رام مندر:عقیدت پرسیاست بھاری/ابھے کمار

آئندہ ۲۲جنوری کوایودھیا میں بھگوان رام کے مندر کا افتتاح کیا جائےگا۔اس پروگرام سے متعلق دعوت نامے بھیجے جا رہے ہیں۔اگر یہ پروگرام صرف عقیدت سے ہی جڑا ہوتا، تو شاید اس کے شرکا مذہبی قائدین ہی ہوتے۔مگرایسا نہیں ہو رہا ہے۔مذکورہ تقریبات کی رونق مذہبی پیشوا نہیں بلکہ سیاسی لیڈان بننے جا رہے ہیں۔خود وزیر اعظم نریندر مودی اس پروگرام میں شرکت کرنے جا رہے ہیں۔ان کے علاوہ، بی جے پی اور آر ایس ایس کے بڑے لیڈران بھی اسٹیج پر نظر آئیں گے۔حالانکہ دعوت نامے اپوزیشن پارٹیوں کو بھی گئے ہیں ۔ کچھ اپوزیشن لیڈروں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ ان کو نظر انداز کیا گیا ہے۔حالانکہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، مارکسسٹ نے دعوت نامے کو ٹھکرا دیا اور اصولی سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مذہب کے سیاسی استعمال کے خلاف ہے۔ مگر ان باتوں کی پرواہ کیے بغیر، بر سر اقتدار جماعت اور ان کے معاون اخبار اور ٹی وی چینل بھی رام مندر کے افتتاح کی خوب تشہیر کر رہے ہیں۔ہر دن، میڈیا مندر تقریبات سے متعلق خصوصی شو کر رہا ہے۔ہندی اخباروں اور ہندی نیوز چینلز تو پوری طرح سے رام بھکتی میں مگن ہیں ۔جس انداز سے خبروں کو پیش کیا جا رہا ہے، اداریے لکھے جا رہے ہیں اور ٹی وی شو منعقد کیے جا رہے ہیں، وہ یک طرفہ ہے۔میڈیا کی پوری کوشش ہے کہ وہ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک مخصوص پارٹی کو ہی کریڈٹ دے اور اپوزیشن پارٹیوں کو کھل نائیک بنا کر پیش کرے۔یہ سب دیکھ کر دل افسردہ ہو جاتا ہے۔آج اس  تاریخی حقیقت کو فراموش کیا جا رہا ہے کہ اس ملک میں جب بھی سیاست دانوں نے مذہب کا استعمال سیاسی مفاد کو پور ا  کرنے کے لیے کیا ہے، تب معصوموں کا خون بہا ہے اور قومی اتحاد کمزور ہوا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دان  اور میڈیا یہ بات فراموش کر چکا ہے کہ بھارت کا آئین سیکولرازم پر ٹکا ہوا ہے۔ ان کو اب اس بات سے بھی زیادہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارا آئین صاف لفضوں میں کہتا ہے کہ ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوگا، بلکہ ریاست تمام مذاہب کو برابری کی نگاہ سے دیکھے گی اور سب کا یکساں احترام کرے گی۔کیا اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے، ملک کے حکمرانوں نے اسی سیکولر آئین کی قسمیں لی تھیں؟ اگر لی تھیں تو پھر آج وہ مندر کی تعمیر کے پیچھے ریاست کی تمام توانائی کو کیوں خرچ کر رہے ہیں؟ کیا یہ سب آئین کے اقدار کی خلاف ورزی نہیں ہے؟حالانکہ ایسے سوالات پوچھ کر ہندو مخالف اور ملک مخالف کہلانے کا بڑا خطرہ ہے۔مگر حقیقت تو سورج کی روشنی کی طرح ہوتی ہے، جِسے کوئی بھی سیاہ رات ہمیشہ کے لیے دبا نہیں سکتی ہے۔

فرقہ واریت پر مبنی بیانیے نے بہت سارے واجب سوالات اور روزی روٹی کے مسائل   دبا دیے ہیں، وہیں بہت سارے فضول کے مذہبی جھگڑوں کو اہم موضوع بنا دیا ہے۔یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ جہاں پوری دنیا ترقی کی طرف گامزن ہے، وہیں بھارت کے سیاست داں مندر مسجد کے تنازع  کو بھڑکا کر سیاسی روٹیاں پکا رہے ہیں۔جن کو لگتا ہے کہ رام مندر تقریبات صرف عقیدے سے جڑا ہوا مسئلہ ہے، ان سے میرا ایک سوال ہے: رام مندر کا افتتاح آخری عام انتخابات سے عین قبل کیوں کیا جا رہے؟ اگر صرف یہ معاملہ مذہبی ہوتا تو اس کو مذہبی پیشوا کے ذمے چھوڑ دیا جاتا اور سرکار عام لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرتی،مگر مندر کی تعمیر سے جڑی ہوئی تیاریوں کو دیکھ کر ایسا گمان ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے بھگوا سیاست دانوں اور حکومت کی پست پناہی ہے۔ تبھی تو مذہبی لیڈران بھی خود کو در کنار ہوتے محسوس کر رہے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ بھگوان رام کا نام آگے کر کے نریندر مودی تیسری بار وزیر اعظم بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ اس بار اپوزیشن پارٹیاں آپسی جھگڑوں کو در کنار کر کے کچھ حد تک ساتھ آئی ہیں۔۲۰۱۴ کے عام انتخابات کے دوران جو بھی وعدے مودی جی نے کیے تھے، وہ دس سال بعد بھی ادھورے ہیں۔مثال کے طور پر، نہ تو مہنگائی کم ہوئی ہے اور نہ ہی نوجوانوں کو نوکریاں ہی مل پائی ہیں۔ اسی طرح نہ بے گھروں کو چھت ہی میسر ہو پائی ہے۔مودی جی کے راج میں دو چیزیں بہت ہی اچھی طرح سے ہوئی ہیں۔پہلا، امیروں کی تجوریاں بھری گئی ہیں اور آر ایس ایس کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو پورا کیا گیا ہے۔آج بھگوا پرچم ہر طرح لہرا رہا ہے۔جو خود مختار عوامی ادارے تھے، ان پر بھی بھگوا طاقتوں نے قبضہ کر لیا ہے۔بابری مسجد کو شہید کرکے  اسی مقام پر رام مندر کی تعمیر کرنا بھی اسی بھگوا ایجنڈے کا حصہ تھا، جو اب پورا کیا جا رہا ہے۔

بھگوا طاقتوں کی پوری کوشش یہی ہے کہ عام انتخابات تک ملک بھر میں مذہبی جنون کو بڑھا دیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ جذبات میں آ کر ووٹ دے دیں اور ان کو پھر پانچ سالوں کے لیے اقتدار مل جائے۔حالانکہ تاریخ میں کل کیا ہوگا اور عوام کب کیا فیصلہ لیں گے، اس کی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی ہے۔اٹل بہاری باجپائی نے درخشاں بھارت کا پروپیگنڈا چلا کر دوبارہ اقتدار میں آنے کی بڑی جدو جہد کی تھی۔باجپائی اور ان کے معاون پرمودی  مہاجن نے خوب پیسہ بھی بہایا تھا۔مگر جنتا نے ان کو اقتدار میں دوبارہ آنے کا موقع نہیں دیا اور کانگریس کی قیادت والی سیکولر محاذ کی حکومت بنی۔تبھی تو کئی بار بنا ہوا کھیل بھی بگڑ جاتا ہے۔یہ بات بی جے پی اور آر ایس ایس کو بخوبی معلوم ہے۔تبھی تو انتخابات آتے ہی ان کے منہ سے رام نام کا جاپ شروع ہو گیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ بی جے  پی اور آر ایس ایس کے نزدیک رام مندر کا مسئلہ مذہبی نہیں بلکہ خالص سیاسی ہے۔ان کو معلوم ہے کہ اس ملک کے عوام کی ایک بڑی تعداد مذہبی ہے اور وہ بھگوان رام کی پوجا کرتی ہے۔تبھی تو بھگوا طاقتوں نے یہ نفرت انگیز بات گھر گھر تک پہنچائی کہ رام مندر کو توڑنے والا مسلم بابر تھا۔مسلمانوں کو ہندو دھرم اور سماج کا دشمن بنا کر پیش کیا گیا اور یہ زہر پھیلایا گیا کہ  ہندو دھرم کا احیا ء بابری مسجد کو توڑ کر اور اس مقام پر رام مندر کو بنا کر پورا ہو سکتا ہے۔دکھ اس بات کا ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے وقت انصاف کی جگہ عوام کے عقیدے کو اپنایا۔مگر عدالت میں بھی یہ بات ثابت نہیں ہو سکی کہ واقعی بابر نے رام مندر کو توڑا تھا۔

جب رام مندر کو توڑا ہی نہیں گیا تھا، تو پھر بی جے پی اور آر ایس ایس کی  تمام دلیلیں کھوکھلی ثابت ہو جاتی ہیں۔مندر مسند کے جھوٹے جھگڑوں کو کھڑا کر کے معصوم کے خون سے بھارت کی دھرتی کو لال کرنے والے آج اخوّت اور میل جول کی اہمیت پر بات رکھ رہے ہیں۔جن معصوموں کا خون دھرم کے نام پر بہایا گیا، ان کو انصاف کب ملے گا؟شاید ان کی آواز مستقبل کے مورخین سن پائیں  اور آنے والی نسلیں ان کا درد سمجھ پائیں  گی۔اس نازک وقت میں ہمیں صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا۔ملک کے مختلف حصّوں سے ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ رام کے نام پر بڑی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، جن میں کئی بار ایسے نعرے لگائے جا رہے ہیں، جن سے اقلیتوں کے جذبات مجروح ہو سکتے ہیں۔ان ریلیوں میں شر پسندوں کی پوری تیاری ہے کہ معاملہ ہندو مسلم تنازع  کی شکل اختیار کر لے۔ ایسے لوگوں کو ہمیں پوری طرح سے ناکام بنانا ہے۔   یقین رکھیےفرقہ واریت کا بخار بھی ایک دن اُتر جائے گا اور ظلمتوں کے دور بھی مٹ جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مضمون نگار نے جے این یو سے جدید تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ 

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply