• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) خوابوں کی جنت گلگت ۔ گلگتی گھرانہ آزادیء شہدا کی یاد گار-سلمیٰ اعوان/قسط6

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) خوابوں کی جنت گلگت ۔ گلگتی گھرانہ آزادیء شہدا کی یاد گار-سلمیٰ اعوان/قسط6

‘‘پاتھی گورس’’ نے اگر کر سٹوفر کو لمبس کے دل میں دنیا کی حقیقتیں جاننے کی لگن پید اکی تھی تو میرے بچپن کے وہ دن بھی ‘‘گورس’’ کی کتاب جیسے ہی تھے کہ جس کے ہر صفحے پر گلگت کو دیکھنے اور اس کو جاننے کی ایک تڑپ تھی۔
ہمارے گھر کے بڑے سے دروازے سے نکل کر جب میری مامی اپنے شوہر اور کبھی کبھی میری ماسیاں (خالائیں) اپنے بھائی کے پاس جہاز میں لد لدا کر گلگت جاتیں اور واپس آکر رابرٹ رپلے کی طرح ایسی ایسی پراسرار کہانیاں اور باتیں سناتیں کہ مارے تحیر کے ہم لوگ آنکھیں جھپکنا بھی بھول جاتے۔ جب کہانیاں ختم ہوتیں تب وہ اٹھتیں سٹور میں پڑے بڑے بڑے بوروں میں سے خشک خوبانیاں اور توت نکال لاتیں پھر ہم بچوں کی ہتھیلیوں پر مٹھی بھر یوں رکھتیں جیسے دروازے پر کھڑے فقیر کے پھیلے کشکول میں نخرے والی گھر گھر ہستن آٹا ڈالتی ہے۔
میٹھی ذائقہ دار پٹھور (خشک خوبانی) کھاتے کھاتے میرا جی چاہتا میں ایک پرندہ بن جاؤں۔ جہاز کے پروں سے لٹک جاؤں اور اس پر اسرار دنیا میں کھو جاؤں۔
لیکن میں کرسٹو فر کولمبس کی طرح بلند ہمت نہ تھی اور نہ ہی مجھے ملکہ آئس بیلا جیسی کسی مہربان ہستی کی مدد حاصل تھی۔
اور وقت دھیرے دھیرے گزرتا گیا۔ آج میں گلگت جا رہی تھی۔ اسی گلگت کی طرف جس کے میں نے خواب دیکھے تھے۔
ویگن میں کوئی پندرہ مسافر ہونگے۔ میرے ساتھ دو عورتیں بیٹھی تھیں۔ ایک بیماراور دوسری تندرست۔ لیکن مجھے بیمار تندرست اور تندرست بیمار نظرآتی تھی۔ رنگ برنگے موتیوں کے زیور جسے وہ مشٹی کہتی تھی اس کا گلا سجا ہوا تھا۔ سر پر سرخ ٹوپی اور شوخ رنگ کی چادرسے اس کا جسم ڈھنپا ہوا تھا۔ کوئی اندرونی تکلیف تھی جس کے لئے وہ گلگت ہسپتال جا رہی تھی۔
گورنر کے پاس پہاڑوں کی چوٹیاں سرسبز درختوں سے یوں ڈھکی ہوئی تھیں جیسے برجیوں نے سائے کئے ہوں۔ ریکوٹ کے دائیں ہاتھ سندھ بہہ رہا تھا۔ یہیں استور کے پل پر فوج کام کر رہی تھی۔ استور کی سڑک کچی ہے۔ اس پر کولتار بچھانے کا کام شروع تھا۔ دور سے یہ سڑک یوں نظر آتی تھی جیسے کسی نے پہاڑ کا جگر تیز چاقو سے خراش دیا ہو۔
دریائے سندھ کا پانی مٹیالا تھا ‘یوں جیسے اس میں سیمنٹ گھولا ہوا ہو۔ راستہ نہایت پر خطر ‘پہلو بہ پہلو کھڑے اور لیٹے پہاڑ ‘سڑک بے حد تنگ ‘کبھی کبھی یوں لگتا جیسے ابھی پل میں گاڑی ہزاروں فٹ نیچے گہرے کھڈوں میں گر جائے گی۔ چوٹیوں پر جمی برف کی کیفیت کچھ ایسی تھی جیسے سانولی عورت کے چہرے پر برص کے دھبے ہوں۔ کسی جگہ پھیلاؤ آجاتا۔ دریا دور ہو جاتا ۔ دھوپ بڑی تیکھی تھی۔
جگلوٹ کی آمد کا اعلان سبزے سے ہوا۔ سڑک کے کنارے دو رویہ سفیدے کی قطاریں کہیں کہیں پرانا چنار کا درخت بھی نظر پڑتا۔ سفر اب بتیس تینتیس میل رہ گیا تھا۔ جگلوٹ ختم ہوا۔ ساتھ ہی سبزہ بھی ختم۔ اب پھر وہی لق و دق راستہ ‘وہی پر ہیبت پہاڑ۔کچھ آگے جا کر دریائے سندھ اور سکردو جانے والی سڑک دائیں طرف کو مڑ گئے۔
وادی پڑی شاہراہ ریشم کے دائیں جانب رہ گئی تھی۔ سڑک اب دریائے گلگت کے ساتھ ساتھ جا رہی تھی۔ چھمو نگر میں بچے سڑک کے کنارے سلور کی تھالیوں میں خوبانیاں ‘سیب اور انجیر لئے کھڑے تھے۔ ایک ایک روپے میں تھالی’ مسافروں نے فوراً ساری تھالیاں خالی کر دیں۔ میں نے بھی بیگ بھر لیا۔ انجیر کو منہ میں رکھا تو وہ اندر کی حرارت سے پگھلتا ہوا پل بھر میں حلق سے نیچے اتر گیا۔ رسیلا اور ذائقہ دار۔ اللہ اگر زمین کے انجیر کی مٹھاس اور لذت کا یہ عالم ہے تو جنت کا یہ پھل کیسا ہو گا؟
جلال آباد میں دریا ایک چھوٹی سی نہر کی صورت میں بہتا تھا۔ دنیور کے بعد ہم وادی گلگت میں داخل ہو گئے تھے۔
گلگت قریب آیا۔ ویگن نے جوبلی ہوٹل کے پاس اُتار دیا۔ ہوٹل میں جا کر میں نے ائیرپورٹ فون کیا۔ یہاں بھی مجھے ایک مقامی فیملی کے پاس ٹھہرنا تھا۔ فون پر غلام محی الدین صاحب کو بتایا کہ میں لاہور سے آئی ہوں اور ان کے دوست زین العابدین کی بھتیجی ہوں۔
انہوں نے خوشی سے بھرپور آواز میں کہا کہ فی الفور ائیرپورٹ آجائیے۔
ہوائی اڈے کی دیدہ زیب عمارت کے کو ریڈور میں بالائی منزل کی سیڑھیوں کے تیسرے پوڈے پر ایک ادھیڑ عمر کے سرخ و سفید مرد نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے مصافحہ کے لئے ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ میں ذرا بدکی پھر یہ سوچتے ہوئے کہ شاید یہ مقامی معاشرتی آداب میں شامل ہے ‘ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا۔
اس وقت لوگوں کا ایک جم غفیر شوریدہ سر لہروں کی طرح اندر باہر موجیں مارتا پھر رہا تھا۔ صورت حال ایسی تھی کہ بے چاروں کا بس نہ چلتا تھا کہ جہاز کے پروں سے لٹک جائیں۔ میرے میزبان آخری پرواز کی روانگی کے انتظار میں مصروف تھے۔ مجھ سے آدھ گھنٹے کی معذرت کر کے چلے گئے۔
میں دو منزلہ عمارت کے ٹیرس پر جا کھڑی ہوئی۔ یہاں وادی گلگت کا انتظار ایسا دلکش تھا کہ تیز چبھتی دھوپ بھول گئی۔
گلگت کا نام پہلے گری گرت تھا۔ گری گرت کے معنی پہاڑوں سے گھرا ہوا مقام ہے’ کیونکہ چاروں طرف کوہ قراقرم اور کوہ ہندو کش کے سلسلے واقع ہیں۔ ایک اور روایت کے مطابق گلگت سنسکرت کے لفظ گللگوت کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ گللگوت کا مطب قبرستان ہے۔ قدیم زمانے میں یہاں بہت سی لڑائیاں ہوئیں۔ بے شمار آدمی قتل ہوئے۔ جابجا قبروں کی مناسبت سے اس کا نام گلگوت پڑا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ گلگت گلگشت کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گلگت کی زمین میں اتنی زرخیزی تھی کہ ہر طرف پھول ہی پھول نظر آتے تھے۔
اس وقت جب میری آنکھوں کو وادی گلگت ایک سبز بلوری پیالے کی مانند نظر آئی تھی۔ میرے ذہن کو اس کے نام کی وجہ تسمیہ میں تیسری روایت حقیقت سے قریب تر لگی تھی۔
رن وے کا منظر بڑا دل کش تھا۔
ایک گلگتی دلہن بیاہ کر نیچے جا رہی تھی۔ سسرالی خواتین ہر دو قدم پر رک کر دلہن کی چادر ٹھیک کرتیں۔
پتہ چلا کہ حیدر آباد کا ایک خاندان ملازمت کے سلسلے میں کافی عرصہ یہاں رہا۔ دلہن ان کی ہمسایہ تھی۔ بس پسند آئی اور رشتہ داری جوڑلی۔ خدا کرے کہ ایسی شادیاں پاکستان کے چاروں صوبوں میں ہونی شروع ہو جائیں۔ یقینا ایسے رشتوں کے بطن سے محبت و یگانگت کے سوتے ابلیں گے۔
جہاز کی پرواز کے بعد میں اندر سیکورٹی کے دفتر میں آکر بیٹھ گئی۔ میرا سر تپ رہا تھا۔ دھوپ میں اتنی شدت تھی کہ مجھے احساس ہوا تھا کہ اگر میں کچھ دیر اور وہاں کھڑی رہی تو سیدھی ‘‘سن سٹروک’’ کے منہ میں چلی جاؤں گی۔
کمرے کی ٹھنڈی خوشگوار فضا نے میرے حواس پر اچھا اثر ڈالا۔ کمرے میں موجود آفیسر ہنزہ کا رہنے والا تھا۔ میں اس سے ہنزہ کے متعلق معلومات حاصل کرنے لگی۔ جب اچانک کمرے میں ایک خوش پوش اور خوبصورت مرد اندر آیا۔ تعارف ہونے پر پتہ چلا کہ میر غضنفر علی ہیں والئی ہنزہ۔ میری ہنزہ جانے کی خواہش پر بولے۔
‘‘کریم آباد کا راستہ بہت خراب ہے۔ گنش سے جیپ والے تین چار سو ٹھگ لیں گے۔’’
‘‘پر جناب جانا تو ضرور ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے ؟ گلگت آؤں اور ہنزہ و نگر دیکھے بغیر لوٹ جاؤں یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ لاہور آئیں اور تاریخی عمارات دیکھے بغیر واپس چلے جائیں۔
وہ ہنستے ہوئے بولے ‘‘چلئے گنش پہنچ کر اگر کسی مشکل کا سامنا ہوا تو مجھے فون کر دیجئے گا۔ میں جو کچھ بن پڑا کروں گا’’۔
میں نے ان کا شکرایہ ادا کیا۔
ان کی فیملی آخری پرواز سے پنڈی گئی تھی۔ وہ حکام کا شکریہ ادا کرنے کے بعد تشریف لے گئے۔ وہاں موجود ہنزہ ہی کے ایک معمر مرد نے یہ کہتے ہوئے کہ آپ اکیلی عورت ہیں لہٰذا ہنزہ جانے کی غلطی نہ کریں۔ مجھے جھاگ کی طرح بٹھا دیا۔ میرے دل کی وہ کلی جو میر آف ہنزہ کی باتوں سے کھلی تھی‘ بوڑھے مرد کی کڑوی کسیلی گفتگو کی تمازت سے جھلس سی گئی۔
تبھی غلام محی الدین اندر آئے۔ کرسی پر بیٹھے۔ میرے یوں آنے پر خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت کا اظہار کیا۔ ان کی بیگم ہڈیوں کی ایک ایسی بیماری میں مبتلا تھیں۔ جس نے ان کا نچلا دھڑ بیکار کر دیا تھا۔ پانچ چھ ماہ قبل وہ لاہور کے جنرل ہسپتال میں نیورو سرجن ڈاکٹر بشیر کے زیر علاج رہیں۔ میں نے ان کی طبیعت کا پوچھا۔ میرے استفسار پر وہ کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر قدرے جھینپتے ہوئے بولے۔
‘‘میں نے دوسری شادی کر لی ہے۔ دراصل گھر چوپٹ ہو گیا تھا۔’’
ایک پل کے لئے جیسے میرا دل ساکت ہو گیا۔ اگلے لمحے یوں تیزی سے دھڑکا ‘جیسے اس سانحہ پر احتجاج کرتا ہو۔ مرد کی دنیا میں عورت کی قربانی و ایثار اور بھرپور رفاقت کی کتنی قیمت ہے ؟اس کا حساب تو چارپائی پر بیٹھی وہ معذور عورت ہی دے سکتی ہے’ جس کی ذہنی دولت اور سکون لوٹنے کے لئے ایک اور عورت اس کی حریف کے روپ میں اس کے سامنے لاکھڑی کی گئی ہو۔
ان کے گھر جانے کے لئے جب میں اٹھی اس وقت میں دو بج رہے تھے۔
ائیرپورٹ کی چھوٹی سی عمارت کسی کم عمر دلہن کی مانند سجی سنوری اداؤں سے گھائل کرتی تھی۔ باہر سوزوکیوں اور گاڑیوں کی خاصی بہتات تھی۔ کونے میں دو چھوٹے چھوٹے کھوکھوں پر تازہ خوبانی اور آلوبخارہ سجا ہوا تھا۔
دھوپ میں کسی باغی جوان جیسی سرکشی تھی۔ ائیرپورٹ روڈ کے دائیں کنارے پر جھومتے شاہ بلوط کے درختوں کی لمبی قطار اس سرکشی کا زور تھوڑا سا توڑ رہی تھی۔ درجہ حرارت چونتیس اعشاریہ تین سنٹی گریڈ تھا۔ محی الدین صاحب مجھے اپنی گھریلو کہانی سنا رہے تھے۔ میں سوچ رہی تھی۔ گھر سنبھالنے والی کوئی بچی نہیں ہو گی۔ بیمار بیوی کے ساتھ گھریلو مسائل کا انبار ملازم آدمی کو پریشان کر دیتا ہو گا۔
شاہ بلوط کی چھاؤں تلے چلتے چلتے میں نے انہیں ان کی دوسری شادی کے مسئلے پر رعایتی نمبر دے ڈالے تھے۔
کشروٹ محلہ یادگار چوک کے پاس ہی ہے۔ پتھروں کے گھر ‘تنگ تنگ سی گلیاں ‘جن میں خوبانی اور شہتوت کے درختوں کی چھاؤں باہر سے آنے والوں کو لطیف سی ٹھنڈک کا احساس بخشتی ہیں۔ گلیوں کے درمیان بہتی چھوٹی سی کھال (نالہ) جس کے پختہ کناروں پر کم عمر لڑکیاں کپڑے دھونے اور چہلیں کرنے میں مگن تھیں۔ نووارد خاتون کو دیکھتے ہی ان کے ہاتھ رک گئے۔ چہروں پر تجسس عود آیا۔
میں کس گھر کی مہمان ہوں؟ ان کی متجس نگاہوں نے دور تک میرا پیچھا کیا۔ بچپن میں ہم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ محلے میں کوئی اجنبی صورت دکھائی دے جاتی تو ہونقوں کی طرح اُسے سر سے پاؤں تک گھورتے گھورتے توڑ اس کے گھر تک پہنچا کر دم لیتے۔
یہ ایک کشادہ آنگن والا مکان تھا جہاں میں داخل ہوئی تھی۔ اس کے برآمدے میں وہی معذور عورت چارپائی پر بیٹھی تھی جس کے متعلق تین فرلانگ کے فاصلے میں میں نے ڈھیر سارا سوچا تھا۔
مسکرا کر انہوں نے خوش آمدید کہا۔ بیمار چہرے پر صحت مند مسکراہٹ شاذو نادر ہی نظر آتی ہے۔ یہ ایک دکھ بھری آور دہ ہنسی لگتی تھی۔
میں قریب بیٹھ گئی۔ بجلی بند تھی۔ برآمدے میں مکھیوں کا راج تھا۔ دستی پنکھے سے انہوں نے مجھے ہوا دینے کی کوشش کی۔ میں نے خجل سی ہنسی ہنستے ہوئے پنکھا ان کے ہاتھوں سے پکڑ لیا۔
دفعتاً کمرے سے دو نوجوان لڑکیاں نکلیں اور ‘‘سلام خالہ’’ کہتے ہوئے میرے دائیں بائیں آکر بیٹھ گئیں۔ ایک کے چہرے پر نظر پڑتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے کسی مہربان نے ٹہنی پر کھلے تازہ پنک گلاب کو توڑ کر اس گھر کے برآمدے میں پھینک دیا ہو اور دوسری اللہ جھوٹ نہ بلوائے سو فی صد ڈچز آف یارک شہزادی سارہ فرگوسن لگتی تھی۔ میں ٹک ٹک اُن کی صورتیں دیکھتی تھی۔ خاتون خانہ نے کہا۔ ‘‘میری بیٹیاں ہیں۔’’
‘‘بیٹیاں’’ میں نے ایک زور دار جھٹکا کھایا۔
ابھی میں اس جھٹکے سے سنبھلی بھی نہ تھی کہ ایک اور لڑکی کمرے سے نکل کر چوبی ستون کے پاس آکر رک گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے اس کی سبز اوڑھنی کا عکس اس کی آنکھوں میں گھلا ہوا ہو۔ لیکن نہیں اس کی موٹی موٹی آنکھیں سبزی مائل تھیں۔ وہ چپ چاپ کسی مجسمے کی مانند کھڑی تھی۔
‘‘میری سوکن’’ خاتون خانہ کی آواز میں نفرت کی جو جھلک تھی وہ مجھے بخوبی محسوس ہو گئی تھی۔
صاحب خانہ بازار سے لدے پھندے آئے۔ خمیری روٹی اور قیمے کا سالن کھانے کے بعد میں نے رسیلی خوبانیاں کھائیں۔ تربوز کاٹا گیا۔ سب لوگوں کو قاش قاش پکڑائی گئی۔ غلام مصطفے خاصے عیال دار تھے۔ بڑے چھوٹے بچے ملا کر نصف درجن سے اوپر جاتے تھے۔ سب لوگ تربوز کھا رہے تھے ‘لیکن وہ سبز اوڑھنی والی چپ چاپ سب کو تکے جاتی تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے شہد جیسے تربوز کا رس زہر بن کر میرے حلق سے اتر رہا ہو۔ میں نے صاحب خانہ سے کہا۔
‘‘ارے اسے بھی تودیں۔’’
ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر میں نے بقیہ دن کا پروگرام ترتیب دیا۔ سرفہرست عروج اور اس کے میاں کی تلاش تھی۔
تین بجے میں شاہرہ قائداعظم اپنے قدموں سے کوٹ رہی تھی۔ پارک ہوٹل’ ٹورسٹ کاٹیج’ سارگن ان’ متکہ ان’ قراقرم ان اور جوبلی ہوٹل سبھوں کو چھان مارا تھا۔ یہ سب ہوٹل شاہراہ قائداعظم پر ہی واقع ہیں۔ کسی نے ہنزہ ان اور چناران میں بھی دیکھنے کے لئے کہا۔ دونوں بابر روڈ چنار باغ کے پاس ہی ہیں۔ وہاں بھی پہنچی۔ اللہ جانے انہیں گلگت کا آسمان کھا گیا تھا یا زمین۔ تنگ آکر میں نے ان پر دو حرف لعنت کے بھیجے اور چنار باغ کی سیر کے لئے آگئی۔
چنار کے درختوں سے لدا پھندا یہ باغ میرے لئے اپنے حسن و رعنائی سے کہیں زیادہ دلکش اس لئے بھی تھا کہ یہاں جنگ آزادی کے شہدا کی یادگار اُن جیالوں کی جوانمردی اور شجاعت کی داستانیں سنا رہی تھی۔ جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود وہ جنگ لڑی جس نے اگر انہیں آزادی جیسی نعمت سے نواز تو وہیں فطرت کی یہ شاہکار وادیاں پاکستان کا ایک حصہ بنیں کہ مجھ جیسی سیاح اپنے وطن کی ان جنت نظیر حصوں کو دیکھتے ہوئے فخر و انبساط سے کڑک مرغی کے پروں کی طرح پھولی جاتی ہے۔
یادگار کے دوسرے سیاہ پتھریلے پوڈے پر بیٹھی میں اپنے سامنے پھیلے کو نو داس پہاڑ اور دریائے گلگت کے پار میدانوں میں ان سورماؤں کی گولیوں کی تڑ تڑ سنتے ہوئے اس وقت کو یاد کر رہی تھی جب میں بہت چھوٹی سی تھی توتلی باتیں کرتی تھی۔ شام کو چولہے کے پاس بیٹھی میری ماں جب راکھ کریدتے ہوئے رویا کرتی اور میں دلگیر سے لہجے میں اس سے رونے کا سبب پوچھا کرتی۔ تب وہ مجھے اپنے سینے سے بھینچ کر کہتی کہ ‘‘تیرا منجھلا ماما کشمیر میں لڑ رہا ہے نا۔ ’’
کشمیر کی لڑائی مدتوں میرے اعصاب پر سوار رہی۔
میری آنکھوں نے کوئی بیس بار ان ناموں کو پڑا تھا جنہوں نے اپنا آپ اور اپنا آج قوم کے کل کے لئے قربان کیا تھا۔
وہی کل میرا آج تھا۔
شاید یہی وجہ تھی کہ جب میں کرنل مرزا حسن خان اور کیپٹن بابر کے مقبروں پر فاتحہ پڑھ رہی تھی میری انکھیں پانی سے تربتر تھی اور میرے ہونٹوں نے بے اختیار کہا تھا۔
‘‘کرنل مرزا حسن خان اور کیپٹن بابر قوم کو آج بھی آپ جیسے جیالوں کی ضرورت ہے۔’’
ہواؤں کی تیزی ‘دریائے گلگت کی لہروں کے بپھراؤ اور تندی نے مجھے ہوا اور سورج کی وہ کہانی یاد دلا دی تھی کہ جنہوں نے آپس میں ایک مسافر کے کپڑے اُتروانے کی شرط باندھ لی تھی۔
کچھ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے گلگت کی ہوائیں بھی کیسی ایسی ہی سازش میں شریک ہو گئی ہیں۔ میں سنگ مرمر کے چبوترے پر جو دریا کے کناروں پر پانی کے اندر تک بنائے گئے ہیں کھڑی کبھی اپنی قمیص کے دامن کو پکڑتی تھی اور کبھی چادر کو۔ پر ہوائیں تو کسی لڑاکی عورت کی طرح مجھے چھبیاں دے رہی تھیں۔
اس وقت کا ہانپتا کانپتا سورج دوپہر والے شہہ زور سورج سے کتنا مختلف تھا؟ عروج و زوال کے بھی کیسے کیسے المیے ہیں؟ نظروں کے سامنے گلگت کا خوبصورت معلق پل بھی اس داستان کو دہراتا تھا۔ ۱۹۰۵ء میں وادی اشکومن کی ایک جھیل کرمبر میں گلیشر کا بند لگ جانے سے یہاں طوفانی سیلاب آیا تھا۔ قدیم پل کسی تنکے کی مانند بہہ گیا تھا۔ نیا پل بنا جسمیں وقت کے ساتھ بہت سی تبدیلیاں ہوئیں۔
مجھے یہاں کھڑے بہت دیر ہو گئی تھی۔ ایسا حسن پرور نظارہ تھا کہ نظر ہٹانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ دریائے گلگت کے ٹھنڈے ٹھار پانیوں سے کھیلتے ہوئے میں نے تھوڑی دیر کے لئے اپنے آپ کو مغل شہزادی سمجھا۔ جن کی شامیں بہتے پانیوں پر بنی بارہ دریوں اور چبوتروں پر گزرتی تھیں۔
دور ایک ہوٹل تھا۔ کچھ لوگ چناروں کے سائے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ میرا بھی جی چاہتا تھا کہ یہاں کھڑے ہو کر گرم چائے کی چسکیاں لوں۔ لیکن ایک اکیلی

عورت کا یوں کھڑے ہونا اور سیر سپاٹا کرنا ہی قابل اعتراض کجا کہ چائے کی عیاشیاں بھی کرتی پھرے۔
واجب تھا کہ لوگوں کو اتنے سارے اعتراضات اور شک و شبہات کی بھول بھلیوں میں نہ پڑنے دوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

٭٭٭

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply