ملامتی ہوں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

“ملامتی ہوں” صوفیوں کے ملامتیہ فرقہ کے ایک فرد کے بارے میں ہے، جو واحد متکلم “میں” First Person Pronoun کے فارمیٹ میں لکھی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ “انا” کو ختم کرنے کے ہزاروں اقدام کے بعد کیا انا واقعی ختم ہو جاتی ہے؟
ملامتی ‘ ہوں ۱ ؂
نماز میں نہیں پڑھتا، نہ روزہ رکھتا ہوں
مجھے قبول ہے تادیب و لعنت و دشنام
میں عیب جو ہوں ،نکوہش ہے میرا طرزِ ِ حیات
افادیت ہے مجھے قابلِ نفریں ، کہ مرا
شعار زیست ہے تضحیک، ذلّت و تحقیر
ثنا، دعا، درود و سلام مجھ پہ حرام
نظر میں اپنی بھی مجرم ہوں، موردِ الزام
قصیدہ خواں نہیں اللہ کا بھی ، بد گو ہوں
میں سب کی نظروں میںِ نفرت کا اہل ہوں ، لیکن۔۔
کسی کوکیسے بتاؤں کہ میں بھی مومن ہوں
مرا خضوع اکیلے میں، اعتکاف میں ہے
میں اپنے حجرے میں اپنے بدن کو پیٹتا ہوں
میری سکت مری افتادگی پہ پلتی ہے
’ملامتی‘ توہوں لوگوں کے واسطے لیکن
میں خودہی اپنابھی ملزم ہوں ، رو سیاہ، خبیث!
کئی دنوں سے مگر میں ہوں ایک الجھن میں
مری انا، مراخود کام حبّ ِ ذات و نفس
مری ہی راکھ سے ققنس کی طرح اٹھے ہیں
غلط نہ ہو گا اگر میں کہوں کہ اب مجھ سے
مری انا کے تقاضے بھی رد نہیں ہوتے!
ملامتی بھی ہوں لیکن میں خود پرست بھی ہوں
میں اس تضاد کی دنیا میں کیسے زندہ رہوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؂ فرقہٗ ملامتیہ کا ایک رکن

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply