یوسف رند جذبات و تخیّلات کا شاعر/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

تخلیق مشکل اور کٹھن راستہ ہے جس پر چلنے والے بہت کم لوگ ہوتے ہیں اور خاص طور پر تو ایسے روگ کو پالنے سے لوگ گریزاں ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس میدان میں مقصدیت کی راہ ہموار کرنے کے لئے کھیت میں ہل چلانا پڑتا ہے تب کہیں جا کر دل کی زمین زرخیز ہوتی ہے ۔اگر تخلیق کے میدان اور انتخاب میں یوسف رند کا نام لیا جائے تو فیصل آباد کی زمین علم و ادب سے زرخیز نظر آتی ہے اور اس بات میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ اس زمین سے کئی ایسے ناموں کا جنم ہوا ہے جن کے فن اور نام کو عزت و مقام ملا ۔ انہی ایک ناموں میں یوسف رند کا نام بھی معتبر ہے جو اپنے نام کی طرح پھل دار اور فن میں باکمال ہے ۔وہ کئی دہائیوں سے علم و ادب کا چراغ جلانے میں مصروف ہے ۔اس نے کئی ادبی اصناف پر طبع آزمائی کی ہے تاہم اس کی سچی اور کھری پہچان شاعری ہی ہےاور خاص طور پر وہ نظم اور غزل لکھنے کی پوری پوری مشق اور دسترس رکھتا ہے ۔وہ پنجابی اور اردو زبان میں با کمال لکھتا ہے۔ بلاشبہ تخلیق رشک و تحسین کی قوت سے لبریز اور عرش بریں کا ایک عظیم تحفہ ہے جس کا اندازہ زبان و ادب پر دسترس رکھنے والے ایک تخلیق کار کو ہی ہو سکتا ہے ۔
اگر شاعر کی آنکھ میں مشاہدہ اور دل میں فن پالنے کا شوق ہو تو قلم کی روشنائی ادب کے نت نئے موتی بکھیرتی ہے جس کی کشش و ثقل سے مداحوں کا ہجوم لگ جاتا ہے ۔
جب تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ رگ میں گردش کرتی ہے تو شعر و سخن کے پرچار میں وہ لطافت پیدا ہوجاتی ہے جو ہر شاعر کی انفرادی اور کرداری خصوصیت ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔عموما ایسی فنی خوبیاں شاعر کے کلام کو اثرات و ثمرات کے ولولے سے زندہ رکھتی ہیں۔
ادب کا کوئی بھی فن پارہ ہو وہ ذہن و قلب پر اپنا تاثر ضرور چھوڑتا ہے اور خاص طور پر اگر وہ لطافت سے بھرپور اور تاثراتی اہمیت کا حامل ہو تو وہ اپنی گرفت مضبوط بنا لیتا ہے ۔اگر چہ ادب کا میدان وسیع و عریض اور ناقابل پیمائش ہے۔اگر ادب کے حدود اربعہ میں غزل کی بات کی جائے تو دل میں آہ و پکار کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو حواس خمسہ پر اثر انداز ہو کر کئی سوالوں کو جنم دے جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک الگ اور منفرد حقیقت ہے کہ ایک سچا شاعر اپنے عہد کا بے لاگ جائزہ لے کر اسے شعر و ادب میں بیان کرنے کی جو سعی کرتا ہے۔وہ اکثر اپنے قرب و جوار میں ہونے والی تلخیوں ، محرومیوں اور مایوسیوں کو قلم فرسائی کے ذریعے صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے۔صحفات پر اپنے جذبات اور تخیلات کا عرق نچوڑ دیتا ہے۔ وہ حتی المقدور اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ جو کچھ وہ بیان کرے۔وہ تاثراتی اہمیت کا حامل ہو۔اور خاص طور پر اس کی شاعری تاریخ و زبان کا حصہ بن کر اپنی آنے والی نسلوں کو یادوں کا من بانٹے ۔
یہی ایک سچے اور منزہ جذبوں سے لبریز شاعر کی خوبی ہوتی ہے ، فاضل دوست کے اس شعر میں یاد کی آبرو دیکھیں ۔
یادوں کا ایک سایہ تھا
یاد کیا دل رویا تھا
یادوں کی منظر کشی گھومتی آنکھوں میں ایسی چمک پیدا کرتی ہے۔ جیسے سونا چاندی قیمتی اور دیکھنے کو خوبصورت لگتے ہیں۔ عموما ان کی چمک اور کشش نگاہ کو مسلسل ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے پر مجبور کرتی ہے ۔ یہ ایک فطری امنگ ہے ان خوبصورت یادوں کا حسن و جمال اور شگفتگی کبھی ختم نہیں ہوتی اور نہ وہ دل سے ختم ہوتی ہیں۔ یوسف رند نے اپنی شاعری میں ایک یادوں کا نیا جہان آباد کیا ہے نا جانے کیا ہوا کہ ان کے مقدر کا ستارہ پاکستان سے اٹلی جا کر ٹھہر گیا لیکن حیرت ہے وہ ستارہ آج بھی روشن ہے اور وہ مسلسل محوِ گردش ہے یہ میرا ذاتی خیال ہے اگر ایک شاعر کو تخلیق کی پیوند کاری کا فن آجائے تو وہ اپنی شاعری میں کئی طرح کے رنگوں و ذائقوں کو متعارف کروا سکتا ہے ۔
یوسف رند فنی اور تکنیکی اعتبار سے اپنی غزلیات کو جذبات کا ایسا تڑکا لگاتا ہے کہ کھانے والا انگلیاں چاٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ اگر جذبات سرد مہری کا شکار ہوجائیں تو وہاں حسن و عشق کی افادیت ختم ہو جاتی ہے۔اگرچہ فاضل دوست کی غزلیات میں نئے رنگ ، خوشبو و حسن اور اور تروتازگی کا احساس مسلسل کیفیت سے دوچار ملتا ہے ۔اس کے ساتھ اس کی ایک اور منفرد خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے پاس تخیلات کا جو خزانہ موجود ہے نا تو وہ زنگ آلودہ ہے اور نا ہی وہ ختم ہونے والا ہے۔ فنی اعتبار سے وہ غزل کو جو حیا دار لباس پہنادیتا ہے۔
وہ دیکھنے والے کو دیدار کے لیے مجبور کر دیتا ہے۔اس کی غزلیات کی خاص خوبی یہ بھی ہے کہ وہ مشرقی اقدارو روایات کا بھرم رکھتی ہیں۔
یہاں شعور بے زبان ہو جائے وہاں اسے زبان دینے کے لئے غزل ایک حدت اور نظارہ بن کر آنکھوں کو ترو تازگی عطا کرتی ہے۔اس کا مثبت پہلو یہ ہے۔یہ قابل دید بھی ہوتی ہے اور قابل رشک بھی ۔انسان ایک مسافر ہے جسے سفر طے کرنے کے لئے بہت سے مصائب و آلام برداشت کرنا پڑتے ہیں موصوف کے اس شعر کو دلجمی سے پڑھیں ۔
رخت سفر اذیتوں نے آسان کردیا
یہ خوف زدہ زندگی پتھر نہیں رہی
غزل کی تابندہ روایت نے یوسف رند کو فکری توانائی کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔وہ اپنے کلام میں فلسفہ زندگی کو نئے روپ میں داخل کرتا ہے جس کے داخلی اور خارجی دروازے آمد و رفت کو پیش کرتے ہیں ۔یقینا جب ہماری آنکھیں یوسف رند کے اشعار کا نظارہ کرتیں ہیں تو آمادگی، پرچار اور سلجھاؤ کا قرینہ خود بخود آنکھوں میں اتر آتا ہے ۔اگر یوسف رند کے کلام پر غور و خوض کیا جائے تو اس کے کلام میں ندرت، سادگی اور سلاست ،تاریخی، جغرافیائی اور حساسیت کے وہ نمونے نظر آتے ہیں جہاں قاری رک رک کر اشعار کی آبرو کا جائزہ لیتا ہے۔اگرچہ زندگی دھوپ چھاؤں جیسی ہے۔حقیقت یہی ہے کہ زندگی میں کبھی دکھ اور کبھی سکھ ملتے ہیں۔اسی طرز کے ایک خیال کا ایک شعر ملاحظہ کریں ۔
اک دھوپ ہے کہ میرا سایہ نگل گئی
میں کھڑا ہوں جس شہر میں شجر لیے ہوئے
میرے نزدیک رند کی غزلیات جذبوں اور تخیلات کا ایک حسن مر قح ہے۔ جس میں عشق کی تڑپ ،روحانی آسودگی ،فصاحت و بلاغت ،رمز و ایمائیت ،شب کے تاروں سے باتیں ،قلبی واردات ،لطافت و شرینی ،تنہائی کی تلخیاں ،محفل کی رونقیں ،منبر کا دیا ، دست دعا ،کہکشاؤں کے جھرمٹ جیسے موضوعات اپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ ان کے اس شعر میں رات کے سفر کا حسن نزاکت دیکھیں ۔
رات کا سفر تھا جھیل میں
چاند میری گود میں اترا تھا
میں یوسف رند کی غزلیات پڑھنے کے بعد انھیں غزل گوئی میں جذبات کی فروانی اور خیال کی رعنائی کا استاد مانتا ہوں ۔میں کافی عرصہ سے ان کی کلام کو پڑھتا اور سنتا آیا ہوں جس کے اندر آفاقی صداقتوں کے جھرمٹ نظر آتے ہیں۔ میرا ان کے ساتھ زمینی اور روحانی رشتہ ہے ۔میں انہیں شاعری کے میدان میں ادب کی خدمات پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ خدا انہیں علمی و ادبی حلقوں میں عزت و توقیر بخشے۔
میں ان کے اس خوبصورت شعر سے اجازت چاہوں گا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

صبح جانے سے پہلے آنا
رات کو بیٹھے سوچ رہا تھا

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply