جب بھی عید قربان نزدیک ہوتی ہے تو مجھ پر ایک گھبراہٹ سی طاری ہوجاتی ہے،کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ چار روز گھر پر گزارنا ہوتے ہیں اور اس دوران یار دوست بھی کافی مصروف ہوتے ہیں ۔ مجھے ویسے بھی اس تیوہار پر باہر نکلنے سے سخت گھبراہٹ ہوتی ہے ۔ اتنا خون اور اتنی الائشیں اور جگہ جگہ پر گوشت اور خون کی پھیلی بُو اور تو اور گھر کے اندر بھی صحن میں بھی اس بُو سے چھٹکارا پانا مشکل ہوتا ہے ۔
کئی سالوں سے میرا معمول ہے کہ میں تیوہار کے شب و روز میں کتابوں، فلموں اور انسٹرومنٹل میوزک کا انتخاب کرلیتا ہوں اور اس طرح سے وقت گزارتا ہوں ۔ اس مرتبہ بھی یہی کیا ۔
ملتان میں شاکر صاحب کے کتاب نگر سے میں نے ایک بھیگتی شام میں “آج پبلی کیشنز” سے تین جلدوں میں شائع ہونے والا ‘انتخاب انیس’ لیا۔شاکر صاحب کی مہربانی کہ انھوں نے اسقدر مہنگے انتخاب کی کُل قیمت کی تین ماہ میں اقساط کی صورت ادائیگی کی درخواست قبول فرمائی ۔ اس کے ساتھ میں نے خوشونت سنگھ کے انگریزی ناول ‘دِلّی’ کا اردو ترجمہ، مولوی عبدالحق کی سوانح عمری خرید کیا۔ اسلام آباد سے واپسی پر میں نے خانیوال براہ راست آنے کی بجائے پانچ گھنٹے کا زائد سفر لاہور تک کیا تھا تاکہ صفدر نوید زیدی کے ناول ‘بنتِ داہر’ کو خرید کرسکوں، لیکن وہاں جاکر پتا چلا کہ ابتداء میں 100 کاپیاں جلد ہوکر آئی تھیں، جو سب چلی گئیں اور باقی نسخے جِلد ہوکر آنے والے ہیں ۔ سو عید کے دنوں میں اس ناول کو پڑھنے کی خواہش پوری نہ ہوسکتی لیکن اس کی جگہ ریاض ہاشمی کی نایاب کتاب پڑھنے کو مل گئی ۔ ایسے میں پانچ گھنٹوں کے سفر کے رائیگاں چلے جانے کا احساس کم ہوگیا ۔
میں ‘انتخاب انیس’ اور دیگر کتابوں بارے اپنے تاثرات پھر کسی پوسٹ میں بیان کروں گا، یہاں مجھے خوشونت سنگھ کے ناول کے اردو ترجمے پر بات کرنی ہے ۔
میں یہ ترجمہ خریدنے بارے تذبذب کا شکار تھا ۔ ترجمہ یاسر جواد نے کیا تھا ۔ میں نے عرصہ دراز پہلے سیمون دی بووار کی شہرہ آفاق کتاب ‘ دا سیکنڈ سیکس’ کا اُن کا کیا ترجمہ پڑھا تھا تو مجھے سخت غصہ آیا تھا ۔ میں نے وہ کتاب انگریزی میں کئی بار پڑھی تھی جبکہ اکثر و بیشتر حوالے کے لیے اس کی ضرورت پڑتی رہتی تھی ۔ وہ بہت خام ترجمہ تھا ۔ اُس کے بعد میں نے اُن کا کوئی ترجمہ نہیں پڑھا تھا ۔ میری یاسر جواد سے ایک ہی ملاقات ہوئی اور وہ بُک ہوم شاپ پر جہاں رانا عبدالرحمان اور محمد سرور نے ملک کا تعارف مجھ سے کرایا۔ یاسر جواد نے تعارف کے دوران مجھے بتایا کہ وہ ‘بی کام’ ہے ۔ اور بے روزگاری کے زمانےہیں سو تراجم کا کام کررہا ہے ۔ اس سے میرا ذہن اور پختہ ہوگیا کہ تراجم یاسر جواد کے بس کی بات نہیں ہیں ۔ سو تذبذب کا شکار تھا کہ وہاں ایک نوجوان نے میرے ہاتھ میں ناول دِلّی پکڑے دیکھا تو بے ساختہ بولا، ‘سر بہت شاندار ترجمہ ہے، ضرور پڑھیں ترجمے پر اصل کا گمان ہوتا ہے ۔ میں نے نوجوان کا تجربہ پرکھنے کی ٹھانی اور کتاب خرید کرلی ۔ میں نے اپنے کتب خانے سے انگریزی متن کو سامنے رکھ کر جب ترجمہ پڑھنا شروع کیا تو جیسے جیسے میں پڑھتا گیا ویسے ویسے میں حیرت کے سمندر میں غرق ہوتا چلا گیا ۔ کتنا شاندار ترجمہ یاسر جواد نے کیا تھا ۔ شستہ اردو اور کمال کے نپے تلُے جملے ترجمے کے اصل ہونے کا تاثر دے رہے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ خوشونت سنگھ نے ناول کو خود ہی اردو میں منتقل کیا ہو ۔ مجھے یاسر جواد بارے اپنی پرانی سوچ پر سخت ندامت ہوئی ۔ قاضی عابد زندہ ہوتے اس ترجمے پر خوب داد دیتے اور اس کی فنّی خوبیوں کو اجاگر کرتے ۔ میں نے اگرچہ ترجمہ سارے. کا سارا پڑھ لیا ہے لیکن دل و دماغ ‘ ھل من مزید’ کہہ کر اس کی قرات ثانیہ پر مجبور کررہے ہیں ۔ آپ بھی ‘دلی’ ترجمہ پڑھیں گے تو ایسی ہی کیفیت کا شکار ہوں گے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں