ماسکو سے مکّہ (4)ڈاکٹر مجاہد مرزا

ہوٹل کی کھڑکی سے ہمیں مسجد نبوی کے منور دمکتے ہوئے مینار دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نہائے، شلواریں قمیصیں پہنیں اور پوچھتے پچھاتے مسجد نبوی کے ایک دروازے سے کچھ دور پہنچ گئے۔ مسجد نبوی ہوٹل سے تقریبا” نصف کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔ اتنی وسیع و عریض مسجد میں ہمیں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ڈھونڈنے میں نجانے کتنی دیر لگ جاتی، چنانچہ اس دروازے سے نکلنے والے پہلے شلوار قمیص پہنے ہوئے آدمی سے روضہ رسول تک پہنچنے کے مختصر راستے سے متعلق سوال کیا، تو اس نے اشارے سے بتایا تھا کہ وہ جو سامنے چمکتا ہوا دروازہ دکھائی دے رہا ہے، اس میں داخل ہو کر سیدھے چلتے جاؤ تو مقام مقصود پا لو گے۔ ان سے پوچھا آپ کہاں کے ہیں تو انہوں نے کے پی کے کے کسی شہر کا بتایا ساتھ ہی کہا کہ ویسے میں اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ لہجے میں تھوڑی سی پٹھنولی تھی چنانچہ پوچھ لیا آپ پشتو بولنے والے ہیں۔ ان کا اثبات میں جواب پا کر ظاہر ہے کہ جمشید صافی کی پشتونیت پھڑک اٹھی تھی اور وہ آپس میں ڈاکخانے ملانے لگ گئے تھے۔ اگر دو پشتو بولنے والوں کا آمنا سامنا ہو جائے اور آپ تیسرے شخص ہوں تو شرافت اسی میں ہوتی ہے کہ کنارے پہ ہو جائیں کیونکہ وہ پھر آپس میں شیر و شکر ہو کر آپ کو بھول جاتے ہیں۔ چونکہ روضہ رسول پہ سلام کہنے کی عجلت تھی اس لیے میں نے ان دونوں کی گفتگو میں دخل در معقولات کرنے سے قطعی گریز نہیں کیا تھا۔ موصوف بھی کوئی شریف آدمی تھے، اردو بولنے لگے تھے۔ اپنا وزٹ کارڈ دیا تھا۔ ان کی کوئی ٹریول ایجنسی تھی اور وہ پاکستان سے حجاج اور معتمربن کے اپنے گروہ لے کر آتے ہیں۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور تیز تیز قدموں سے مسجد نبوی کا طول طویل احاطہ طے گیا جہاں سنگ مر مر کی سلوں کا فرش تھا اور کچھ ستون سے ایستادہ تھے جو اگلے روز معلوم ہوا کہ دھوپ میں خودکار طور پر کھل جانے والے چھتر تھے۔
روشن دروازے سے جو گیٹ نمبر ایک تھا، داخل ہوئے تو دیکھا کہ لوگوں کی قطار لگی ہوئی ہے جو سرکتی جا رہی ہے۔ سفر حج کی روانگی سے پہلے انٹرنیٹ سے معلومات تو حاصل کر ہی لی تھیں کہ سنہرے رنگ کی جالیوں والے پہلے دروازے کے وسط میں گول سوراخ کا رخ روضہ مبارک کی جانب ہے۔ ہم بھی قطار میں شامل ہو چکے تھے۔ جالیوں کے آگے ایک تنگ سے چبوترے پہ کھڑے ہوئے سپاہی “حجّی! حجّی!! چلو ! آگے!! کہتے جارہے تھےاور ہاتھ سے آگے نکلنے کا اشارے کر رہے تھے۔ جالیوں کے اس پار اندھیرا تھا اور مرقد بھی شایید کہیں نیچے ہو مگر جسم میں ایڈرینالین کا وفور تھا کہ میں ایسی ہستی کی آخری آرام گاہ کے اس قدر نزدیک ہوں جن کی بدولت دنیا کی تاریخ، جغرافیہ، معیشت، معاشرت، تمدن، تہذیب غرض زندگی کا کونسا شعبہ ہے جس میں انقلابی تبدیلیاں ظہور پذیر نہ ہوئی ہوں۔ میں نے پر سکون لہجے میں آہستگی سے السلام علیکم یا رسول اللہ، السلام علیکم یا سرور کونین، السلام علیکم یا شفیع المذنبین کہا اتنے میں میں آگے نکل چکا تھا جہاں السلام علیکم یا خلیفۃ الاوّل، السلام علیکم یا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ تین چار قدم طے کیے اور اسلام علیکم یا خلیفۃالمسلمین، السلام علیکم یا عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کہا۔ قریب تھا کہ اگلے گیٹ سے باہر نکل جاؤں لیکن پلٹا اور آگے کی دوصفوں میں بیٹھے، نفلیں پڑھتے اور قرآن خوانی کرتے لوگوں میں سے گذرتا ہوا پھر روضہ رسول کی جالیوں کے سامنے قطار سے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ میری بہن جس نے مجھے پالا پوسا ہے، نے مجھے فون پر روضہ رسول کے سامنے جا کر ایک دعا مانگنے کو کہا تھا۔ میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو سامنے کھڑے ہوئے سپاہی نے بلند آواز میں “یا حجّی” کی صدا بلند کرتے ہوئے مجھے منہ ادھر کرکے یعنی روضہ رسول کی جانب پشت کرکے کعبے کی جانب رخ موڑ کر دعا کرنے کے لیے کہا۔ احساس ہوا کہ واقعی ایسا کرنا تو بدعت ہے۔ اگر کسی قبر پہ فاتحہ بھی پڑھنی ہو تو رخ طرف کعبہ ہونا چاہیے نہ کہ بروئے مرقد۔
لوگ بہت سے معاملات کو روح پرور کہتے ہیں۔ اس لفظ کے معانی کیا ہیں؟ روح کے لفظی معانی ہوا یا سانس ہیں لیکن میرے خیال میں لوگ روح سے مراد مزاج لیتے ہونگے تبھی وہ مختلف خوش کن مواقع کو روح پرور یعنی مزاج بہتر کرنے والے واقعات گردانتے ہونگے۔ چونکہ میں روح نا آشنا ہوں، زندگی کےدوران روح زندگی کا حصہ ہے چنانچہ مجھے روح پروری کی فہم نہیں اور میں گفتگو یا تحریر کو بلاوجہ لفظوں کے بے محابا استعمال سے رنگین اور جذباتی بنانے سے بھی گریز کرتا ہوں اس لیے روضہ رسول پہ حاضری میرے لیے روح پرور ہونے کی بجائے تسکین آور تھی۔ جسے روح پرور کہا جاتا ہے وہ شاید جذبات کا وفور ہوتا ہو۔
میں تو السلام علیکم یا رسول اللہ کہنے کے بعد ایک الجھا دینے والے سوال میں پھنس کر رہ گیا تھا۔ پاکستان میں بریلوی حضرات الصلٰوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کہتے ہیں جب کہ ہم دیوبندی سلام نہیں پڑھتے بلکہ درود پڑھتے ہیں۔ “یا” کے بارے میں یہی سنا تھا کہ یہ لفظ زندہ شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ پاکستان میں اس “یا” کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضر یا غائب ہونے کا بھی مسئلہ متنازعہ رہتا ہے۔ پھر مجھے کیا کہنا چاہیے۔ یہ سوچ کر خود کو تسلی دے لی تھی کہ ویسے بھی کہیں پہ مسلمانوں کے قبرستان سے گذرتے ہوئے “السلام علیکم یا اہل القبور” ہی کہا جاتا ہے۔ دوسرا سوال جو پریشان کر رہا تھا کہ ہمارے شیعہ بھائی روضہ رسول پہ حاضری دیتے ہوئے کیا سوچتے ہونگے کیونکہ ان کے روضے کے ساتھ ان کے دوست اور سسر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی کا مزار ہے اور دو قدم آگے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا۔ میرے بہت سے دوست شیعہ ہیں اور میں ان کی ان صحابہ سے معاندت سے اچھی طرح آگاہ ہوں۔ خیر مسئلہ صرف شیعہ اور بریلوی حضرات کے فقہی اختلافات کا نہیں ہے ابھی تو مجھے شافعی، حنبلی اور مالکی فقہی اختلافات کے روبرو بھی ہونا تھا۔
میں ایک ایسے مقام پر تھا جہاں مجھے اپنی توجہ صرف اور صرف عبادت کی جانب مبذول رکھنی چاہیے تھی۔ خرافات سوچنے کا موقع نہیں تھا۔ سب سے پہلا کام تو ریاض الجنۃ میں دو نفل پڑھنا تھا۔ روضہ رسول کے آغاز سے منبر تک کے تھوڑے سے حصے کو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کا ٹکڑا قرار دیا تھا۔ وہاں نوافل ادا کرنے کے لیے ٹھٹھ بندھے ہوتے ہیں۔ مسجد کے اہلکار مختلف اطراف سے قناتیں تانتے رہتے ہیں اور ایک جانب سے کھولتے رہتے ہیں۔ کس جانب سے کب راستہ کھلنا ہے پہلے سے معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے بہت چوبند رہنا پڑتا ہے۔ لوگ دو نفل ادا کر لیں تو پولیس والے “یاحجّی! یالّہ!!” یعنی حاجی نکلو کہہ کر اٹھا دیتے ہیں۔ صفائی کرنے والے صفائی کرتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی سعادت حاصل کر سکیں لیکن لوگ عبادت کے حرص کا شکار ہوتے ہیں۔ عبادت کا حریص ہونا اچھا ہے لیکن عبادت کے سلسلے میں خود غرض ہونا شاید عبادت پہ پانی پھیرنے کا موجب بن جاتا ہو۔ لوگ دو مستحب نفلوں کی ادائیگی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ چپک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حالانکہ ہر خواہش مند کو موقع دیا جانا چاہیے کہ ریاض الجنۃ میں دو نفل ادا کر لے۔ بڑی مشکل سے میری باری آئی تو ایک شخص نے ایک منبر کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ جو سیاہ نشان بنے ہیں ان کے درمیان نفل پڑھنا افضل ہے۔ میں نے انتہائی خشوع و خصوع کے ساتھ وہاں دو نفل پڑھ لیے اور مطمئن ہو گیا کیونکہ سامنے دروازے میں ڈٹ کر بیٹھے ہوئے عرب اہلکار نے بھی یہی کہا تھا “تمام ریاض الجنۃ”۔ بعد میں مجھے صافی نے بتایا کہ میاں جو وہ دوسرا منبر ہے اس کے اور روضہ مبارک کے درمیان کا حصہ ہی ریاض الجنۃ ہے۔ ہم نے رات بھر نوافل ادا کیے تھے اور نماز فجر پڑھ کر وہاں سے نکلے تھے۔ لوگوں کے جم غفیر میں میں اور صافی بچھڑ گئے تھے۔ نہ تو تجلیات تھیں نہ ہی انوار الٰہی کی بوچھاڑ برقی قمقموں کی چکا چوند میں آسمان سے اترتے ہوئے فرشتے بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے البتہ مسجد نبوی کے دروازے سے نکلتے ہی منہ اندھیرے عربوں کا شوریدہ بازار گرم تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دینے کے باعث پک اپس کے ڈالوں پہ چڑھے پکارتے لوگ یوں لگتا تھا غلام فروخت کر رہے ہیں اور مسجد نبوی سے نکلنے والے نمازی تھے کہ چین کی بنی سستی اشیاء پہ مکھیوں کی مانند ٹوٹے پڑتے تھے۔ صرف کھجوریں عرب کی تھیں، جائے نماز اور کچھ چپل ترکی کے باقی سب کفّار چین کی سازش پر مبنی مال تھا۔
ہوٹل سے نکلتے ہوئے ہم نے ہوٹل کے وزٹ کارڈ پوچھے تھے تاکہ آنے میں آسانی ہو لیکن اس نامراد ہوٹل میں وزٹ کارڈز تک نہیں تھے۔
نکلنے کو تو ہم جوش محبت رسول میں نکل گئے تھے اور ہوٹل کا نام “بدر العنبریہ” بھی جیسے یاد کر لیا تھا لیکن واپسی پر جوش مفقود تھا، پھریہ کہ روضہ اقدس کی بجائے بازار بلکہ منڈی میں سرگرداں تھا۔ تھوڑا سا ادھر ادھر ہوا تو راستہ بھول گیا۔ شکر ہے کہ سارے ہی عرب اردو سمجھ لیتے ہیں لیکن ہوٹل کا نام “بدر” سے آگے یاد نہیں رہا تھا۔ ادھر سے ادھر ہوتا رہا لیکن پریشان نہیں تھا۔ پھر عنبریہ بھی یاد آ گیا تھا لیکن کسی کو بھی اس غیر معروف ہوٹل کے بارے میں علم نہیں تھا۔ یک لخت خیال آیا کہ اس سے دوسری طرف ہوٹل میریٹ تھا۔ ایک عرب اپنی بہت بڑی ایس یو وی بیک کر رہاتھا کہ میں نے اس کا شیشہ کھٹکھٹا کر اسے متوجہ کیا اور انگریزی میں پوچھا کہ ہوٹل میریٹ کیسے پہنچا جا سکتا تھا ۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کہ “ماریوت” تین ہیں۔ میں نے کہا اخی مجھے نزدیک کے “ماریوت” تک پہنچنا ہے۔ اس نے گاڑی آگے کر کے روک دی تھی۔ وہ کوئی متمول شخص لگتا تھا مگر گاڑی سے اتر کر باہر آیا تھا اور آگے جاکر مجھے اشاروں سے تفصیل کے ساتھ بتایا تھا۔ میں ہوٹل کی پشت کی جانب سے ہی سہی لیکن ساڑھے چھ پونے سات بجے کے قریب ہوٹل پہنچ گیا تھا۔ لابی میں گروپ کے کچھ اور لوگ بھی موجود تھے۔ سلام دعا ہوئی تھی۔ میں کمرے میں چلا گیا تھا۔ ہمارے بزرگ ساتھی جن کا نام داؤد تھا۔ رات بھر سو کر ہاتھ منہ دھو کر ہشیار ہوئے بیٹھے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے تو اپنی بیوی کی ہٹ دھرمی کے گلے کیے تھے اور پھر پوچھا تھا کہ تمہارا دوست کہاں ہے۔ میں یہ سمجھا تھا کہ شاید صافی پہنچ کر ناشتہ واشتہ کرنے نکل کھڑے ہوئے ہونگے لیکن انکل داؤد کے سوال سے معلوم ہوا کہ وہ پہنچے ہی نہیں تھے۔ میں بس یونہی لیٹ گیا تھا۔ نیند تو آ ہی نہیں رہی تھی اور داؤد صاحب بھی مسلسل باتیں کیے جا رہے تھے یا سوال کیے جا رہے تھے۔ اکتائی ہوئی یہ شخصیت جب اپنی ہی کہی کسی بات پر ہنستی تھی تو خاصی معصوم دکھائی دیتی تھی۔ سوال کیا کہ اللہ تعالٰی ابلیس کو برباد کیوں نہیں کر دیتے، اس کو اتنی قوت بخشی ہی کیوں؟ میں نے کہا کہ انکل داؤد میں اللہ کا ترجمان تو ہوں نہیں، اس کی کوئی مصلحت ہی ہوگی جو خیر و شر کے جھگڑے کو جاری و ساری رہنے دیا۔ اتنے میں بھنّائے ہوئے صافی صاحب بھی کمرے میں یہ کہتے ہوئے داخل ہوئے تھے کہ اس گھٹیا ہوٹل کے بارے میں کسی کو بھی کوئی علم نہیں ہے۔ میں بھٹکتا رہا، کوئی بھی اس کا محل وقوع نہیں بتا سکا۔ وہ رشید حضرت سے شدید رنجیدہ تھے۔ البتہ بھٹکتے بھٹکتے موبائل فون سم بھی خرید لائے تھے اور پیسے بھی بھنا لیے تھے۔ مجھے یہ دونوں چیزیں درکار تھیں

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply