دشمن کے سپاہی
مرے دشمن کے شہید
تری بے وقت موت پہ
افسردہ ہوں
تو بھی تو فقط ایک غریب
میرے فوجی جیسا
جسکی تنخواہ سے تھے وابستہ
نہ جانے کتنے خواب
تری پنشن پہ پلیں گے
اب جینے کے سراب
تو بھی سینا سے جڑا، سہما ہوا
بھوک سے بچتا ہوا
اور مرا شیر جوان
وہ بھی تو یہ ہی ہے فقط
اور یہی ہے
کشمیر، ہند و پاکستان
کچھ خوابوں کی تعبیر کی خواہش
وگرنہ کیسی دشمنی، کیا جانے جوان،
تیرے لاشے پہ جو بیوہ ہے ماتم کناں
میرے شہدا پہ بھی وہ بین کناں ہے
تیری ماں کی بھی گود ہے خون آلود
مری ماں کا بھی لاشہ شیر جواں ہے،
وہ جو قاتل ہے ترا
وہ نوجواں، ایک شہید
جسے حالات نے اس نہج پہ لا پٹخا تھا
جسے خوابوں کی تعبیر تھی کرنی
جو تری موت بنا،پھٹ گیا تھا
وہ بھی تو کسی ماں کا شیر جواں تھا
کشمیر تھا، ہند تھا، پاکستاں تھا
ہیں بین جو تری ماں کے کلیجے میں
وہی صدمے ہیں قاتل کی بھی ماں کے
خواب جو ٹوٹے ہیں ترے بابل کے
کرچیاں انکی
اسکے باپ کا ورثہ ہیں
ظالم ہیں بھلا کون؟ اور مظلوم رہا کون
سیاست نہیں دیتی اسکا جواب
سیاست کی نا جب تک بھوک مٹے گی
بات نا ہو گی،ہوس طاری رہے گی
اِدھر بھی، اُدھر بھی
تب تک یونہی
ماوں کی گود جلے گی
جہالت،یہ جنگ
جاری رہے گی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں