ہمارا روز کا معمول تھا، سونے سے پہلے
باتیں کرنے اور جھگڑنے کا
گلے شکوے کہ جن میں اگلی پچھلی
ساری باتیں یاد کر کے روتے دھوتے تھے
کبھی ہنستے بھی تھے تو صرف کچھ لمحے
ذرا سی دیر میں ویسا ہی جھگڑا، او ر وہی طعنے
وہی سر پیٹنا، آنسو بہانا، چیخنا ، رونا
یونہی روتے ہوئے خوابوں کے دوزخ میں
بھٹکنا اور سو جانا
گذشتہ شب بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی
مگر سونے سے پہلے وہ بہت ہی تلملایا تھا
کہا تھا ۔۔۔میں چلا جاؤں گا ، لیکن تم
فقط آدھے ہی رہ جاؤگے، اک ٹوٹے کھلونے سے
مجھے غیض و غضب نے جیسے پاگل کر دیا تھا ۔۔۔
دفع ہو جاؤ ! مرا تم سے کوئی رشتہ نہیں باقی
میں خوابوں کے دہکتے دوزخوں سے صبح نکلا ہوں
تو وہ غائب ہے، پچھلی رات سے ۔۔۔ مجھ کو
اکیلا چھوڑ کر، جانے کہاں انجان راہوں پر
بھٹکتا پھر رہا ہوگا
کروں کیا میں؟ کہاں ڈھونڈوں؟
مرے گھر کے مکینو، رشتہ دارو، اے گلی والو
مجھے یوں رسیوں میں باندھ کر
ذہنی مریضوں کے شفا خانے میں مت بھیجو
کہ میں پاگل نہیں ہوں ۔۔۔ چیختا، سر پیٹتا تو ہوں
مگر میں چیخ کر اس کو بلاتا ہوں
جو میرا آدھا حصّہ ہے
جو میرا دوسرا ’میَں‘ ہے
(2005 عیسوی)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں