خوفو……………..سجاد حیدر

وہ نہ تو کوئی عظیم جنگجو تھا, نہ ہی اس نے اردگرد کی ریاستوں کو فتح کر کے کسی عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی تھی. نہ اس نے اپنے عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیئے کوئی بڑی اصلاحات کی تھیں اور نہ ہی حمورابی کی طرح دنیا کو پہلا مجموعہ قوانین دیا تھا. علم و فن سے وہ کوسوں دور تھا. ان تمام معاملات میں تہی دست ہونے کے باوجود وہ ایسا بادشاہ تھا کہ کبھی بھی تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم نہ ہو سکا اور نہ ہی مستقبل کے مورخین اسے نظر انداذ کرنے کی جرآت کر سکیں گے. اسکا ایک ہی کارنامہ تھا جس نے اسے زندہ و جاوید بنا دیا اور وہ تھا اپنا مقبرہ بنوانا, جی ہاں ایک عظیم الشان مقبرہ جس میں اسکا جسد خاکی دفنایا گیا اسی ایک مقبرہ کی وجہ سے وہ عظیم اشان بادشاہوں کی فہرست میں جگہ پا گیا. یہ اسکا مقبرہ تھا جو آج پانچ ہزار سال گزرنے کے باوجود اپنے پورے جاہ و جلال اور وقار کے ساتھ مصر کے صحرا میں کھڑا ہے. اسکے مقبرے کو دنیا آج اہرام مصر کے نام سے جانتی ہے, جسے دیکھنے کے لیئے دنیا بھر سے لاکھوں سیاح ہر سال مصر کا رخ کرتے ہیں.

اس عظیم بادشاہ کا نام خوفو تھا. اسکا دور حکومت 2900 قبل مسیح سے 2875 قبل مسیح تک پھیلا ہوا ہے. خوفو کا مقبرہ, جسکا نام مصری زبان میں اخت ہے, اردو میں اگر کوئی لفظ اسکا مترادف ہے تو وہ ہے عظیم اشان. مصر کے قصبے الغزہ کے نزدیک دریائے نیل سے تقریبنا آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے. خوفو جس نے 5000 سال پہلے مصر کے دارالحکومت ممفس پر حکومت کی, فراعنہ کے چوتھے خاندان کے بانی سیفرو کا لےپالک بیٹا تھا. اپنے منہ بولے باپ کے مرنے کے بعد جب خوفو تخت نشین ہوا تو مصر کے اطراف میں کوئی ایسی طاقت نہیں تھی جو اسکے اقتدار کے لیئے خطرہ بنتی نہ تو جنوب میں نوبیا کی حکومت اور نہ بحیرہ احمر کے اس پار شام اور عرب میں کوئی ایسی طاقت تھی جو مصر کی عظیم سلطنت کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتی. اسکی افواج میں اتنی طاقت تھی کہ اندرونی اور بیرونی ہر قسم کی شورش کا قلع قمع کر سکے. خوفو کو اپنے ایک ہی دشمن سے خطرہ تھا اور وہ تھی موت, کیونکہ موت سے کسی کو چھٹکارا نہیں اس لیئے خوفو اگر کسی سے خوفزدہ تھا تو صرف موت سے.

قدیم مصریوں کے عقیدے کے مطابق موت زندگی کے خاتمے کا نام نہیں بلکہ موت کے بعد ایک اور زندگی انکی منتظر ہوتی ہے. انکے عقیدے کے مطابق زندگی کے دوسرے دور میں بھی انسان انہی چیزوں کا محتاج ہوتا ہے جن سے وہ اپنی پہلی زندگی میں لطف اندوز ہوتا ہے. لہذا یہ قدیم دستور تھا کہ مصر کے بڑے لوگ بالخصوص فراعبہ مصر کے اجسام کو مرنے کے بعد مومیانے کے عمل سے گزارا جاتا تھا. اس عمل میں مردے کے جسم کا پیٹ چاک کر کے تمام آلائشیں نکال لی جاتی تھیں اور پھر مخصوص مصالحہ جات لگا کر لاش کو محفوظ کر لیا جاتا تھا. اس عمل سے گزرنے کے بعد مردہ جسم کو ممی کہتے تھے. ممی کو دفناتے وقت اسکی ضرورت کی تمام اشیاء جیسے کھانے پینے کا سامان, کپڑےوغیرہ ساتھ دفن کی جاتی تھیں. اگر ممی کسی بادشاہ کی ہوتی تھی تو ان اشیاء کے ساتھ ساتھ سونے چاندی کے زیورات, سفر کے لیئے گاڑی, ایک جادو کی چھڑی اور بعض اوقات غلام اور کنیزیں بھی ساتھ ہی دفنا دی جاتی تھیں. تاکہ دوسری دنیامیں بھی اپنے آقا اور ولی نعمت کی خدمت بجا لاتے رہیں. قبر کا ایک ہی داخلی دروازہ ہوتا تھا جسے اس کاریگری سے بند کیا جاتا کہ کسی بھی صورت باہر سے نہ کھولا جا سکے. اس اندرونی قبر کے اوپر ایک ایسی مضبوط قبر بنائی جاتی تھی جس کا کوئی دروازہ نہیں ہوتا تھا کسی خاص سائنسی عمل سے اندرونی قبر سے ہوا نکال دی جاتی تھی کہ مردہ اور دیگر اشیاء خراب نہ ہوں. قبر کو اس طرح بند کیا جاتا تھا کہ کوئی باہر سے اسے نہ کھول سکے کیونکہ ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی جو اندر دفن کیئے گئے سامان کو چرانے کی خاطر ہر طرح کا خطرہ مول لینے کو تیار ہو جاتے تھے ان میں سے اکثر کو دفن کرنے والے کارکنوں کا تعاون حاصل ہوتا تھا. خوفو ایسا انتظام کرنا چاہتا تھا کہ اسکے مرنے کے بعد کوئی بھی اسکی قبر کو نہ کھود سکے. وہ ایسی پختہ تعمیر کروانا چاہتا تھا جس میں داخل ہونے کا کوئی راستہ نہ ہو. اسی خواہش کے پیش نظر اس نے اپنی زندگی میں ہی اپنا مقبرہ اپنی نگرانی میں بنوانے کا انتظام کیا.

اہرام کی بنیاد مربع شکل کی تھی جس کی ہر سمت میں لمبائی 755 فٹ تھی. اہرام کا زمینی رقبہ ساڑھے بارہ ایکڑ اور اونچائی 450 فٹ تھی. اہرام کو مکمل کرنے کے بعد چونے کے پتھروں اور گرینائٹ کی روغنی سلوں سے اسکی آرائش کی گئی مگر موسموں کی سرد گرم اور صدیوں کی دھوپ چھاؤں نے انکا نام و نشان مٹا دیا. اسکے باوجود اہرام کی شان و شوکت میں کوئی فرق نہیں آیا ایک اندازے کے مطابق پتھروں کے 23 لاکھ ٹکڑے اس عظیم عمارت کو بنانے میں استعمال ہوئے. ہر ایک ٹکڑے کا وزن اڑھائی ٹن کے برابر تھا جو عمارت زمانے کی دستبرد سے محفوظ رہ گئی اسکا حجم ساڑے آٹھ کروڑ مکعب فٹ ہے. اس عارت کو مکمل کرنے کے لیئے خوفو نے مملکت کے تمام خزانوں کے منہ کھول دیئے. مختلف زرائع سے حاصل ہونے والے تمام محصولات اور تمام آمدنی صرف اور صرف اہرام کی تعمیر پر خرچ ہونے لگی. ایک لاکھ سے ذائد افراد اس عظیم الجثہ عمارت کو بنانے میں لگ گئے. تمام افراد کودس دس ہزار کی ٹولیوں میں تقسیم کر دیا گیا. ہر گروپ تین مہینے کام کرتا تھا دس سال تک پتھروں کا انتخاب کر کے انکو نیل کے ساحل پر جمع کیا جاتا رہا, جب سیلاب آتا توان چٹانی پتھروں کو سیلابی ریلوں کے زریعے اہرام کی جگہ پر لایا جاتا. ایک ڈھلانی راستہ, جس کی تعمیر بذات خود ایک بڑا کٹھن اور بڑا کام تھا, تعمیر کیا گیا اور اس,ڈھلوانی راستہ کے زریعے پتھروں کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو انکی جگہ پہ لا کر جوڑا گیا کوئی بھی پتھر لمبائی میں 35 فٹ سے کم نہیں تھا. اہرام کی تعمیر میں بیس سال کا عرصہ لگا. ان پتھروں کو اس مہارت سے جوڑا گیا ہے کہ انکے درمیان کوئی خلا نہیں.

قدیم یونانی سیاح ہیروڈوٹس کے مطابق جب پتھروں کی ایک تہہ مکمل ہو گئی تو اسکے ساتھ ایک اور ڈھلوانی راستہ بنایا گیا, جس کے زریعے پتھر کی سلوں کی دوسری تہہ جمائی گئی اس عمل میں لکڑی کے بڑے بڑے شہتیروں کی مدد سے بنائی گئی مشینوں سے مدد لی گئی. اس طرح ہر تہہ مکمل ہونے کے بعد ایک نیا ڈھلوانی راستہ بنایا جاتا اور درجہ بدرجہ اہرام اپنی تکمیل کے مراحل طے کرتا گیا. ہیروڈوٹس ایک اور کہانی بھی سناتا ہے جس کی سچائی مشکوک ہے, اسکے مطابق اہرام کی تعمیر کے دوران جب رقم کی کمی کا سامنا ہوا توخوفو نے اپنی سگی بیٹی کو قحبہ خانہ میں بٹھا دیا اور اسے رقم اکٹھی کرنے کا حکم دیا. روایت کے مطابق اسکی بیٹی نے بہت زیادہ رقم اکٹھی کر کے اسے دی. اور ساتھ ساتھ اپنے پاس آنے والےامراء سے اپنے اہرام کے لیئے بھی رقم اکٹھی کرتی رہی. اس رقم سے اس نے اپنا اہرام بنوایا اسکا اہرام خوفو کے عظیم اہرام کے سامنے بنے ہوئےتین اہراموں میں سے درمیان والا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

اگرچہ خوفو سے پہلے والے فراعنہ نے بھی اہرام بنوائے تھےمگر خوفو نے جو عظیم الشان عمارت بنوائی وہ اپنی وسعت اور پھیلاؤ میں منفرد اور اعلی تھی اور بعد میں آنے والوں نے اسکی نقل کی. خلیفہ مامون رشید تک جب اہرام میں موجود سونے چاندی اور دیگر قیمتی خزانوں کی کہانیاں پہنچیں تو اس نے حکم دیاکہ اہرام کے اندر جانے کا راستہ تلاش کیا جائے. بڑی تگ ودو اور برسوں کی کاوش کے بعد آخری مرکزی چیمبر کا راستہ تلاش کر کے کھولا گیا جہاں شاہی ممی دفن تھی. جب تابوت کھولا گیا تو یہ خالی تھا. شاید شاہی چوراسے پہلے ہی نکال کر لے گئے تھے.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply