اور میں نم دیدہ نم دیدہ (7)-ابوبکر قدوسی

انسانوں کا ایک ہجوم تھا جو سیلاب کے مانند میرے دائیں بائیں بہہ رہا تھا اور میں جیسے اس سیلاب میں چلا جا رہا تھا اور بہے جا رہا تھا ۔
میں دیکھ رہا تھا یہاں ہر کوئی اپنی دنیا میں گم ہے اور اس کو دائیں بائیں کے افراد سے صرف اتنا علاقہ ہے کہ وہ ان سے ٹکرا نہ جائے ۔ ہر رنگ اور ہر نسل کے لوگ ، گورے بھی اور کالے بھی ، اونچے لمبے بھی اور پست قامت بھی ، سب اپنی اپنی ذات میں گم ، اپنے رب کے ساتھ مناجات کرتے ہوئے چلے جا رہے تھے ۔
لاکھوں افراد کے اس پر ہجوم مقام پر پہنچ کر آپ کبھی تصور کیجئے اس روز کا کہ جس روز بی بی آمنہ کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا کہ جس کی پیدائش سے چند ماہ پہلے اس کے والد دنیا سے رخصت ہو چکے تھے ۔ پھر کچھ عرصے بعد ماں بھی رخصت ہوئی ، دادا نے گود لیا اور ابھی لڑکپن تھا کہ دادا بھی رخصت ہوئے ۔ پھر تایا زبیر کفیل ہوئے اور پھر چچا ابو طالب ۔ اس نوجوان کو اس کے خاندان نے ایسی محبتوں سے پالا کہ کوئی مثال نہ ملتی ہو ۔ ایک کی گود سے اترتے تو دوسرے کی گود چڑھتے ، چچا ابو لہب نے صرف پیدائش کی اطلاع دینے پر لونڈی کو آزاد کر دیا ، صرف اس لیے کہ ان کے بھائی کی یتیم اولاد تھی ۔ یوں ناز و نعم میں جوان ہوئے تو پھر معزز سردار بھی ٹھہرے کہ اپنے خوبصورت مزاج اور عادت و اطوار کے سبب صادق و امین کہے گئے ۔ کسی معاملے میں کوئی بات کہہ دیتے تو حرف آخر رہتی ۔ لیکن پھر ایک روز اپنی قوم کو کہا :
“ان بتوں کو توڑ دو اور ایک اللہ کی طرف آ جاؤ”
تو وہی قوم یوں دشمن ہوئی کہ اس دشمنی کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی ۔۔۔کہ جس خاندان نے محبتوں سے پالا اس خاندان نے اپنی ہی بستی سے نکال دیا ۔لیکن نکالنے والے کیا تصور کر سکتے تھے کہ ایک روز اس در یتیم کے نقش قدم پر بھی لاکھوں نہیں کروڑوں نہیں اربوں انسان ہونٹ رکھیں گے ۔ اس کے قدموں کے نقوش ہائے پاک کو آنکھوں سے لگائیں گے ۔ اس کے قدموں سے اڑتی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنائیں گے ۔ اس نے جہاں کہا ہوگا ” رک جاؤ ” وہاں رک جائیں گے ۔ جہاں کہہ دیا ہوگا “چل پڑو” وہاں چل پڑیں گے ۔
تصور تو کیجیے کہ راتوں کی کس تنہائی میں محض ایک ساتھی کے ہمراہ مکے سے نکلے تھے اور کس طور واپس پلٹ کے آئے ہیں کہ میرے دائیں بائیں افریقہ، ایشیا اور یورپ کے دور دراز کے ملکوں کے لوگ اس رسول کے بتائے ہوئے ایک ایک لفظ کو اپنے ہونٹوں سے چوم رہے تھے ۔
جو تصور شدت سے اس وقت مجھ کو مسحور کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ یہی ہوا تھی ، یہی فضا تھی جہاں میرے حضور نے زندگی بسر کی ، یہیں سے نکالے گئے ، پھر ادھر واپس لوٹ کے آئے ۔ اسی تصور میں ہجر اسود کے سامنے پہنچا ، ہاتھ سے اشارہ کیا اور
بسم اللہ اللہ اکبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کلمات بلند کیے اور اگلی مسافتوں کو چل دیا ۔احساس کہ اسی صحن پر میرے حضور کے پاؤں کبھی تپتی ریتوں پر پڑے ہوں گے ۔۔۔۔
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

حجر اسود عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ حجر عربی میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود سیاہ اور کالے رنگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ “حجر اسود “وہ سیاہ پتھر ہے جو حرم کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار کے رکن مشرقی میں نصب ہے۔ اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔ یہ ٹکڑے قریباً اڑھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول فریم سا بنا ہوا ہے۔ ہے کہ یہ پتھر جنت سے ایا تھا اور سفید رنگ میں تھا لیکن انسانوں کے گناہوں نے اس کا رنگ بدل دیا اور سیاہ ہو گیا.. اور یہاں عقیدہ توحید کا کمال دیکھیں کہ کیسے انسان کو اندر تک شفاف اور اجلا کر دیتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دیا اور فرمایا :
“میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے میں نہ دیکھتا تو میں بھی کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا”
” رکن ہجر اسود ” یعنی رکن مشرقی سے طواف شروع کر کے ذرا آگے بڑھتے ہیں تو رکن عراقی آ جاتا ہے یعنی حطیم کی دیوار سے پہلے والی نکر ۔۔

رُکنِ عراقی :
یہ حرم کعبہ کا شمال مشرقی کونا ہے، حجر اسود والی دیوار کے دائیں کونے کو رکن عراقی کہاجاتاہے۔ یہ کونا عراق کی سمت ہے۔ پرانے وقتوں میں حج کے راستوں کے نام اُن ملکوں کے ناموں پر پڑ جاتے تھے جس ملک سے حجاج آ رہے ہوتے۔ جیسے آج بھی شہروں کے دروازے ایسے ہی موسوم ہو جاتے ہیں ، اس کی مثال لاہور کے کشمیری ، دلی دروازے ہیں ۔

حطیم :
رکن عراقی کے ساتھ ہی حطیم کا نصف دائرہ آ جاتا ہے جو رکن شامی تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہ انسانی قد سے ذرا نیچے قریبا چار فٹ اونچی ایک دیوار ہے جو نصف قوس کی شکل یعنی نیم دائرے کی شکل میں ہے ۔ بنیادی طور پہ یہ بھی بیت اللہ کا حصہ تھا ، اور سیدنا ابراہیم نے جن بنیادوں پر بیت اللہ کو تعمیر کیا تھا اس میں حطیم بیت اللہ کا حصہ تھا ۔ ، لیکن اس کے بعد خانہ کعبہ کی کئی بار تعمیر نو ہوئی ۔ اسی طرح کی ایک تعمیر نو رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے قریش نے کی تھی ، اور یہ طے کیا گیا تھا کہ تعمیر کعبہ میں صرف حلال مال کو خرچ کیا جائے گا اور جب یہ رقم ختم ہو گئی تو انہوں نے تعمیر روک دی اور یوں حطیم کا یہ نصف دائرہ بیت اللہ کی دیواروں کے باہر رہ گیا ۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”وہ کعبہ ہی کا ایک حصہ ہے“
میں نے پوچھا:
پھر لوگوں (کفار) نے اس کو داخل کیوں نہیں کیا؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ان کے پاس خرچ نہیں رہ گیا تھا“
میں نے کہا:
اس کا دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا کہ بغیر سیڑھی کے اس پر چڑھا نہیں جاتا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ایسا تمہاری قوم کے لوگوں نے کیا تھا، تاکہ وہ جس کو چاہیں اندر جانے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں، اور اگر تمہاری قوم کا زمانہ ابھی کفر سے قریب نہ گزرا ہوتا اور (اسلام سے) ان کے دلوں کے متنفر ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو میں سوچتا کہ میں اس کو بدل دوں، جو حصہ رہ گیا ہے اس کو اس میں داخل کر دوں، اور اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دوں“
: «صحیح البخاری/الحج 42 (1584)،

یہ وہی تعمیر ہے جس کا واقعہ مشہور ہے کہ حجر اسود رکھنے کا وقت آیا تو جھگڑا کھڑا ہو گیا ۔

قصہ یوں ہوا کہ حبشہ سے ایک بڑی کشتی سمندروں کے سفر پر نکلی جدہ کے پاس آئی اور ٹوٹ گئی ۔یہ تو کشتی کے نصیب تھے کہ جنہوں نے بلند ہونا تھا ۔ قریش کو خبر ملی کہ جدہ کے ساحلوں پر لکڑی کی ایک بڑی کشتی ٹوٹی پڑی ہے تو وہ اس کی لکڑی مکہ لے آئے اور ساتھ ہی ساتھ ایک رومی کو بھی کہ جس کی ان کو خبر ملی کہ یہ بڑھئی بھی ہے ۔ ان کے ذہن میں تھا کہ بیت اللہ کو از سرِ نو تعمیر کیا جائے
موسی بن عقبہ کہتے ہیں ، فوری سبب اس کا یہ ہوا کہ قریش نے کعبہ کی حفاظت کے لیے ایک بند تعمیر کر رکھا تھا جو موسموں کی شدت اور طغیانی کے سبب خراب ہو چکا تھا ۔ کچھ خانہ کعبہ کا دروازہ بھی نیچے تھا اور ملیح نامی ایک شخص نے کعبے میں موجود ایک خوشبو بھی چرا لی تھی ۔ اب قریش چاہتے تھے کہ اس کا دروازہ اونچا کر دیا جائے ۔ اسی طرح ابن شہاب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑکپن میں ایک خاتون کعبے کو خوشبو کی دھونی دینے لگی تو اس کا برتن جس میں عود تھا اس سے ایک چنگاری اڑی اور کعبے کے غلاف پر جا گری اور وہ جل کر راکھ ہو گیا اور ساتھ ہی ساتھ خانہ کعبہ کو خاصا نقصان ہوا ۔۔۔سو اب جب سامان تعمیر میسر ہوا تو تعمیر کا کام شروع ہو گیا ۔

اس تعمیر نو میں قریش نے اس بات کا خیال رکھا کہ اس پر جو رقم صرف کی جائے اس میں مال حرام شامل نہ ہو ۔اس اہتمام کا سبب یہ ہوا کہ ابو وہب بن عمر وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے کعبہ کی عمارت کو گرانے کے واسطے ایک پتھر اکھاڑا تو ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر اپنی جگہ پہ جا لگا ۔
یہ منظر دیکھ کر ابو وہب نے کہا:
” اے قریش اس کی تعمیر میں حلال مال صرف کرنا ۔ زنا ، سود اور ظلم کی رقم اس میں شامل نہ کرنا ۔ بعض اس قول کو ولید بن مغیرہ سے منسوب کرتے ہیں ۔ یہ ابو وہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کے ماموں تھے اور نہایت شریف انسان تھے ۔آخر تعمیر شروع ہو گئی اور اول اول مرحلہ کہ پرانی عمارت کو گرانا مشکل تھا ۔ قریش ہزار وہم دل میں پالے آگے بڑھتے ، پیچھے ہٹ آتے ۔ کسی کو ہمت نہ ہوتی کہ بیت اللہ پر کدال چلائے ۔ دیکھیے نکتے کی بات کہ اس طرح کے وساوس اور اوہام سے بچنے کے لیے توحید کیسی ضروری ہے ۔ جب انسان توحید سے دور ہو جائے ، بتوں کو دل میں بسا لے ، قبروں کو آنکھوں سے لگا لے اور جبین نیاز غیر اللہ کے سامنے جھک جائے تو دل وسوسوں کے خوگر ہو جاتے ہیں ۔ سو یہی قریش کے ساتھ ہو رہا تھا ، کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ پہلی کدال چلائے ۔ آخر ولید بن مغیرہ آگے بڑھا اور اس نے اس تعمیر کے واسطے تخریب شروع کی اور پہلی کدال چلائی ۔ پھر اس نے حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان کا حصہ مسمار کر دیا ، لیکن پھر بھی کوئی آگے نہ بڑھا ۔ قریش رات بھر منتظر رہے کہ اگر ولید کسی مصیبت میں مبتلا ہو گیا تو ہم ٹوٹی دیوار کی پھر سے مرمت کر دیں گے ، ورنہ تعمیر کا کام جاری کر دیں گے ۔ اگلی صبح ولید بھلا چنگا پھر آیا اور آ کے عمارت توڑنا شروع کی اب قریش کا حوصلہ بڑھا ،دل ٹھہرا اور یوں عمارت گرا دی گئی ۔ اور اس کے بعد اس کی تعمیر شروع کی گئی۔ سب قبائل اپنے اپنے حصے کے پتھر لاتے اور نصب کرتے ، حتیٰ کہ دیواریں مقام اسود تک بلند ہو گئیں ۔ اب حجر اسود کو نصب کرنے کا وقت آ گیا ۔

بلا شبہ یہ عزت و عظمت کا مقام تھا کہ آج حجر اسود کو کون نصب کرتا ہے جھگڑا ہوا ، حالات اس حد تک کشیدہ ہوئے کہ بنی عبدالدار اور بنی عدی بن کعب نے ایک دوجے کے مقابلے پر اتر آئے اور عہد کیا کہ جان دے دیں گے مگر پیچھے نہ ہٹیں گے ۔ فریقین نے خون میں لبریز پیالے میں ہاتھ ڈبو کر عہد جانبازی کیا ۔اس جھگڑے میں چار پانچ روز گزر گئے اور تعمیر رک رہی ۔ قریب تھا کہ معاملہ بڑھ جاتا کہ قریش کے بڑوں نے بیت اللہ میں شوری منعقد کی ۔ ابو امیہ مخزومی نے ، جو سب سے عمر رسیدہ تھا ، کہا کہ :
” کیوں جھگڑتے ہو یہ اس سامنے دروازے سے جو شخص سب سے پہلے آئے گا وہی آج کی اس بارات کا دلہا ہو گا اور حجر اسود لگا دے گا یا جو چاہے وہ فیصلہ کرے ”
سب نے اس پر صاد کیا ۔۔ اور آنکھیں اس دروازے کی طرف چار ہو گئیں ۔۔۔
پھر آسمان سے سندیسہ آیا کہ حضور آئیں اور زمیں آسماں مسکرائیں ۔ ہمارے حضور اس دروازے سے داخل ہوئے اور سب پکار اُٹھے :
” یہ امین آ گئے اور ہم نے انہیں پسند کیا ، یہ محمد ہیں ”
مقدمہ آپ کی بارگاہ عالیہ میں پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
” ھلموا الی ثوبا ”
ایک کپڑا لاؤ ، کپڑا لایا گیا ، آپ نے اس کے بیچوں بیچ حجر اسود کو رکھا اور سب قبائل کے بڑوں کو اس کپڑے کو مل کر اٹھانے کا کہا ۔۔۔جب مقام مقصود تک پہنچا تو آپ نے آگے بڑھ کر اسے اس کے مقام پر رکھ دیا ۔۔۔۔
دورانِ طواف میرا بہت جی چاہا کہ حطیم کی اس دیوار کے ساتھ ساتھ چلوں اسے چھو لوں ، لیکن ہجوم بہت تھا اور ساتھ میں خواتین ، سو میں آگے نہ بڑھا ۔

رکن شامی :
حطیم سے آگے بڑھیں تو رکن شامی آ جاتا ہے
یہ بیت اللہ کا شمال مغربی کونا ہے اگر یہاں کچھ دیر کو ٹھہر جائیں اور حجر اسود کی طرف منہ کریں تو اپ کا چہرہ قبلہ اول بیت المقدس کی طرف ہوگا میں تصور میں سوچ رہا ہوں مکرم کا کتنا جی چاہتا تھا کہ خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دے دیا جائے لیکن یہ بات دل میں تھی اور دل کی بات دل میں ہی تھی جو زبان پر نہ اتی تھی لیکن اوپر اسمانوں والا تو دلوں کا حال بھی جانتا ہے سو اک روز دوران نماز ہی ندا آئی اور برسوں کی مراد بھر آئی:
[قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ]
[ہم تمہارے چہرہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کو پسند ہے۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام (کعبہ) کی طرف پھیر لیجئے]
بیت اللہ کو قبلہ قرار دے دیا گیا ۔ رکن شامی سے تھوڑا پیچھے ہٹ کے جب نماز ادا کی جائے تو آپ کے سامنے بیت اللہ ہوتا ہے اور اسی سمت میں بیت المقدس بھی ہوتا ہے۔ لکھتے ہوئے مجھے خیال آرہا ہے کہ جب جب حضور اس مقام پر نماز ادا کرتے ہوں گے تو شاید یہ خواہش اور امید بڑھ جاتی ہو۔

رکن یمانی:
دورانِ طواف رکن شامی سے آگے بڑھیں تو دھکم پیل کچھ کم ہو جاتی ہے ، اور نسبتاً آسانی رہتی ہے ۔ پھر رکن یمانی آ جاتا ہے ۔ رکن یمانی پر پھر اژدھام سا ہو جاتا ہے کہ لوگ آگے بڑھ کر اسے چھونا چاہتے ہیں ۔ اور جو چھو نہیں سکتے وہ اس کی طرف اشارہ کر کے کچھ اہستہ روی سے چلتے ہیں یوں ہلکی سی رکاوٹ انے کے سبب ہجوم کی ایک صورت بن جاتی ہے جو خواتین کے لیے مشقت کا سبب ہوتی ہے جبکہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران طواف رکن یمانی کو دائیں ہاتھ سے چھوا ہے اور ساتھ صرف ایک بار پڑھا ہے :
بسم اللہ اللہ اکبر ۔۔۔۔۔۔
اب اگر ہجوم کے سبب چھونا ممکن نہیں تو درست طریقہ یہ ہے کہ آپ یہاں سے معمول میں دعا کرتے گزر جائیں ، لیکن بہت سے حاجی یہاں پر اسی طرح ” بسم اللہ ، اللہ اکبر” کہہ کے اشارہ کرتے ہیں جیسے حجر اسود کے سامنے سے گزرتے وقت کرنا ہوتا ہے ۔
درست طریقہ یہ ہے کہ آپ یہاں رکن یمانی سے گزرتے وقت معمول سے گزریں اور یہ دعا پڑھنی شروع کر دیں ۔
رَ‌بَّنا ءاتِنا فِى الدُّنيا حَسَنَةً وَفِى الءاخِرَ‌ةِ حَسَنَةً وَقِنا عَذابَ النّارِ‌ ﴿٢٠١﴾… سورة البقرة
‘‘اے ہمارے پروردگارہم کو دنیا میں بھی نعمت عطافرمااورآخرت میں بھی نعمت بخشنااوردوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھنا۔’’

رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار یہ تھا کہ رکن یمانی سے حجر اسود تک یہی دعا پڑھتے تھے ، سو میں بھی یہی دعا پڑھتے حجر اسود تک جا پہنچا ۔ طواف کا ایک چکر مکمل ہوا ۔ حجر اسود کے سامنے فرش پر لمبی بھورے پتھر کی پٹی انتظامیہ نے لگا رکھی ہے ، جس سے حاجی کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا ایک چکر مکمل ہو گیا ۔ قریبا ڈیڑھ چکر مکمل ہوا تھا کہ مجھے ایک بزرگ حاجی صاحب نے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مخاطب کیا کہ آپ کا کاندھا ننگا نہیں ہے ۔ میں جو اپنی ہی دھن میں مست و مگن دعائیں کرتا چلا جا رہا تھا ایک دم جیسے ہڑبڑا اٹھا ، جلدی سے کاندھا ننگا کیا ۔ طواف کا طریقہ کار یہ ہے کہ احرام کی چادر کو دائیں بازو کے نیچے سے گزار کر بائیں کاندھے پر پھینک لیجئے ، یوں دایاں کاندھا ننگا ہو جائے گا ۔ طواف کرتے کرتے ہی حافظ حنین قدوسی کو واٹس ایپ پر میسج کیا کہ “حافظ جی کا ننگا کرنا بھول گیا تھا، چلے گا ؟ ” ۔ مقام شکر کہ ان کا فوراً ہی جواب آ گیا کہ
” چلے گا ”
“گھر کے مفتی ” کے یہی تو فائدے ہوتے ہیں ۔۔۔میرا آپ کو مشورہ ہے کہ جہاں سارا خاندان ڈاکٹر انجینئر اکاؤنٹنٹ اور آئی ٹی انجینئر بننے کو بھاگا پھر رہا ہے ، وہاں اپنے خاندان میں کچھ صاحبانِ علومِ دینیہ بھی پیدا کیجئے تاکہ ایسے مواقع پر احتیاج کی یہ صورت نہ ہو کہ درست جواب بھی فوری طور پر پا نہ سکیں ۔۔
مقام ابراہیم پر بھی لوگوں کا ہجوم طواف میں خاصی رکاوٹ پیدا کرتا ہے لوگ اس کو چھوتے ہیں ، چومتے ہیں ، اس سبب طواف کرنے والوں کو خاصی مشکل ہوتی ہے ، حالانکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ ایسا کیا جائے ۔

دوران طواف ایک اور دلچسپ منظر جو معمول میں دیکھنے آتا ہے ، وہ لوگوں کا مسلسل ویڈیوز بنانا اور اپنے آبائی علاقوں میں اہل خاندان کے ساتھ لائیو ویڈیو کال پر رابطہ کرنا ہوتا ہے ۔ فطری بات ہے کہ جب انسان کی توجہ بٹ جائے تو وہ یکسو نہیں رہتا دوران طواف یوں کال کرنے سے عبادت میں جو خلل آتا ہے سو آتا ہے لیکن چلنے کی رفتار بھی کم ہو جاتی ہے ۔ اس سبب دیگر طواف کرنے والوں کو خاصی مشکل ہوتی ہے ۔ لازم ہے کہ اہل علم لوگوں کو اس فعل کی خرابی اور شناعت کے حوالے سے آگاہ کریں اور تسلیم کرنے کی بات کہ اہلِ علم مسلسل لوگوں کو بتاتے بھی ہیں لیکن لوگ ان باتوں کو معمولی جان کر اپنی عبادت کو خرابیوں کی نذر کرتے ہیں ۔

طواف عبودیت کا کمال اعلی مقام ہے کہ انسان اپنے وجود کو بھول جاتا ہے ۔ لیکن ہمارے یہ مسلمان بھائی ہاتھ بلند کیے مسلسل ویڈیوز بنا رہے ہوتے ہیں ، ساتھ اپنی سیلفیاں بھی لے رہے ہوتے ہیں اور اپنے اہل خانہ کو بیت اللہ دکھا دکھا کر لائیو دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں اور ان کو بتا رہے ہوتے ہیں :
” میں تمہارے لیے یہ یہ اور یہ مانگ رہا ہوں”
سچی بات یہ ہے کہ یہ اپنی عبادت کو مکمل طور پر نفسانیت میں بہہ کر دریا برد کرنے والی بات ہے ۔

سب سے زیادہ دلچسپ منظر تو مجھے اس شخص کی ویڈیو کال کا لگا جو میرے آگے آگے جا رہا تھا اور چہرے مہرے سے غالباً ترک تھا ۔ اس نے ویڈیو کال ملائی ہوئی تھی اور جو شخص ویڈیو کال پر اپنے ملک میں موجود تھا وہ اونچی آواز میں دعائیں کر رہا تھا کہ جیسے وہ بھی طواف کا حصہ ہے بھلے یہ کمال درجے کی عقیدت اور عبودیت کا اظہار ہو لیکن درست طریقہ نہیں۔
پھر ایک سرائیکی بزرگ خاتون کی ویڈیو کال نے بھی دلچسپ منظر پیدا کیا کہ جو خاصی بلند اواز سے رننگ کمنٹری بھی کر رہی تھی اور ساتھ دعائیں بھی رہا طواف تو وہ بھی ساتھ جاری تھا کہ غالب نے کہا تھا :

مسجد کے ساتھ خرابات چاہیے
سب احباب کے لیے دعائیں کرتے طواف کے ساتوں چکر مکمل ہوئے اور میں مقام ابراہیم کی طرف چل پڑا ۔ طواف مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم پر دو نوافل ادا کرنا ہوتے ہیں۔ب یہاں پر جگہ ملنا خاصا مشکل کام ہے ، مرد عورتیں آگے پیچھے ، دائیں بائیں نوافل پڑھ رہے ہوتے ہیں ، دعائیں کر رہے ہوتے ہیں اور اس دوران لوگ مسلسل آپ کے سامنے سے گزرتے ہیں ۔
سچی بات یہ ہے کہ اس ماحول میں عبادت کی طرف توجہ خاصی کم ہو جاتی ہے اور لوگوں کے دوران نماز آگے آنے جانے سے طاری ہونے والی الجھن بڑھ جاتی ہے ۔ میں نے ہرگز کوشش نہیں کی تھی کہ میں مقام ابراہیم کے عین سامنے زبردستی جگہ حاصل کروں اور ایک آدھا کاندھا دائیں بائیں کسی خاتون کو چھوتا ہوا ہو اور میں نوافل ادا کر رہا ہوں ۔ میں خاموشی سے چلتا ہوا اس کنارے تک چلا گیا جہاں پر نوافل کا ادا کرنے والوں کا ہجوم کچھ کم تھا ۔ گو یہ مقام ابراہیم سے تھوڑا پرے تھا اور علماء کا اس پر باقاعدہ فتوی موجود ہے کہ اگر آپ کو جگہ نہیں ملتی تو جتنا ممکن ہے پرے ہٹ کر ادا کر لیجئے اس میں کوئی حرج نہیں ۔ دو نوافل پڑھ کر زم زم پیا اور کچھ دعا کی اور سعی کو چل نکلے ۔۔۔۔
تصویر ، مسیب قدوسی نے پرسوں شام اپنے موبائل سے اتاری اور بھجوائی۔۔۔۔ جو حرم میں ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply