غباروں بھرا آسمان (منظوم نثر)-محمد وقاص رشید

اس سر زمین پر ایک پچیس کروڑ کا ہجوم آباد ہے۔

ہجوم کو خدائی کا پتا ہے نہ ہی اپنا خدا یاد ہے۔

ہر کچھ عرصے بعد ہجوم کسی بے بس کو گھیر لیتا ہے۔

اسے سہماتا ہے ڈراتا ہے اور اسے اذیت دیتا ہے۔

ہر کچھ دن بعد اسطرح کا کوئی منظر سامنے آ رہا ہے۔

کچھ عرصے سے یہ ہجوم کا پسندیدہ مشغلہ بنتا جا رہا ہے۔

ویسے تو ہجوم کا من پسند شکار عورت ہوتی ہے۔

ہجوم کو اچھا لگتا ہے جب وہ اس کے سامنے تڑپتی روتی ہے

کوئی غیر ملکی سیاح نہ ملے تو کسی جلسے میں اپنی عورت سہی۔

اگر کچھ اور نہ بن پڑے تو توہینِ مزہب کی سہولت سہی۔

مگر اس بار علاقہ ایسا تھا کہ وہاں شرعی پردے کا نفاذ تھا۔

یہاں کے لوگوں کو مردوزن کے اختلاط کا بڑا لحاظ تھا۔

سو اس بار ہجوم کے ہتھے کوئی عورت نہیں چڑھی تھی۔

اب کے اس ہجوم کی وحشی نظر ایک بچے پر پڑی تھی۔

ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لاتا ہے کے عقیدے کو اپنے خون پسینے سے سینچ رہا تھا۔

وہ مفلس بچہ ہجوم کے ہاتھوں غبارےبیچ رہا تھا۔

اس کا خیال تھا کہ ہجوم میں موجود بچے غبارے لیں گے۔

اس کے عوض اس غبارے فروش کو چند سکے ملیں گے۔

ماں کی دوائی ، آٹا ، دال گھی لے کر گھر جائے گا۔

واقعی میں اپنے ساتھ لایا رزق انکو کھلائے گا۔

اچانک ہجوم کو اپنا پسندیدہ مشغلہ یاد آگیا۔

سارے منظر پہ ایک وحشت کا سماں چھا گیا۔

وہ جیسے جنگل میں لگڑ بھگے کسی معصوم جانور کو گھیر لیتے ہیں۔

اسکی سراسیمگی ، خوف اور بے بسی کا لطف لیتے ہیں۔

ایسے ہی ہجوم مفلس بچے کے گرد گھیرا تنگ کرنے لگا۔

مفلس بچہ رونے لگا چیخنے لگا آہیں بھرنے لگا۔

ہجوم اسکے غبارے چھین رہا تھا پھاڑ رہا تھا۔

قہقہے لگاتا اسکی دنیا اجاڑ رہا تھا۔

بے بس بچہ ایک طرف بھاگتا تو پیچھے سے حملہ ہوتا۔

اس طرف مڑتا تو دوسری جانب سے غلبہ ہوتا۔

اسکی آہیں غباروں کے دھماکوں اور وحشی قہقہوں کے درمیان کھو گئیں۔

شام کو ریزگاری ماں کو دینے کی امیدیں تھک ہار کے سو گئیں۔

ویڈیو میں ایک داڑھی ٹوپی والا بھی دکھائی دے رہا تھا۔

ایک باپ اپنے بیٹے کا ہاتھ تھامے اس منظر سے لطف لے رہا تھا۔

اچانک ہجوم کامیاب ہو گیا اور بچے کے ہاتھ سے غبارے چھوٹ گئے۔

شام کو دوائی دارو ، روٹی پانی ، دال دلیے کے سارے خواب ٹوٹ گئے۔

بچے نے روتی آنکھوں سے غباروں بھرے آسمان کی طرف دیکھا۔

اپنے بخت کے رنگ برنگے تاروں بھرے آسمان کی طرف دیکھا۔

ذلت و بے بسی کا احساس اسے اندر سے کھا رہا تھا۔

کل غبارے کیسے خریدے گا یہی سوچتا جا رہا تھا۔

رنگ برنگے غبارے نیلے آسمان کی طرف جا رہے تھے۔

اڑتے اڑتے اس خاموش جہان کی طرف جا رہے تھے۔

جہاں ہجوم کے ایمان کے مطابق ایک دن جواب دینا ہے۔

اس بچے کی ایک ایک آہ اور غبارے کا حساب دینا ہے۔

وہ آسمان جہاں اس وقت ابلیس خدا کی قید میں مسکرا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آدم اور خدا کو غبارے گن گن کے کچھ بتا رہا تھا،جتا رہا تھا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply