شہد کی مکھی، مصری کی مکھی

ابا جان پروفیسر عابد صدیق صاحب سے ایف ایس سی میں اردو پڑھی۔ کسی سبق میں انھوں نے اقبال کی ایک مکڑا اور مکھی کا ذکر کیا تو فرمایا کہ آدمی کو شہد کی مکھی بننا چاہیے نہ کہ مصری کی مکھی۔ نصیحت سن لی لیکن نہ اس کی سمجھ آئی اور نہ پوچھا۔ برس دن گزرے، ایک دن جنابِ شان الحق حقی نے یہی کہاوت دوہرائی تو ان سے اس کا مطلب پوچھا۔ انھوں نے شہد اور مصری کی مکھی کا فرق بتایا کہ شہد کی مکھی پھول کا رس چوستی ہے اور شہد نکالتی ہے جب کہ مصری کی مکھی مصری چوستی ہے اور فضلہ نکالتی ہے۔ شہد کی مکھی بننے کا مطلب ہے کہ آدمی اچھی جگہ اچھی صحبت اختیار کرے اور اپنی ذات سے فائدے کی چیز لوگوں کو مہیا کرے، مصری کی مکھی تو میٹھا چوس کر بھی جہاں بیٹھتی ہے گند کرتی ہے۔
ہمارے محکمے میں ایک افسر تھے جن سے بڑے بڑے کارگزار لوگ بدکتے تھے۔ وہ کہیں سرکاری دورے پر جاتے تو ایسا اعتراض اور کمی ڈھونڈ نکالتے کہ لوگ جھات جھات ہو جاتے۔ ان کی ایک خاص عادت تھی کہ جس صوفے پر بیٹھے ہیں، اچانک اٹھ کر اس کی گدی اٹھائیں گے اور صوفے کی درزوں میں پڑی کوئی پنسل کاغذ یا ٹوتھ پِک بلکہ مونگ پھلی تک برآمد فرمائیں گے اور پھر نان سٹاپ شروع۔ رپورٹ ہمیشہ یہ لکھتے کہ دفتر ہذٰا میں صفائی کا انتظام غیر تسلی بخش ہے اور یوں افسر کی کھنچائی Initiate ہو جاتی۔ ان کی ایک اور عادت یہ تھی کہ ہاتھ اونچا کرکے دروازے کے کواڑ کے اوپر انگلی پھیرتے جہاں مٹی ہمیشہ پڑی ہوتی ہے، اور یہ مٹی ایک ایک کو دکھاتے اور کافی دیر تک اس یادگار کو انگلی پر رکھے رہتے۔ کئی شرفا نے کیریر میں ان کے لگائے اعتراض پر انکوائریاں بھگتیں اور آج ان کی ریٹائرمنٹ کے کئی سال بعد بھی انھیں اور ان کی والدہ کو یاد کرتے ہیں۔ جہاں ان کا ذکر آتا ہے وہیں ان کی والدہ ہمشیرہ کا ذکر بھی آتا ہے۔ کیا عظیم آدمی تھے۔
کافی عرصے سے سوشل میڈیا پر لوگوں کا تعامل دیکھ کر شہد کی مکھی اور مصری کی مکھی والی کہاوت یاد آتی ہے اور یہ صاحب۔ کچھ لوگوں کو خدا نے خاص ساسیت (ساس پنے) کے سانچے میں ڈھال کر بھیجا ہوتا ہے۔ صرف سسائی ہوئی (ساس زدہ) بہوؤں پر موقوف نہیں، یہ مزاج اب مردوں میں بھی مل جاتا ہے اور عام مل جاتا ہے کہ دنیا میں کہیں کوئی اچھا کام کیا ان کو نظر نہیں آتا۔ ریلوے کا ایک ملازم دیکھا جو اس بات پر چیں بجبیں تھا کہ اسے جو کرسی دی گئی ہے اس کا سپرنگ سخت ہے، اور اس پر روزانہ ہر آئے گئے کے سامنے اپنے محکمے کی بدخوئی کرتا۔ بھئی بندہ خدا، دو ڈھائی سو روپے خرچ کرکے کرسی ٹھیک کروا لو۔ ستر ہزار روپیہ مہینہ تمھیں محکمہ دیتا ہے، اس دو سو روپے سے غریب ہو جاؤ گے؟
یہ ایک عام محاورہ بنا دیا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر چیز خراب ہے اور ہر نظام برا ہے۔ ایسے لوگ عام ملتے ہیں جن کی روزمرہ گفتگو کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ ہمارے سسٹم بوسیدہ و فرسودہ ہیں۔ ان لوگوں کو یا تو اس لفظ کا معنی معلوم نہیں یا پھر یہ آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے ہیں۔ میں نے چند دن پہلے خود پاسپورٹ رینیو کرایا۔ ہر دوسرے دن ڈائریکٹر جنرل امیگریشن کا اطلاعی ایس ایم ایس آتا کہ اس وقت پاسپورٹ کہاں پر ہے اور اس پر کیا کام ہو رہا ہے۔ پھر ایک دن یہ ایس ایم ایس آیا کہ فلاں دفتر سے پاسپورٹ حاصل کرلیجیے۔ یہ بھی بار بار لکھا آتا رہا کہ حصولیِ پاسپورٹ کے پروسیس میں کسی نے آپ سے رشوت مانگی ہو تو اس کی اطلاع کریں۔ بالکل یہی صورتِ حال شناختی کارڈ بنواتے وقت ہوئی اور ایسے ہی ایس ایم ایس آتے رہے۔ وقتِ مقرر پر پاسپورٹ بھی ملا اور شناختی کارڈ بھی۔ حرام ہے جو کسی نے ایک روپیہ بھی مانگا ہو۔ موٹر سائیکل چوری ہوا تو خادمِ اعلیٰ سیکرٹریٹ لاہور سے پولیس کے اخلاق اور رشوت مانگنے کے بارے میں فون پر پوچھا گیا اور ایف آئی آر کاٹنے میں اہلکارانِ تھانہ کے پس و پیش کرنے کا دریافت کیا گیا۔ میں کیسے مان لوں کہ میرے ملک کے سسٹم بوسیدہ فرسودہ ہیں، اور کیسے تسلیم کرلوں کہ ہر طرف صرف کرپشن ہی کرپشن ہو رہی ہے؟ مانتا ہوں کہ انسان جہاں بھی ہوگا وہاں بلاقیدِ جنس و مذہب اپنے حصے کا گند ضرور کرے گا کہ یہ لازمہ بشریت ٹھہرا، لیکن یہ سخت ناانصافی ہے کہ قوم کی قوم کا یہ ذہن (مائنڈ سیٹ) بنا دیا جائے کہ تمھارے ہاں کوئی بھی اچھائی نہیں ہے اور تمھارا ہر شہری اور ہر ادارہ چور اور کرپٹ ہے۔ یہ تو پوری قوم کا اپنے آپ پر سے اعتبار اٹھا دینے والی بات ہے۔ جب پوری قوم میں ہر ایک کا دوسرے پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا اور سبھی کی ساکھ ختم ہوگئی تو پیچھے رہ کیا گیا؟
یہ مریضانہ ذہنیت ہے کہ ایک جگہ یا ایک شعبے کے کچھ لوگوں کی خرابی یا ہلکے پن کو سارے نظام کی خرابی بتایا جائے۔ شعبہ تعلیم کو لیجیے۔ میرا دعویٰ ہے کہ پچانوے فیصد سے بھی زیادہ استاد اپنی دانست اور علمیت کے مطابق بالکل ٹھیک پڑھا رہے ہیں۔ جو چند فیصد لوگ نااہل یا جھابڑ جِھلے ہیں ان پر رکھ کے سارے اساتذہ کو برا کہنا کہاں کا انصاف ہے؟ میری بیٹی نے پنجاب کالج ملتان سے ایف ایس سی کیا اور میرے اصرار کے باوجود ٹیوشن نہیں پڑھی، اور پہلی ہی اٹیمپٹ میں ماشاء اللہ میڈیکل میں داخلہ ہو گیا۔ میں اس کی پرنسپل کے پاس گیا اور شکریہ ادا کیا کہ میری بیٹی کا میرٹ بننا جہاں اس کی محنت اور خدا کے فضل سے ہے وہاں آپ پرنسپل صاحبہ کی اعلیٰ انتظامی کارکردگی کا بھی ثبوت ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ پنجاب کالج سے کتنے ہی بچے بچیاں کامیاب ہوئے اور میرٹ بنا گئے۔ کیا اساتذہ کی نالائقی اور سسٹم کی فرسودگی کا رونا روتے لوگوں میں سے کسی ایک نے بھی ان کامیاب ہونے والے بچوں کے اساتذہ کو کبھی حرفِ سپاس پیش کیا؟ اور ایک پنجاب کالج ہی کیوں، کیا باقی کالج نہیں ہیں اور کیا وہاں پر ایسے محنتی اساتذہ نہیں ہیں؟ کیا پاکستان اور پاکستان کے سارے صوبوں میں اور ادارے نہیں ہیں جن میں سارا دن لوگ محنت کرتے اور نوکری حلال کرتے ہیں اور اہلِ وطن کو سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ کیا ان سب اداروں میں کوئی اچھائی نہیں ہے؟ کیا سبھی کچھ غلط ہے؟ ہماری اچھائی دیکھنے والی آنکھ کی بصارت کیوں ختم ہوگئی ہے؟ میرا سوال یہی ہے کہ کیا ہم اچھا کام کرنے والے کی ذرا سی بھی تحسین نہیں کر سکتے اور اس کے اعتراف میں دو لفظ نہیں پھوٹ سکتے؟ آخر کیوں ہم صرف اعتراض اور تنقید و تنقیص ہی کرتے ہیں؟ ہماری پوری قوم کی قوم کی آنکھ اس مکھی جیسی کیوں ہوگئی ہے جسے ہِرپھر کر صرف گند نظر آتا ہے اور وہ وہیں جا بیٹھتی ہے؟ جسے خدا نے کسی وجہ سے ممتاز کر دیا یا عزت دے دی ہو، کیا اس کا صرف بکھان کرنا ہی ہماری قومی شناخت رہ گئی ہے؟
ادب میں نقص کی نشان دِہی کے بجائے خوبی اور کمال کی تحسین (Appreciation) کا رویہ بطورِ تحریک والٹر پیٹر نے شروع کیا تھا۔ ضرورت ہے کہ والٹر پیٹر کو آٹھویں جماعت سے بطور لازمی مضمون پڑھایا جائے اور ایسے بدکلاموں بدفہموں کے پاس بیٹھنے سے گریز کیا جائے جو مایوسی کے پیغمبر ہیں۔ بخدا میرے وطن میں بہت کچھ اچھا ہے اور میرے وطن کے لوگوں کی بڑی تعداد محنتی اور فرض شناس ہے۔ اس اچھائی کا چرچہ کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply