زخم۔۔نور ظہیر

کہہ نہیں سکتی یہ گھاؤ کب سے میرے سینے میں ہے۔ تکلیف کے ساتھ شروع ہوا ہو ،یہ بھی یاد نہیں۔ نہ کوئی پھوڑا یا چھالا تھا جو پھوٹ کر ناسور بن گیا ہو، نہ ہی کوئی چوٹ تھی جو پوری طرح سے بھر نہیں رہی تھی۔ شاید جب میں اپنی ننھی سی لڑکی کو دودھ پلاتی تھی تب نہ رہا ہو۔ ہاں، نہیں رہا ہوگا کیونکہ جب وہ ایک چھاتی کو اپنے پوپلے منہ  میں دبوچ کر دوسری کو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے مسلتی تھی، تب ممتا کی کسک کے علاوہ، کسی اور درد کا احساس تو یاد نہیں آتا۔ لیکن یہ زخم ہے تو ضرور اور اب تو اتنا پرانا ہوچلا ہے کہ میرے جسم پر ہونے کے باوجود، اس کے باہر اپنی ایک الگ ہستی رکھنے کا احساس ہوتا ہے۔ ایک مکمل وجود، جس کی پانچوں حصے سمپورن نہیں، جو خود اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، اپنی گرماہٹ سے لمس کرتا ہے، چاروں طرف کی آب و ہوا کو سونگھتا، چکھتا اور نگلتا ہے اور جس کے سینے میں ایک دل بھی ہے جو کبھی کبھی اس طرح سے دھڑکتا ہے کہ اس گھاؤ کے اپنے الگ وجود کا یقین ہوجاتا ہے۔ حالانکہ اس پر کئی بار ایک پپڑی سی آجاتی ہے جو اس کے بھر چلنے کا دلاسہ جگاتی ہے، لیکن پھر کچھ ہی سمے بعد اس میں سے دو چار قطرے خون کے رِستے ہیں اور اسے پھر ہرا کر جاتے ہیں۔ اکثر مواد کی ایک لکیر بہہ نکلتی ہے جو اپنی چپچپی بدبو سے، اندر چل رہی سڑن سے، تعارف کراتی ہے۔

ہاں، پہلی بار جب یہ پس بہہ چلا تھا، وہ دن مجھے ضرور یاد ہے۔ میں اور پورنیما لیڈی اِرون کالج کے باہر والے بس  سٹاپ پر کھڑے تھے۔ آپ کہیں گے کہ اب یہ پورنیما کون ہے اور بھلا اس کا میرے چھاتی کے بھرتے رِستے زخم سے کیا واسطہ ہے؟ تو میرے عزیز پاٹھک کہانی شروع سے سنیے۔۔۔ پورنیما وہ دُبلی پتلی، لمبے قد کی، بے حد خوبصورت کشمیری لڑکی۔ سنہ 92-93، جب سارے کشمیری ہندوؤں کو جان کی دھمکی دی گئی اور وہ سبھی اپنے پشتینی مکان اور کامیاب کاروبار، کوڑیوں کے مول بیچ کر، بچا کھچا سامان سمیٹ کر جموں کی طرف بھاگنے کی تیاری کررہے تھے، تب پورنیما کے والد ڈاکٹر ہیمندر رینا نے اپنا وطن چھوڑنے کو کایرتا قرار دے کر بھاگ جانے سے صاف انکار کردیا۔ پہلگام شہر کے ایک سرے پر ان کا کلینک تھا۔ علاقے کے واحد ڈاکٹر تھے۔ ان کی ملکیت پر للچائی نظر رکھنے والوں کو یہ تو ماننا ہی پڑتا تھا کہ وہ ایک اچھے، ایماندار اور اپنے فرض کو نبھانے والے ڈاکٹر ہیں اور ہندوؤں سے کشمیر کو صاف کرنے والے کٹرپنتھی یہ بھی جانتے تھے کہ مسلمان ڈاکٹر آس پاس بیس کلومیٹر کے دائرے میں نہ تو تھا نہ جلد ہونے کی کوئی امید تھی۔

جب تک جسم ہے بیماری تو لگی ہی رہتی ہے۔ لہٰذا آس پڑوس کے ہندو گھر خالی ہوجانے اور ان میں مسلمان پریوار بس جانے کے باوجود ڈاکٹر رینا وہیں بڑی حفاظت سے رہتے رہے۔ دو بچے تھے، پورنیما اور چھوٹا بھائی شنکر نارائن۔ پورنیما پڑھنے میں تیز تھی۔ بارھویں کے بعد وہ بی ایس سی کررہی تھی۔ آگے چل کر باپ کی طرح ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔

دو سال کے اندر نفرتوں نے ایک کلاٹی اور ماری۔ کٹرپنتھ کے خیرخواہوں کو دھکیل کر ایک طرف کردیا گیا اور ان کی جگہ بندوق دھاری لونڈے لپاڑوں نے لے لی، جو ڈرا دھمکا کر کشمیری ہندوؤں کو بھگا نہیں رہے تھے بلکہ کھلم کھلاّ بڑی باقاعدگی سے ان کا خون کررہے تھے، بھیڑ میں بم پھینک دیتے تھے، اسٹین گن خالی کر ڈالتے تھے۔ یہ اسلام کے نام پر نہیں، دہشت کے نام پر لڑ رہے تھے۔ ان کا مقصد کشمیر کو کسی سے آزاد کرانا نہیں، خود کے لیے جنت طے کرنا تھا۔

اب ڈاکٹر رینا کو بھی ڈر محسوس ہونے لگا؛ اور وہ ڈر اپنی حد پر تب پہنچا جب دہشت گردوں نے پورنیما کو اٹھا لے جانے کی دھمکی سرِعام دے ڈالی۔
پیر غیاث الدین، ڈاکٹر رینا کے بچپن کے دوست تھے۔ جموں تک ان کی جیپ نے پہنچایا۔ وہاں سے ٹرین سے دلّی اور شاہ درا کا وہ کیمپ جو اب تک تقریباً خالی ہوچکا تھا۔ ڈاکٹر رینا نے آنے میں اتنی دیر کی تھی کہ انھیں سرکار کی طرف سے کوئی مدد ملنا بھی مشکل نظر آرہا تھا۔ پھر اپنی پریکٹس کرتے تھے، کوئی سرکاری ملازم تو تھے نہیں۔ دوڑ بھاگ کرکے نوئیڈا کی ایک چھوٹی دکان میں اپنا کلینک کھولا۔ اسی سب کے بیچ میری ان سے اور ان کے پریوار سے ملاقات ہوئی۔ پتنی سے، جو سدا کڑھتی اور باری باری کبھی پتی کو، کبھی مسلمانوں کو گالیاں دیتی، بیٹے شنکر سے جو بچپن کی بھول جانے کی طاقت کے سہارے آس پاس کے بچوں سے کریکٹ اور فٹ بال کھیلتا، پِتا سے جو ہر بات میں کشمیر کی ضرورت سے زیادہ بڑائی کرتے اور پورنیما سے جو ہر وقت یا تو روتی رہتی تھی یا روکر سوجی ہوئی آنکھیں لیے ماں کا ہاتھ بنٹاتی رہتی تھی۔

تین چار بار ان کے کیمپ جانے پر مسز رینا پر میری ڈھٹائی کا اتنا اثر ہوا کہ انھوں نے کم سے کم میرے سامنے مسلمانوں کی برائی بند کردی۔ جب میں نے ان کا راشن کارڈ بغیر گھوس دیے دلّی کا بنوا دیا اور اس پر گیس بُک کرادی تب پہلی بار انھوں نے مجھے پانی کے لیے پوچھا اور ذرا ہچکچاتے ہوئے بولیں، ”آپ مسلمان ہوتے ہوئے بھی اچھی ہیں۔“
میں نے موقع لپک لیا۔ پورنیما کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، یہ ہر وقت اتنی چپ چاپ، ایسی اداس کیوں رہتی ہے؟“

”اجی کچھ نہیں۔ اس کی پڑھائی رُک گئی نا، اس لیے۔ جب دیکھو تب ایک ہی رٹ — میرا کالج میں ایڈمیشن کرواؤ۔ کیسے کروائیں؟ ویسے ہی اگست کا انت آگیا ہے، اب کہاں داخلہ ہوگا؟“
”نہیں – نہیں، زیادہ تر کالجوں نے تو کشمیریوں کے لیے داخلے کی تاریخ بڑھا دی ہے۔ پورنیما کا بارھویں کا سرٹیفکیٹ تو ہوگا نہ۔“
”سب ہے جی، پر وہ بڑھی ہوئی تاریخ بھی نکل چکی ہے۔ انھوں نے آنے میں اتنی دیر کردی، میں تو کب سے کہہ رہی تھی ……“ اور وہ اپنے پتی کی خامیاں گنوانے لگی۔
میں چلنے کے لیے اُٹھی اور پورنیما کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی — ”کوئی راستہ نکالتے ہیں، تم اس طرح نراش نہ ہو۔“ وہ نہ کچھ بولی، نہ مسکرائی، بس پل بھر کو آنکھوں میں ایک آس کی چمک جھلملائی جسے اس نے جلدی سے دور کردیا۔ شاید وہ کئی بار امید باندھ کر نراش ہوچکی تھی اور اب اسے آشا سے ہی بیر ہوگیا تھا۔

تین دن بعد میں تیز تیز چلتی اسی کیمپ میں پہنچی۔ ایک دوست کی پتنی کے بھائی کی بھابھی کی بہن کے ذریعہ لیڈی اِرون کالج کی پرنسپل سے ملنا طے ہوپایا تھا۔ جاکر دیکھا تو ان کا سارا سامان بندھا تیار رکھا تھا۔ پتہ چلا انھیں ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر مل گیا ہے۔ بڑی مشکل سے مسز رینا کو راضی کیا کہ وہ مجھے پورنیما کو لے جانے دیں۔ میں جانتی تھی وہ مجھ میں عورت کے بھیس میں ایک خونخوار آتنکوادی کو دیکھ رہی تھیں۔ لیکن ڈاکٹر رینا نے میرا ساتھ دیا اور ان کے آگے وہ بے بس ہوگئیں۔

تیز بارش کا موسم بیت چلا تھا اور چلچلاتی تیز دھوپ جسے ہم لوگ ’مرگ ڈاہ‘ کہتے ہیں اپنی پوری تیزی سے دلّی پر برس رہی تھی۔ پورنیما کو ایڈمیشن کا وعدہ کیا مل گیا تھا اس کی پوری شخصیت ہی بدل گئی تھی۔ پرنسپل کے آفس سے بس اسٹاپ تک اس نے اتنی باتیں پوچھ ڈالی مانو راستے دو ڈھائی سو گز کا نہ ہوکر کئی میل لمبا ہو۔ زیادہ تر سوال وہ پوچھتی تو ضرور، مگر جواب کا انتظار کیے بغیر ہی دوسرا، پھر تیسرا پوچھ ڈالتی جیسے نہ جانے کب سے یہ پرشن اس کے اندر کی بھاؤناؤں کو گھیرے، دھیرے دھیرے اس کا گلا دبا رہے تھے اور بس پوچھ بھر لینے سے ہی اسے راحت محسوس ہورہی تھی۔ میں آٹو روکنے لگی تو اس نے ہی منع کردیا — ”نہیں آنٹی، کل سے بس سے ہی کالج آنا ہے۔ مجھے ذرا سکھا دیجیے، ہمارے کشمیر میں تو ایک شہر سے دوسرے میں جانے کے لیے ہی بس میں بیٹھتے ہیں۔“ پہلی بار جو اس کے منھ سے ہمارا کشمیر نکلا تو مانو دل پر لگا کوئی مضبوط تالا تھا جو اچانک کھل گیا۔ سوال بند ہوگئے اور ’ہمارے کشمیر‘ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کشمیر کے جھرنے، کشمیر کی ندیاں، چنار کے پیڑ، ہری وادیاں، جھیلیں، ٹھنڈ، قہوہ، وازوان، پھرن، کاشیدہ ……! وہ لگاتار بول رہی تھی، میں اور آس پاس کھڑے تین چار لوگ اس کے سندر چہرے پر دوڑتی شرارت، خوشی، چنچلتا اور الہڑپن سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کررہے تھے۔

اتنے میں نظر پڑی تو ایک 320 نمبر بس تقریباً ہمیں کچلتی ہوئی ذرا آگے جاکر رُکی۔ میں بس کی طرف لپکی ہی تھی کہ پیچھے سے اچانک شور اٹھا، جیسے دو تین لوگ ایک ساتھ گھبرا کر چیخیں ہوں۔ پلٹ کر دیکھا تو پورنیما زمین پر پڑی ہوئی تھی۔ میں بدحواس سی اسے جھنجھوڑنے لگی۔ ایک صاحب نے پانی کے چھینٹے اس کے منھ پر ڈالے، کالج کے پھاٹک سے چوکیدار بھی لپکا۔ اسے سہارا دے کر کالج میں واپس پہنچایا گیا۔ پرنسپل کے دفتر کے پاس ہی ’سِک روم‘ میں اسے لٹایا گیا۔ ڈاکٹر آگیا۔ آدھے گھنٹے کے اندر اس کی طبیعت سنبھل گئی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ معمولی ڈی ہائڈریشن ہے، کوئی گھبرانے کی بات نہیں۔

گھٹناؤں کا ایسا سلسلہ تھا کہ میرے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔ ان چند منٹوں میں میں نے نہ جانے کیا کیا دل لرزانے والے خیالوں سے دماغی کشتی کی تھی۔ کن مشکلوں سے انھیں خود پر حاوی ہونے سے روکا تھا۔ ڈاکٹر کے جاتے ہی میں پورنیما پر برس پڑی — ”حد ہوگئی پورنیما۔ تم سے اتنا بھی نہیں ہوا کہ چلنے سے پہلے ایک گلاس پانی پی لو یا پھر ایک بوتل پانی ساتھ رکھ لو۔ تمہیں زیادہ کچھ ہوجاتا تو میں تو کہیں منھ دِکھانے کے قابل نہیں رہتی۔ ایک تو میں مسلمان، اوپر سے تم ……“ غصے اور دبی ہوئی چِنتا کے مارے میری زبان لڑکھڑانے لگی اور میں چپ ہوگئی۔ وہ ایک ٹک مجھے دیکھ رہی تھی۔ کئی پل میرے چہرے پر نہ جانے کیا ڈھونڈنے کے بعد دھیرے سے بولی — ”آنٹی، مجھے معلوم نہیں تھا کہ گرمیوں میں پانی پی کر نکلنا چاہیے۔ ہمارے کشمیر میں تو اتنی گرمی پڑتی ہی نہیں۔ اور پانی لے کر تو کبھی کوئی نہیں چلتا۔ اتنے چشمے اور جھرنے ہیں کہ جب جی چاہے رُک کر ہاتھ منھ دھو لو، پانی پی لو۔ ہمارے کشمیر میں تو لوگ آگ لے کر چلتے ہیں۔ پھرن میں کانگڑی رکھ کر۔ ممی تو ہمیشہ ہمیں یہی ڈانٹتی تھی — موزے پہنو، اسکارف باندھو، کوٹ پہنا کہ نہیں، گیلے کیوں ہوگئے، آگ کے پاس بیٹھو، کپڑے بدلو، گرم سوپ پیؤ، قہوہ پیؤ، بادام کھاؤ……“
نہ جانے کب اس کے الفاظ میرے کانوں کو چھوڑ کر میری آنکھوں کے سامنے نقش بنانے لگے — لکڑی کے گھر، آگ کے تندور، برفیلی چوٹیاں، گھنے درخت، گورے گلابی بچے، سفید بُرادے سی گرتی برف، نیلا شفاف آسمان اور اس سے بھی گہری نیلی جھیلیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کون ہیں جو انسانوں سے ان کا وطن چھڑواکر انھیں در بہ در بھٹکنے کے لیے مجبور کرتے ہیں؟ کون سی دشمنیاں ہیں جو اپنوں کو پرایوں میں بدل دیتی ہیں؟ کیسی نیائے کی مانگ ہے جو انیائے میں ایسی اُتھل پتھل مچاکر، نئے سرے سے اسے جینے کے طریقے سیکھنے کے لیے مجبور کرتے ہیں؟
لیجیے، بات ہورہی تھی پورنیما کی، اور یہ زخم ہے کہ پھر رِسنے لگا۔ اس کا یہی ہے، بات بے بات دُکھتا ہے اور لہو رُلواتا ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں — میری چھاتی کا یہ زخم کیوں بار بار ہرا ہوجاتا ہے؟

Facebook Comments

نور ظہیر
نور صاحبہ اپنے بابا کی علمی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہیں ، علم اور ادب ان کا مشغلہ ہے۔ آپ کا نام ہندستانی ادب اور انگریزی صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک دہائی تک انگریزی اخبارات نیشنل ہیرالڈ، اور ٹیکII، پوائنٹ کاؤنٹرپوائنٹ اخبارات میں اپنی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں ۔نور ظہیر کی علمی خدمات میں مضامین، تراجم اور افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان جہاں سرخ کارواں کے نظریات نے علم،ادب، سیاست، سماجیات، فلسفے اور تاریخ میں جدید تجربات کیے، وہیں ثقافتی روایات کو بھی جدید بنیادوں پر ترقی پسند فکر سے روشناس کروایا گیا۔ ہندوستان میں “انڈین پیپلز تھیٹر(اپٹا) “، جس نے آرٹ کونئی بنیادیں فراہم کیں ، نور بھی ان ہی روایات کو زندہ رکھتی آرہی ہیں، اس وقت نور ظہیر اپٹا کی قیادت کر رہی ہیں۔ نور کتھک رقص پر بھی مہارت رکھتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکی ہیں، آدیواسیوں کی تحریک میں کام کرتی آرہی ہیں۔سید سجاد ظہیر کے صد سالہ جشن پر نور ظہیر کے قلم سے ایک اور روشنائی منظر عام پرآئی، جس کا نام ” میرے حصے کی روشنائی” رکھا گیا۔ نور کی اس کتاب کو ترقی پسنداور اردو ادب کے حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply