میری کوئی شناخت نہیں ہے”

لڑکے نے بھیڑ کو زمین پر گرا دیا۔بھیڑ خاموشی سے لیٹ گئی تھی۔اس نے اپنا آپ غیر مشروط طور پر اپنے مالک کے حوالے کر دیا تھا۔لڑکا بھیڑ کی گردن انگلیوں سے ٹٹولتا ہوا خوفناک لہجے میں بولا۔
“میں تمہیں ذبح کرونگا اور پھر تمہاری کھال پہن کر شناخت حاصل کرونگا”

Advertisements
julia rana solicitors london

اگلے دن اسے شناخت مل گئی تھی لیکن بانسری کے ہر راگ سے اکیلی رہ جانے والی بھیڑ کے خون کی بو آنے لگی تھی!

Facebook Comments